حکایت نمبر192: نورانی بزرگ

حضرت سیدنا ابراہیم بن شیبان علیہ رحمۃ اللہ المنّان فرماتے ہیں،میں نے حضرت سیدنا ابو عبداللہ مغربی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا:” میں نے بہت عرصہ سے اندھیرا نہیں دیکھا(یعنی انہیں دن کی طرح رات کے وقت بھی ہر طرف روشنی ہی روشنی نظر آتی اور رات میں بھی ہر چیز واضح نظر آتی )

حضرت سیدنا ابراہیم بن شیبان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں:”واقعی! آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کایہ فرمان بالکل درست ہے ، ہم جب کبھی سخت اندھیری رات میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوتے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمارے آگے آگے اسی طرح چلتے جیسے دن کے اجالے میں چل رہے ہوں اورہماری یہ کیفیت ہوتی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا، جب ہم میں سے کوئی پھسلنے لگتا یا راستے سے ایک طرف ہونے لگتا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے:” سیدھی طرف ہوجاؤ !اِس طرف چلو ۔”اس طرح آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہہ ماری رہنمائی کرتے۔ 

ایک مرتبہ سخت اندھیری رات میں ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ننگے پاؤں اورننگے سر تھے، ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیچھے پیچھے چلنے لگے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہہ ماری رہنمائی فرماتے رہے، ساری رات سفر جاری رہا، جب صبح ہوئی تو ہماری نظر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارک قدموں پر پڑی تووہ ایسے صاف وشفاف تھے جیسے کجاوے سے اترنے والی دُلہن کے پاؤں صاف وشفاف ہوتے ہیں،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارک قدموں پر مٹی کا نا م و نشان تک نہ تھا۔ 

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے معتقدین کے درمیان بیٹھ جاتے اورانہیں وعظ ونصیحت فرماتے ، میں نے کبھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو لوگوں کے سامنے روتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اتنا روئے کہ روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔ 

ہوایوں کہ ایک مرتبہ ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ” کوہ ِطور ”پر گئے، وہاں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ہم بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گرد بیٹھ گئے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہمیں وعظ ونصیحت کرتے ہوئے فرمایا:”انسان اس وقت تک اپنی مراد کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ سب سے الگ تھلگ ہوکر اپنے کام میں مشغول نہ ہوجائے۔” ابھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اتنی ہی بات کی تھی کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زور زور سے رونے لگے اورتڑپنے لگے۔ ہم نے دیکھا کہ آس پاس موجود پتھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی گفتگو کے بعد ریزہ ریزہ ہوگئے ،آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اسی طرح روتے رہے اور تڑپتے رہے،بالآخر جب حالت سنبھلی اور ہوش میں آئے تو ایسے خوف زدہ اورغمگین تھے جیسے ابھی قبر سے نکل کر آرہے ہوں۔ پھر کئی دن تک آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر خوف طاری رہا اور اس واقعہ کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت کمزور ہوگئے ۔ ” (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)