أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰٮةَ فِيۡهَا هُدًى وَّنُوۡرٌ‌ ۚ يَحۡكُمُ بِهَا النَّبِيُّوۡنَ الَّذِيۡنَ اَسۡلَمُوۡا لِلَّذِيۡنَ هَادُوۡا وَ الرَّبَّانِيُّوۡنَ وَالۡاَحۡبَارُ بِمَا اسۡتُحۡفِظُوۡا مِنۡ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوۡا عَلَيۡهِ شُهَدَآءَ‌‌ ۚ فَلَا تَخۡشَوُا النَّاسَ وَاخۡشَوۡنِ وَلَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰيٰتِىۡ ثَمَنًا قَلِيۡلًا‌ ؕ وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡكٰفِرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک ہم نے تورات کو نازل کیا جس میں ہدایت اور نور ہے اللہ کے نبی جو ہمارے مطیع تھے اس کے مطابق یہود کا فیصلہ کرتے رہے اور اللہ والے اور علماء (فیصلہ کرتے رہے) کیوں کہ ان سے کتاب اللہ کی حفاظت کرائی گئی تھی ‘ اور وہ اس پر گواہ تھے ‘ سو تم لوگوں سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو ‘ اور میری آیتوں کے بدلہ میں تھوڑی قیمت نہ لو ‘ اور جو اللہ کے نازل کیے ہوئے (احکام) کے موافق فیصلہ نہ کریں سو وہی لوگ کافر ہیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک ہم نے تورات کو نازل کیا جس میں ہدایت اور نور ہے۔ (المائدہ : ٤٤) 

شرائع سابقہ کا ہم پر حجت ہونا :

اس آیت میں ہدایت سے مراد احکام شرعیہ ہیں اور نور سے مراد اصول اور عقائد ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ہدایت سے مراد دین حق کی طرف رہنمائی ہے اور نور سے مراد ان احکام کو کھول کر بیان کرنا ہے جو ان پر مخفی تھے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ہدایت۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ہدایت سے مراد وہ مسائل ہیں جن کو وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھتے تھے اور نور سے مراد اس بات کا بیان ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق نبی ہیں۔ اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ ہم سے پہلی شریعت بھی ہم پر لازم ہے ‘ تاوقتیکہ اس کا منسوخ ہونا ہم کو معلوم ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ‘ تورات میں ہدایت اور نور ہے۔ اگر تورات کے احکام حجت نہ ہوں تو وہ ہدایت اور نور نہیں رہے گی۔ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ زانیوں کا جو مقدمہ لے کر یہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ہیں ‘ انبیاء سابقین جو اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار تھے ‘ وہ ایسے مقدمات کا تورات کے مطابق فیصلے کرتے رہے ہیں ‘ اور اولیاء اور علماء بھی اس کے مطابق فیصلے کرتے رہے ہیں ‘ اور اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان زانیوں کے متعلق جو رجم کا فیصلہ کیا ہے ‘ وہ بھی تورات کے مطابق ہے ‘ اور ان علماء سے تورات کی حفاظت کرائی گئی ہے اور یہ علماء اس کی شہادت دیتے تھے کہ نبیوں نے جو یہودیوں کے مقدمات میں تورات کے مطابقہ فیصلہ کیا ہے ‘ وہ صحیح ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ اللہ والے اور علماء نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق شہادت دیتے تھے کہ آپ اللہ کے برحق نبی ہیں ‘ آپ پر اللہ کی طرف سے کلام نازل ہوا ہے ‘ اور یہودیوں کے اس مقدمہ میں آپ نے جو فیصلہ کیا ہے ‘ وہ صحیح ہے اور تورات کے مطابق ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہود کے علماء اور راہبوں سے فرمایا : سو تم لوگوں سے نہ ڈرو ‘ مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلہ میں تھوڑی قیمت نہ لو ‘ یعنی امیر لوگوں پر اللہ کی حدود نافذ کرنے کے سلسلہ میں تم یہ خوف نہ کرو ‘ کہ پھر تمہارے نذرانے اور وظیفے جو امیروں سے ملتے تھے ‘ وہ بند ہوجائیں گے ‘ بلکہ اس بات سے ڈرو کہ اگر تم نے اللہ کی حدود کو نافذ نہ کیا اور امیروں کے نذرانوں کے لالچ میں تورات کی آیتوں کا غلط مطلب بیان کیا تو پھر آخرت میں تم کو بہت ہولناک اور دائمی عذاب ہوگا۔ اس آیت کے اس حصہ سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ تورات کے جو احکام قرآن اور حدیث میں بغیر انکار کے بیان کیے گئے ہیں ‘ وہ بھی ہم پر حجت ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :‘ اور جو اللہ کے نازل کیے ہوئے (احکام) کے موافق فیصلہ نہ کریں سو وہی لوگ کافر ہیں۔ (المائدہ : ٤٤) 

قرآن کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کا کفر ہونا۔ 

اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے موافق حکم نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے ‘ کفر نہیں ہے۔ اور اس آیت میں اس کو کفر قرار دیا ہے۔ اور اس سے بہ ظاہر خوارج کے مذہب کی تائید ہوتی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو شخص جائز اور حلال سمجھتے ہوئے اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے موافق فیصلہ نہ کرے ‘ وہ کافر ہے اور اس آیت سے یہی مراد ہے ‘ اور یا اس سے مراد یہ ہے کہ جو قرآن کا انکار کرتے ہوئے یا قرآن کا رد کرتے ہوئے یا قرآن مجید کی توہین کرتے ہوئے ‘ اس کے موافق فیصلہ نہ کرے ‘ وہ کافر ہے۔ یا اس سے مراد ہے کہ جو شخص اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے موافق فیصلہ نہ کرے ‘ وہ کافر کے مشابہ ہے۔ ایک جواب یہ ہے کہ اس آیت کا سیاق وسباق یہود کے متعلق ہے ‘ سو یہ وعید یہود کے بارے میں ہے۔ 

اس کے بعد فرمایا : اور جو اللہ کے نازل کیے ہوئے (احکام) کے موافق فیصلہ نہ کریں ‘ سو وہی لوگ فاسق ہیں۔ (المائدہ : ٤٧) 

اور ان آیتوں کا مفہموم عام ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید کے موافق فیصلہ نہ کرنا ظلم اور فسق ہے ‘ خواہ فیصلہ نہ کرنے والا مسلمان ہو یا یہودی ہو یا عیسائی۔ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکام پر تین باتین فرض کی ہیں : 

(١) فیصلہ کرنے میں اپنی نفسانی خواہشات کی اتباع نہ کریں ‘ بلکہ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ کریں۔ 

(٢) فیصلہ کرنے میں لوگوں سے نہ ڈریں ‘ اللہ سے ڈریں۔ 

(٣) اللہ کی آیتوں کے بدلہ میں تھوڑی قیمت نہ لیں۔ 

اس کا معنی یہ ہے کہ رشوت یا نذرانہ لے کر عدل کو ترک کرکے بےانصافی سے فیصلہ نہ کریں ‘ اس سلسلہ میں یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہیے۔ 

امام احمد بن علی التمیمی متوفی ٣٠٧ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کسی شخص کو لوگوں کا خوف حق گوئی یا عظیم نصیحت کرنے سے باز نہ رکھے۔ جب اسے اس کا علم ہو ‘ کیونکہ یہ خوف نہ موت کو نزدیک کرسکتا ہے نہ رزق کو دور کرسکتا ہے۔ (مسند ابو یعلی ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ١٤١١‘ المعجم الاوسط ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٢٥‘ المطالب العالیہ ‘ ٤٥٤٦‘ ٤٥٤٦‘ حافظ الہثیمی نے کہا ہے ‘ کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ‘ ج ٧‘ ص ٢٧٤۔ ٢٧٢)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 44