وَ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَ اكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَۚۖ(۷۲)

اور کتابیوں کا ایک گروہ بولا (ف۱۳۴) وہ جو ایمان والوں پر اُترا (ف۱۳۵) صبح کو اس پر ایمان لاؤ اور شام کو منکر ہوجاؤ شاید وہ پھرجائیں(ف۱۳۶)

(ف134)

اور انہوں نے باہم مشورہ کرکے یہ مَکۡر سوچا۔

(ف135)

یعنی قرآن شریف۔

(ف136)

شانِ نزول یہود اسلام کی مخالفت میں رات دن نئے نئے مَکۡر کیا کرتے تھے خیبرکے علماء یہود کے بارہ شخصوں نے باہمی مشورہ سے ایک یہ مَکۡر سوچاکہ ان کی ایک جماعت صبح کو اسلام لے آئے اور شام کو مرتد ہوجائے اور لوگوں سے کہے کہ ہم نے اپنی کتابوں میں جو دیکھا تو ثابت ہوا کہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نبی موعود نہیں ہیں جن کی ہماری کتابوں میں خبر ہے تاکہ اس حرکت سے مسلمانوں کو دین میں شبہ پیدا ہو لیکن اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرماکر ان کا یہ راز فاش کردیااور ان کا یہ مَکۡر نہ چل سکااور مسلمان پہلے سے خبردار ہوگئے۔

وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِـعَ دِیْنَكُمْؕ-قُلْ اِنَّ الْهُدٰى هُدَى اللّٰهِۙ-اَنْ یُّؤْتٰۤى اَحَدٌ مِّثْلَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ اَوْ یُحَآجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْؕ-قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِۚ-یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۚۙ(۷۳)

اور یقین نہ لاؤ مگر اس کا جو تمہارے دین کا پیرو ہے تم فرمادو کہ اللہ ہی کی ہدایت ہدایت ہے(ف۱۳۷) (یقین کا ہے کا نہ لاؤ) اس کا کہ کسی کو ملے (ف۱۳۸) جیسا تمہیں ملا یا کوئی تم پر حجت لاسکے تمہارے رب کے پاس (ف۱۳۹) تم فرمادو کہ فضل تو اللہ ہی کے ہاتھ ہے جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے

(ف137)

اور جواس کے سوا ہے وہ باطل و گمراہی ہے۔

(ف138)

دین وہدایت اور کتاب و حکمت اور شرف فضیلت۔

(ف139)

روز قیامت۔

یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۷۴)

اپنی رحمت سے (ف۱۴۰) خاص کرتا ہے جسے چاہے (ف۱۴۱) اور اللہ بڑے فضل والا ہے

(ف140)

یعنی نبوّت و رسالت سے۔

(ف141)

مسئلہ اس سے ثابت ہوتاہے کہ نبوّت جس کسی کو ملتی ہے اللہ کے فضل سے ملتی ہے اس میں استحقاق کادخل نہیں( خازن)

وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْهِ قَآىٕمًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۷۵)

اور کتابیوں میں کوئی وہ ہے کہ اگر تو اس کے پاس ایک ڈھیر امانت رکھے تو وہ تجھے ادا کردے گا (ف۱۴۲) اور ان میں کوئی وہ ہے کہ اگر ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھے تو وہ تجھے پھیر کر نہ دے گا مگر جب تک تو اس کے سر پر کھڑا رہے-(ف۱۴۳) یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ اَن پڑھوں (۱۴۴) کے معاملہ میں ہم پر کوئی مؤاخذہ نہیں اور اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں (ف۱۴۵)

(ف142)

شان نزول یہ آیت اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی اور اس میں ظاہر فرمایا گیاکہ ان میں دوقسم کے لوگ ہیں امین وخائن بعض تو ایسے ہیں کہ کثیر مال ان کے پاس امانت رکھا جائے تو بے کم وکاست وقت پر اداکردیں جیسے حضرت عبداللہ بن سلام جنکے پاس ایک قریشی نے بارہ سواَوقِیہ سوناامانت رکھاتھا آپ نے اس کو ویساہی اداکیااور بعض اہل کتاب میں اتنے بددیانت ہیں کہ تھوڑے پر بھی ان کی نیت بگڑ جاتی ہے جیسے کہ فخاص بن عازوراء جس کے پاس کسی نے ایک اشرفی امانت رکھی تھی مانگتے وقت اس سے مُکَرگیا۔

(ف143)

اور جب ہی دینے والا اس کے پاس سے ہٹے وہ مال امانت ہضم کرجاتا ہے۔

(ف144)

یعنی غیر کتابیوں ۔

(ف145)

کہ اس نے اپنی کتابوں میں دوسرے دین والوں کے مال ہضم کرجانے کا حکم دیا ہے باوجود یہ کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں کوئی ایسا حکم نہیں۔

بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۷۶)

ہاں کیوں نہیں جس نے اپنا عہد پورا کیا اور پرہیزگاری کی اور بے شک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں

اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓىٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۷)

وہ جو اللہ کے عہد اوراپنی قسموں کے بدلے ذلیل دام لیتے ہیں (ف۱۴۶) آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے نہ ان کی طرف نظر فرمائے قیامت کے دن اور نہ انہیں پاک کرے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے (ف۱۴۷)

(ف146)

شانِ نزول یہ آیت یہود کے احبار اور انکے رؤساء ابو رافع وکنانہ بن ابی الحقیق اورکعب بن اشرف وحیّی بن اخطب کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے اللہ تعالٰی کاوہ عہد چھپایا تھاجو سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے متعلق ان سے توریت میں لیا گیا۔ انہوں نے اس کو بدل دیا اور بجائے اس کے اپنے ہاتھوں سے کچھ کاکچھ لکھ دیا اور جھوٹی قسم کھائی کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنی جماعت کے جاہلوں سے رشوتیں اور زر حاصل کرنے کے لئے کیا۔

(ف147)

مسلم شریف کی حدیث میں ہے سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتین لوگ ایسے ہیں کہ روز قیامت اللہ تعالٰی نہ ان سے کلام فرمائے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت کرے نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے اور انہیں درد ناک عذاب ہے اس کے بعد سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کو تین مرتبہ پڑھا حضرت ابوذر راوی نے کہا کہ وہ لوگ ٹوٹے اور نقصان میں رہے یارسول اللہ وہ کون لوگ ہیں حضور نے فرمایا ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور احسان جتانے والا اور اپنے تجارتی مال کو جھوٹی قسم سے رواج دینے والا حضرت ابو امامہ کی حدیث میں ہے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کسی مسلمان کاحق مارنے کے لئے قسم کھائے اللہ اس پر جنت حرام کرتا ہے اور دوزخ لازم کرتا ہےصحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ اگرچہ تھوڑی ہی چیز ہو فرمایا اگرچہ ببول کی شاخ ہی کیوں نہ ہو۔

وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مَا هُوَ مِنَ الْكِتٰبِۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ مَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۷۸)

اور ان میں کچھ وہ ہیں جو زبان پھیر کر کتاب میں میل کرتے ہیں کہ تم سمجھو یہ بھی کتاب میں ہے اور وہ کتاب میں نہیں اور کہتے ہیں یہ اللہ کے پاس سے ہے اور وہ اللہ کے پاس سے نہیں اور اللہ پر دیدہ ودانستہ جھوٹ باندھتے ہیں (ف۱۴۸)

(ف148)

شانِ نزول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ آیت یہود و نصارٰی دونوں کے حق میں نازل ہوئی کہ انہوں نے توریت وانجیل کی تحریف کی اور کتاب اللہ میں اپنی طرف سے جو چاہاملایا۔

مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَۙ(۷۹)

کسی آدمی کا یہ حق نہیں کہ اللہ اُسے کتاب اور حکم و پیغمبری دے (ف۱۴۹) پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہوجاؤ (ف۱۵۰) ہاں یہ کہے گا کہ اللہ والے (ف۱۵۱) ہوجاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس سے کہ تم درس کرتے ہو (ف۱۵۲)

(ف149)

اور کمال علم وعمل عطا فرمائے اور گناہوں سے معصوم کرے۔

(ف150)

یہ انبیاء سے ناممکن ہے اور ان کی طرف ایسی نسبت بہتان ہے۔شانِ نزول نجران کے نصارٰی نے کہاکہ ہمیں حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے حکم دیا ہے کہ ہم انہیں رب مانیں اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ان کے اس قول کی تکذیب کی اور بتایاکہ انبیاء کی شان سے ایساکہنا ممکن ہی نہیں اس آیت کے شان نزول میں دوسرا قول یہ ہے کہ ابو رافع یہودی اور سید نصرانی نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہایا محمد آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی عبادت کریں اور آپ کو رب مانیں حضور نے فرمایا اللہ کی پناہ کہ میں غیر اللہ کی عبادت کاحکم کروں نہ مجھے اللہ نے اس کاحکم دیانہ مجھے اس لئے بھیجا۔

(ف151)

ربّانی کے معنی عالم فقیہ اور عالم باعمل اور نہایت دیندار کے ہیں۔

(ف152)

اس سے ثابت ہوا کہ علم و تعلیم کاثمرہ یہ ہوناچاہئے کہ آدمی اللہ والا ہو جائے جسے علم سے یہ فائدہ نہ ہوا اس کاعلم ضائع اور بے کار ہے۔

وَ لَا یَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓىٕكَةَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرْبَابًاؕ-اَیَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۠(۸۰)

اور نہ تمہیں یہ حکم دے گا (ف۱۵۳) کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا ٹھہرا لو کیا تمہیں کفر کا حکم دے گا بعد اس کے کہ تم مسلمان ہولیے (ف۱۵۴)

(ف153)

اللہ تعالی یا اس کا کوئی نبی۔

(ف154)

ایسا کسی طرح نہیں ہوسکتا۔