حدیث نمبر :442

روایت ہے حضرت نافع سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر کے ساتھ کسی کام میں گیا حضرت ابن عمرنے اپنی حاجت پوری کرلی۲؎ اور آپ کی اس دن کی حدیث یہ تھی کہ فرمایا ایک آدمی گلیوں میں سے کسی گلی میں گزرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ملاقات ہوگئی۳؎ حالانکہ آپ پاخانہ یا پیشاب سے آئے تھے۴؎ اس نے سلام کیا آپ نے جواب نہ دیا۔حتی کہ وہ شخص جب گلی میں چھپ جانے کے قریب ہوا تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے جن سے اپنے چہرے کا مسح کیا پھر دوبارہ ہاتھ مارے اور اپنے ہاتھوں پر پھیر ے پھر اس شخص کا جواب دیا۵؎ اورفرمایا کہ مجھے تمہارے جواب دینے میں رکاوٹ صرف یہ تھی کہ میں پاک نہ تھا۶؎(ابوداؤد)

شرح

۱؎ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ حضرت نافع سیدناعبداﷲابن عمر کے آزادکردہ غلام ہیں،تابعین میں سے ہیں،ویلم کے رہنے والے، ۱۱۷ھ؁ میں وفات پائی،بڑے عالم متقی تھے۔

۲؎ ظاہریہ ہے کہ یہاں حاجت سے مرادکوئی ضروری کام ہے نہ کہ استنجاءجیساکہ بعض لوگوں نے سمجھایعنی آپ کسی کام کے لیے گئے میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔

۳؎ یعنی اتفاقًا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات ہوگئی اس وقت ملاقات کا ارادہ نہ تھا۔

۴؎ ظاہر یہ ہے کہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام پیشاب یاپاخانہ سے بالکل فارغ ہوکرتشریف لائے تھے یعنی ڈھیلے پانی کا استنجاءبھی کرچکے تھے کیونکہ عادت کریمہ یہ نہیں تھی کہ پیشاب پاخانہ کے بعد ڈھیلے سے استنجاءکرتے ہوئے بازاروں یا گلیوں میں چلیں،بلکہ خاص موقعہ پر ہی خشک کرلیتے تھے کہ اس طرح چلنامروت کے خلاف ہے۔

۵؎ جب اس شخص نے سلام کیا توکوئی لائق تیمم دیوار سامنے موجود نہ تھی۔اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دیوار تک پہنچے اتنے میں وہ شخص گلی کے کنارے پرپہنچ گیا،لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ فورًا ہی تیمم کیوں نہ کرلیا۔اس سے معلوم ہوا کہ کچی دیوار پرتیمم جائز ہے،یہ ہی احناف کا مذہب ہے۔تیمم کے لئے صرف ریت یا خشک مٹی ضروری نہیں۔

۶؎ یعنی میں اس وقت بے وضو تھا اور جواب میں کہنا ہوتا ہے “وعلیکم السلام”سلام اﷲ تعالٰی کا نام بھی ہے اگرچہ یہاں وہ معنی مراد نہیں پھر بھی اس لفظ کا احترام کرتے ہوئے میں نے بغیر وضو یہ لفظ بولنا مناسب نہ سمجھا۔حضرت شیخ نے اشعۃ اللمعات میں فرمایا کہ اس وقت حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر خاص انوار الہیہ کی تجلی ہورہی تھی جس کا اثر یہ تھا کہ آپ نے بغیر طہارت سلام کا لفظ بھی منہ نہ سے نکالا،یہ خصوصی حکم ہے،لہذا اس حدیث پر نہ تو یہ اعتراض ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پاخانے سے آکر قرآن پڑھاتے تھے،دعائیں پڑھتے تھے،وضو سے پہلے بسم اﷲ پڑھتے تھے اوریہاں بغیر وضو سلام کا لفظ بھی نہیں بولتے،کہ وہ عام حکم شرعی تھا اور یہ حکم خصوصی۔شریعت وطریقت،فتویٰ وتقویٰ میں فرق ہے۔نہ یہ اعتراض ہے کہ پانی کے ہوتے ہوئے تیمم درست نہیں ہوتا،پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تیمم کیوں کیا؟اس تیمم سے نماز وغیرہ نہ پڑھی صرف جواب سلام دیا،نماز جنازہ جارہی ہو تو پانی کے ہوتے تیمم جائز ہے مگر اس سے دوسری نماز نہیں پڑھ سکتے۔یہاں بھی جواب کا وقت جارہا تھا،آدمی چھپا جارہا تھا اس لیے یہ عمل فرمایا۔غرض کہ یہ حدیث بےغبار ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جواب سلام میں دیر لگاناضرورۃً جائز ہے اور اس دیر لگ جانے پر معذرت کردینا سنت ہے تاکہ اس کو رنج نہ ہو۔