حدیث نمبر :532

روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں کہ ایک شخص حاضرہوا بولایارسول اﷲ!میں حد کو پہنچ گیا ۱؎ وہ مجھ پرقائم فرمادیجئے فرماتے ہیں اس سے حضور نے کچھ پوچھا نہیں ۲؎ نماز حاضر ہوئی اس نے حضورانور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۳؎ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کرلی وہ کھڑا ہوگیا عرض کیایارسول اﷲ!میں نے حدپائی مجھ پراﷲ کی کتاب قائم کردیں۴؎ فرمایا کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی عرض کیا ہاں فرمایا اﷲ نے تیرا گناہ یا تیری حدبخش دی ۵؎ (مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ یعنی میں نے ایسا گناہ کرلیا جو شرعی سزا کا باعث ہے۔حد سزائے مقرر کو کہتے ہیں جیسے زانی کے لئے سنگساری اورچور کے ہاتھ کاٹنا۔تعزیر وہ سزا ہے جو شرعًا مقرر نہ ہوقاضی اپنی رائے سے مقرر کرے۔ان بزرگوں نے کوئی معمولی گناہ کیا تھا مگر سمجھے یہ کہ شاید اس میں بھی سزائے شرعی ہوگی۔یاحدلغوی معنی میں ہےیعنی مطلقًا سزا۔

۲؎ کیونکہ حضورانورکو کشف سے معلوم تھا کہ انہوں نے معمولی جرم کیا تھا اورپوچھنے سے ان کی رسوائی ہوگی یہ ہے شان ستاری۔(ازمرقاۃ)

۳؎ صرف ایک نمازیہ نمازعصرتھی جیسا کہ مرقاۃ وغیرہ میں ہے۔

۴؎ لائق حدہویا نہ ہوجوبھی فرمان الٰہی ہوحدیاکفارہ یاکوئی اورچیز اسی لئے یہاں کتاب اﷲ فرمایا۔یہ صحابہ کرام کی قوتِ ایمانی ہے کہ دوسرے مجرم اپنے جرم چھپاکرجان بچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ حضرات اپنے قصورظاہرکرکے جانوں پرکھیل کرایمان بچاتے ہیں۔

۵؎ یعنی جس گناہ کو تونے قابلِ حدسمجھا تھا وہ اس نماز کی برکت سے معاف ہوگیا،لہذا اس حدیث سے یہ لازم نہیں کہ نمازسے شرعی سزائیں معاف ہوجاتی ہیں۔خیال رہے کہ گناہ صغیرہ پرکبھی حدنہیں ہوتی اورسواءڈکیتی کی حد کے کوئی حد توبہ سے معاف نہیں ہوتی،ڈاکو اگرگرفتاری سے پہلے توبہ کرے تو سزا نہیں پاتا،یونہی اگر کافربعدزنا مسلمان ہوجائے تو رجم وغیرہ کا مستحق نہیں۔(مرقاۃ) شیخ عبدالحق نے فرمایا مَعَنَاسے معلوم ہوا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھنا گناہوں کی معافی کے لیے اکسیر ہے۔نماز کی عظمت امام کی عظمت کے مطابق ہے۔سبحان اﷲ!جن کے ساتھ والی نمازمجرموں کو بخشوادے وہ ذات کریم خودکیسی ہوگی۔