امام اعظم پر مظالم اوروصال

بنوامیہ کے آخری حکمراں مروان الحمار نے یزید بن عمروبن ھبیرہ کو عراق کاوالی بنادیاتھا ،عراق میں جب بنو مروان کے خلاف فتنہ اٹھا توابن ھبیرہ نے علماء کو جمع کرکے مختلف کاموں پر متعین کیا ۔ابن ابی لیلی ،ابن شبرمہ اوردائود بن ابی ہند بھیاس میں شامل تھے ۔

امام اعظم کے پاس قاصد بھیج کرآپ کو بلوایا اورابن ھبیرہ نے آپ پر عہدہٗ قضا پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ یہ حکومت کی مہر ہے ،آپکے حکم کے بغیر سلطنت میں کوئی کام نہیں ہوگا ،بیت المال پرسارا اختیار آپ کا رہے گا ۔لہذا آپ یہ عہد قبول کریں ،آپ نے انکارکیا ۔ابن ھبیرہ نے قسم کھائی کہ یہ عہدہ آپ کو قبول کرنا ہوگا ورنہ سخت سزا دی جائے گی ۔آپ نے بھی قسم کھائی کہ ہرگز قبول نہیں کرونگا ۔یہ سنکر بولا آپ میرے مقابلہ میں قسم کھاتے ہیں ۔لہذاآپ کے سرپرکوڑوں کی بوچھار شروع کردی گئی ۔بیس کوڑے مارے گئے اور دس دن تک کوڑے لگوائے جاتے رہے ۔امام اعظم نے فرمایا : اے ابن ھبیرہ !یادرکھو کل بروز قیامت خداکو منہ دکھانا ہے ۔تم کو کل اللہ کے حضور کھڑاہونا ہوگا اور میرے مقابلہ میں تمہیں نہایت ذلیل کیاجائے گا ،یہ سنکر ابن ھبیرہ نے کوڑے تورکوادیئے لیکن قیدخانہ میں بھیج دیا ۔

رات کو خواب میں ابن ھبیرہ نے دیکھا کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمارہے ہیں ۔اے ابن ھبیرہ ! میری امت کے لوگوں کو بغیر کسی جرم کے سزائیں دیتا اورستاتاہے ،خداسے ڈراورانجام کی فکر کر ۔

یہ خواب دیکھ کر نہایت بے چین ہوا اور صبح اٹھکر آپ کو قید خانے سے رہا کردیا ۔اس طرح آپکی قسم پورہوگئی ۔یہ پہلی ابتلاء وآزمائش تھی ۔

بعد کے واقعات شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی زبانی ملاحظہ کریں ۔

خلافت بنوامیہ کے خاتمہ کے بعد سفاح پھر منصور نے اپنی حکومت جمانے اورلوگوں کے دلوں میں اپنی ہیبت بٹھانے کیلئے وہ وہ مظالم کئے جوتاریخ کے خونی اوراق میں کسی سے کم نہیں ۔منصور نے خصوصیت کے ساتھ سادات پرجومظالم ڈھائے ہیں وہ سلاطین عباسیہ کی پیشانی کا بہت بڑابدنما داغ ہیں ۔اسی خونخوار نے حضرت محمد بن ابراہیم دیباج کودیوار میں زندہ چنوادیا ۔آخر تنگ آمد بجنگ آمد ۔ان مظلوموں میں سے حضرت محمد نفس ذکیہ نے مدینہ طیبہ میں خروج کیا ۔ابتداء ان کے ساتھ بہت تھوڑے لوگ تھے ۔بعد میں بہت بڑی فوج تیار کرلی ۔ حضرت امام مالک نے بھی ان کی جمایت کا فتوی دیدیا ۔نفس ذکیہ بہت شجاع فن جنگ کے ماہر قوی طاقتورتھے ۔مگر اللہ عزوجل کی شان بے نیاز کہ جب منصور سے مقابلہ ہواتو ۱۴۵ھ میں دادمردانگی دیتے ہوئے شہید ہوگئے ۔

انکے بعد ان کے بھائی ابراہیم نے خلافت کادعوی کیا ۔ہرطرف سے انکی حمایت ہوئی ۔ خاص کوفے میں لگ بھگ لاکھ آدی انکے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئے ۔بڑے بڑے ائمہ علماء فقہاء نے ان کا ساتھ دیا ۔حتی کہ حضرت امام اعظم نے بھی انکی حمایت کی بعض مجبوریوں کی وجہ سے جنگ میں شریک نہ ہوسکے جس کا ان کو مرتے دم تک افسوس رہا ۔مگر مالی امداد کی۔ لیکن نوشتۂ تقدیر کون بدلے ۔ابراہیم کوبھی منصور کے مقابلے میں شکست ہوئی اورابراہیم بھی شہید ہوگئے ۔

ابراہیم سے فارغ ہوکر منصورنے ان لوگوں کی طرف توجہ کی جن لوگوں نے ان کا ساتھ دیا تھا ۔۱۴۶ھ میں بغدادکو دارالسلطنت بنانے کے بعد منصور نے حضرت امام اعظم کو بغداد بلوایا۔منصور انہیں شہید کرنا چاہتاتھا ۔مگر جواز قتل کیلئے بہانہ کی تلاش تھی ۔اسے معلوم تھا کہ حضرت امام میری حکومت کے کسی عہدے کو قبول نہ کریں گے ۔اس نے حضرت امام کی خدمت میں عہدہ قضا پیش کیا ۔امام صاحب نے یہ کہہ کرانکار فرمادیا کہ میں اس کے لائق نہیں ۔منصور نے جھنجھلاکرکہا تم جھوٹے ہو۔امام صاحب نے فرمایا کہ اگر میں سچاہوں تو ثابت کہ میں عہدئہ قضاکے لائق نہیں ۔جھوٹاہوں توبھی عہدئہ قضاکے لائق نہیں، اس لئے کہ جھوٹے کوقاضی بنانا جائز نہیں ۔اس پر بھی نہ مانا اورقسم کھاکرکہا تم کو قبول کرنا پڑے گا ۔امام صاحب نے بھی قسم کھائی کہ ہرگز نہیں قبول کروں گا ۔ربیع نے غصے سے کہا ابوحنیفہ تم امیرالمومنین کے مقابلے میں قسم کھاتے ہو ۔امام صاحب نے فرمایا ۔ہاں یہ اس لئے کہ امیرالمومنین کو قسم کا کفارہ اداکرنا بہ نسبت میرے زیادہ آسان ہے ۔اس پر منصور نے جزبز ہوکر حضرت امام کو قید خانے میں بھیج دیا ۔اس مدت میں منصور حضرت امام کو بلاکر اکثر علمی نداکرات کرتا رہتاتھا ،منصور نے حضرت امام کو قید توکردیا مگر وہ ان کی طرف سے مطئن ہرگز نہ تھا ۔بغداد چونکہ دارالسلطنت تھا ۔اس لئے تمام

دنیا ئے اسلام کے علماء ،فقہاء ،امراء ،تجار ،عوام ،خواص بغداد آتے تھے ۔حضرت امام کا غلغلہ پوری دنیا میں گھر گھر پہنچ چکا تھا ۔قید نے انکی عظمت اور اثر کو بجائے کم کرنے اور زیادہ بڑھادیا ۔جیل خانے ہی میں لوگ جاتے اور ان سے فیض حاصل کرتے ۔حضرت امام محمد اخیروقت تک قید خانے میں تعلیم حاصل کرتے رہے ۔منصور نے جب دیکھا کہ یوں کام نہیں بنا تو خفیہ زہر دلوادیا ۔جب حضرت امام کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو خالق بے نیاز کی بارگاہ میں سجدہ کیا سجدے ہی کی حالت میں روح پرواز کرگئی ۔ع

جتنی ہوقضا ایک ہی سجدے میں اداہو ۔

تجہیزوتدفین ۔وصال کی خبر بجلی کی طرح پورے بغداد میں پھیل گئی ۔جوسنتا بھاگا ہواچلا آتا ۔ قاضی بغداد عمارہ بن حسن نے غسل دیا ۔غسل دیتے جاتے اور یہ کہتے جاتے تھے واللہ ! تم سب سے بڑے فقیہ ،سب سے بڑے عابد، سب سے بڑے زاہد تھے ۔تم میں تمام خوبیاں جمع تھیں ۔تم نے اپنے جانشینوں کو مایوس کر دیا ہے کہ وہ تمہارے مرتبے کو پہنچ سکیں ۔غسل سے فارغ ہوتے ہوتے جم غفیر اکٹھا ہوگیا ۔پہلی بار نماز جنازہ میں پچاس ہزار کامجمع شریک تھا ۔ اس پر بھی آنے والوں کاتانتا بندھا ہواتھا ۔چھ بارنماز جنازہ ہوئی ۔اخیر میں حضرت امام کے صاحبزادے ،حضرت حماد نے نماز جنازہ پڑھائی ۔عصر کے قریب دفن کی نوبت آئی ۔

حضرت امام نے وصیت کی تھی کہ انہیں خیز ران کے قرستان میں دفن کیاجائے۔ اس لئے کہ یہ جگہ غصب کردہ نہیں تھی ۔اسی کے مطابق اس کے مشرقی حصے میں مدفون ہوئے ۔دفن کے بعد بھی بیس دن تک لوگ حضرت امام کی نماز جنازہ پڑھتے رہے ۔ایسے قبول عام کی مثال پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے ۔

اس وقت وہ ائمہ محدثین وفقہاء موجود تھے جن میں بعض حضرات امام کے استاذ بھی تھے ،سب کو حضرت امام کے وصال کا بے اندازہ غم ہوا ۔مکہ معظمہ میں ابن جریج تھے ۔انہوں نے وصال کی خبر سنکر ،اناللہ پڑھا اورکہا ۔بہت بڑا عالم چلاگیا ۔بصرہ کے امام اورخود حضرت امام کے استاذ امام شعبہ نے بہت افسوس کیا اور فرمایا کوفہ میں اندھیراہوگیا ۔امیرالمومنین فی الحدیث حضرت عبداللہ بن مبارک وصال کی خبر سنکر بغداد حاضر ہوئے ۔جب امام کے مزارپر پہونچے ۔ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ۔ابو حنیفہ !اللہ عزوجل تم پر رحمت برسائے ۔ابراہیم گئے تواپنا جانشین چھوڑ گئے ۔حماد نے وصال کیا تو تمہیں اپنا جانشین چھوڑا ۔تم گئے تو پوری دنیا میں کسی کو اپنا جانشین نہیں چھوڑا ۔

حضرت امام کا مزارپر انوار اس وقت سے لے کر آج تک مرجع عوام وخواص ہے ۔

حضرت امام شافعی نے فرمایا:۔

میں حضرت امام ابو حنیفہ کے توسل سے برکت حاصل کرتا ہوں ۔روزانہ ان کے مزار کی زیارت کو جاتا ہوں ۔جب کوئی حاجت پیش آتی ہے ان کے مزار کے پاس دورکعت نماز پڑھ کر دعا کرتا ہوں تومراد پوری ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔جیسا کہ شیخ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔

اعلم انہ لم یزل العلماء وذوالحاجات یزورون قبرہ ویتوسلون عندہ فی قضاء حوائجھم ویرون نحج ذلک منھم الا مام الشافعی رحمۃ اللہ علیہ انتھی ۔

یعنی جان لے کہ علماء و اصحاب حاجات امام صاحب کی قبر کی زیارت کرتے رہے اور قضاء حاجات کیلئے آپ کو وسیلہ پکڑتے رہے اور ان حاجتوں کاپوراہونا دیکھتے رہے ہیں ۔ان علماء میں سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں ۔

سلطان الپ ارسلاں سلجوقی نے ۴۵۹ھ میں مزار پاک پرایک عالیشان قبہ بنوایا اوراسکے قریب ہی ایک مدرسہ بھی بنوایا ۔یہ بغداد کاپہلا مدرسہ تھا ۔نہایت شاندار لاجواب عمارت بنوائی ۔اس کے افتتاح کے موقع پر بغداد کے تمام علماء وعمائد کو مدعو کیا ۔یہ مدرسہ ’’مشہد ابو حنیفہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔مدت تک قائم رہا ۔اس مدرسہ سے متعلق ایک مسافر خانہ بھی تھا ،جس میں قیام کرنے والوں کوعلاوہ اور سہولتوں کے کھانا بھی ملتا تھا ۔بغداد کا مشہور دارالعلوم نظامیہ اس کے بعد قائم ہوا ۔حضرت امام کا وصال نوے سال کی عمر میں شعبان کی دوسری تاریخ کو ۱۵۰ھ میں ہوا ۔