تحریر ابن طفیل الأزہری

کیا نابالغ بچے کو زکاۃ دے سکتے ہیں؟

جواب:

نابالغ بچے کو زکاۃ دے سکتے ہیں کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے:

” إنما الصدقات للفقراء والمساكين ..” التوبہ: 60 .

ترجمہ: بے شک صدقات فقراء و مساکین کے لیے ہیں.

إس آیت میں فقراء و مساکین کا لفظ مطلقا بولا ہے بغیر رشد و بلوغت کی شرط لگائے لہذا نابالغ بچے کو زکاۃ دے سکتے ہیں ،

أور عقلی دلیل یہ ہے کہ لینا تکلیف شرعی نہیں تو جب تکلیف شرعی نہیں تو مکلف کی شروط بھی نہیں لگائی جائیں گی،

أور زکاۃ دینا تکلیف شرعی ہے لہذا عقل و بلوغ کی شرط لگائی جائے گی یہ فرق ہے زکاۃ دینے أور لینے میں.

لیکن نابالغ بچہ أگر ناسمج ہے یعنی أسکو نہیں پتا کہ مال کیا ہوتا ہے تو أیسے بچے کو زکاۃ دیتے ہوئے أسکو براہ راست نہ دیں بلکہ أسکے والد کو یا جو أسکی کفالت کررہا ہے أسکو دیں ،

أور أگر کوئی کفالت کرنے والا نہیں تو أسکو دے دیں جس کے پاس بچہ رہتا ہے لیکن خیال رہے کہ وہ زکاۃ کا مال بچے کو ضرور ملے.

أگر بچہ سمجھ دار ہے سوج بوجھ رکھتا ہے تو پھر براہ راست آپ أسے زکاۃ دے سکتے ہیں .

إسی لیے علامہ ابن نجیم حنفی فرماتے ہیں:

لأن تمليك الصبي صحيح لكن إن لم يكن عاقلا فإنه يقبض عنه وصيه أو أبوه أو من يعوله قريبا أو أجنبيا أو الملتقط كما في الولوالجية ، وإن كان عاقلا فقبض من ذكر ، وكذا قبضه بنفسه .

( البحر الرائق لابن نجیم مع منحۃ الخالق لابن عابدین ، کتاب الزکاۃ ، 2/217 )

ترجمہ:

بچے کو کسی شئے کا مالک بنانا صحیح ہے لیکن أگر وہ سوج بوجھ نہیں رکھتا تو أسکا وصی یا والد یا یا جو أسکی کفالت کررہا ہے چاہے قریبی ہو یا أجنبی یا جس نے أسکو أٹھایا ہے أسکی طرف سے ( زکاۃ کا) مال وصول کر لے جیسے کہ ( فتاوی) الولوالجیہ میں ہے ،

أگر سوج بوجھ رکھتا ہے تو جنکا ذکر کیا گیا ہے وہ زکاۃ لے لیں نیابۃ یا وہ ( بچہ) خود وصول کرلے.

علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ در مختار کی عبارت ( بشرط أن یعقل القبض/ اس شرط کے ساتھ کہ وہ مال کو لینے کی سوج بوجھ رکھتا ہو) پہ حاشیہ لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:

فإن لم يكن عاقلا فقبض عنه أبوه أو وصيه أو من يعوله قريبا أو أجنبيا.

( حاشية ابن عابدين ، كتاب الزكاة ، 2/257 )

ترجمہ:

أگر وہ سوج بوجھ نہیں رکھتا تو أسکا والد یا وصی یا جو کفیل ہو قریبی یا أجنبی وہ ( زکاۃ) کا مال لے لے ( صاحب زکاۃ سے)۔

قبض ( مال کو ہاتھوں میں لینا / تصرف کلی کا اختیار دینا / وصولی ) کیوں شرط ہے؟

قبض ( وصولی) اس لیے شرط ہے کیونکہ زکاۃ میں جسکو زکاۃ دی جاتی ہے أسکو مالک بنانا ہوتا ہے ،

أور ملکیت بغیر قبض یعنی وصول مطلب مال کو ہاتھ میں لیے یا تصرف کلی کا اختیار دیے بغیر حاصل نہیں ہوتی

جیسے کہ علامہ موصلی حنفی فرماتے ہیں:

( وآتوا الزكاة / البقرہ : 43 ) ، والإيتاء : الإعطاء ، والإعطاء ، التمليك ، فلا بد فيها من قبض الفقير أو نائبه.

( الاختيار لتعليل المختار ، كتاب الزكاة ، 1/121 )

ترجمہ:

( زکاۃ دو) إیتاء کا مطلب ہوتا ہے إعطاء ( عطاء کرنا) ، أور عطاء کرنے کا مطلب ہوتا ہے مالک بنانا ، أور أسکے لیے ضروری ہے کہ فقیر قبض ( وصول کرے یا أسکو کلی تصرف کا اختیار حاصل ہوجائے) کرے ، یا أسکا نائب.

واللہ أعلم .