باب المواقیت

وقتوں کا باب ۱؎

الفصل الاول

پہلی فصل

۱؎ مواقیت وقتوں کی جمع ہے۔میقات بمعنی وقت ہے،جیسے معیاد بمعنی وعدہ،میلادبمعنی ولادت،معراج بمعنی عروج،یہاں نماز کے اوقات مراد ہیں۔نماز کے اوقات تین قسم کے ہیں:وقت مباح،وقت مستحب اور وقت مکروہ۔نماز کے اوقات تشریعی چیزیں ہیں جن میں عقل کو دخل نہیں مگر ان میں حکمتیں ضرور ہیں۔یہ حکمتیں ہماری کتاب “اسرار الاحکام”میں دیکھو۔چونکہ نماز کے لئے وقت شرطِ اوّل ہے اس لئے صاحبِ مشکوۃ نے نماز کے بیان میں پہلے اس کا ذکر کیا۔

حدیث نمبر :545

روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن عمرو سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہرکا وقت ۱؎ جب ہے کہ سورج ڈھل جائے۲؎ اورآدمی کا سایہ اس کے قدکی برابرہو جائے۳؎ جب تک کہ عصرنہ آئے۴؎ اورعصرکاوقت جب تک ہے کہ سورج زرد نہ پڑجائے ۵؎ اورنمازمغرب کا وقت جب تک ہے کہ شفق غائب نہ ہوجائے۶؎ اورعشاءکی نماز کا وقت رات کے درمیانی آدھے تک ہے ۷؎ اورنمازصبح کا وقت صبح چمکنے سے اس وقت تک ہے کہ سورج نہ چمکے۔جب سورج چمک جائے تو نمازسے بازرہو۸؎ کیونکہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان نکلتا ہے ۹؎ (مسلم)

شرح

۱؎ ظہر یا ظہورسے بنا یاظہیرہ سے(دوپہری)چونکہ معراج کے بعد اولًا یہی نماز ظاہر ہوئی اور سب سے پہلے یہی پڑھی گئی،نیزیہ دوپہری میں اداکی جاتی ہے لہذا اسے ظہرکہاجاتاہے۔

۲؎ آفتاب صبح سے دوپہر تک چڑھتا ہے اور دوپہرسے شام تک پچھم کی طرف اترتا ہے جس حد پرچڑھنا ختم ہوجائے اور اس کے بعد اترنا شروع ہو وہ نصف النہار سے آگے بڑھنے کا نام زوال ہے،یہ زوال ہی وقت ظہر کی ابتداءہے وہی یہاں مراد۔

۳؎ زوال کے وقت سایہ برابر ہونا بعض ملکوں اوربعض زمانوں میں ہوگا۔سردی میں چونکہ سورج جنوب کی طرف ہوتا ہواجاتاہے لہذا اس وقت بعض جگہ یہ سایہ چیز کے برابرہوجاتاہے،لیکن کبھی بعض ملکوں میں اس وقت سایہ بالکل نہیں ہوتا یا ہوتا ہے مگر بہت تھوڑا۔جس زمانہ میں حضور نے یہ فرمایا ہوگا وہ موسم سردی کا ہوگا،لہذا یہ حدیث بالکل ظاہرہے اورآیندہ حدیثوں کے خلاف نہیں جن میں اس سایہ کی مقدار تسمہ کی برابربیان فرمائی گئی کیونکہ وہاں موسم گرمی کا ذکر ہے اوریہاں سردی کا اورہوسکتا ہے کہ اس جملہ میں ظہر کا آخری وقت مرادہواورحدیث کے معنی یہ ہوں کہ آفتاب ڈھلنے سے ظہرشروع ہوتی ہے اور ایک مثل سایہ پر ختم،اس صورت میں یہ حدیث امام شافعی کی دلیل ہے کیونکہ ہمارے ہاں دومثل پرظہرکاوقت نکلتاہے ان کے ہاں ایک مثل پر لیکن ان کی یہ دلیل کمزور ہے کیونکہ اس میں اصلی سایہ کاذکرنہیں،امام شافعی کے ہاں اصلی سایہ کے علاوہ ایک مثل سایہ چاہئے۔

۴؎ پہلی تفسیر پر یہ جملہ ظہر کے آخروقت کابیان ہے اور دوسری تفسیر پر پہلے جملہ کی تاکید ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ ظہروعصرکے درمیان کوئی فاصلہ نہیں یعنی ظہر جاتے ہی عصرآجاتی ہے۔

۵؎ یہ عصر کے وقتِ مستحب کا بیان ہے یعنی دھوپ پیلی پڑنے سے پہلے عصر کی نماز پڑھ لینی چاہئے،ورنہ غروب آفتاب تک وقت عصر ہے،جیساکہ مسلم و بخاری کی روایات میں ہے۔خیال رہے کہ آفتاب ڈوبنے سے بیس منٹ قبل پیلا پڑتا ہے۔

۶؎ یعنی مغرب کا وقت آفتاب ڈوبنے سے شروع ہوتاہے اورشفق غائب ہونے پرختم۔امام اعظم کے نزدیک شفق اس سفیدی کانام ہے جو آسمان کے مغربی کنارے پرسرخی کے بعدنمودارہوتی ہے۔اور امام شافعی و صاحبین کے نزدیک سرخی کا نام شفق ہے،یعنی سفیدی کا وقت امام صاحب کے نزدیک مغرب ہے،یہی قول سیدناابوہریرہ،امام اوزاعی اورعمرابن عبدالعزیزکاہے۔اور امام شافعی کے نزدیک یہ وقت عشاء ہے،یہی قول سیدناعبداﷲ ابن عمر اور ابن عباس کا ہے۔احتیاط یہ ہے کہ سفیدی آنے سے پہلے مغرب پڑھ لے اور سفیدی ڈوبنے کے بعد عشاء پڑھے تاکہ اختلاف سے بچ جائے۔

۷؎ یہاں بھی وقتِ مستحب مراد ہے،یعنی مستحب یہ ہے کہ آدھی رات سے پہلے پڑھ لے ورنہ وقت عشاء صبح صادق تک رہتا ہے۔درمیانی سے مرادیادرمیانی رات ہے،یا درمیانی آدھا یعنی راتیں لمبی بھی ہوتی ہیں،چھوٹی بھی اور درمیانی بھی،تم درمیانی رات کے آدھے تک پڑھ لو،یا پورے آدھے تک نماز پڑھ لو،نہ کم نہ زیادہ۔

۸؎ یعنی سورج نکلتے وقت کوئی نماز نہ پڑھو،نہ نفل،نہ فرض۔یہاں دو مسئلے سمجھنا چاہیئے:ایک یہ کہ تین وقت مطلقًا نماز ممنوع ہے،سورج نکلتے وقت،بیچ دوپہریعنی نصف النہارپر،سورج ڈوبتے وقت کہ ان اوقات میں فرض و نفل نماز بلکہ سجدہ ہی حرام ہے،البتہ سورج ڈوبتے وقت آج کی عصردرست ہے۔دوسرے یہ کہ جب تک سورج میں تیزی نہ آجائے تب تک طلوع مانا جائے گا یعنی سورج چمکنے سے بیس منٹ تک سجدہ حرام ہے۔

۹؎ یعنی ایک شیطان سورج نکلتے وقت سورج کے سامنے اس طرح کھڑا ہوجاتا ہے کہ سورج اس کے دونوں سینگوں کے درمیان معلوم ہو،تاکہ اپنے دوسرے شیاطین کو دکھائے کہ سورج کی پوجاکرنے والے مجھے پوج رہے ہیں،بہت مشرکین اس وقت سورج کو سجدہ کرتے ہیں اس کی طرف پانی پھینک کر اس کی تعظیم کرتے ہیں،مسلمانوں کو اس وقت سجدہ حرام ہے تاکہ مشرکوں سے مشابہت نہ ہو اورشیطان یہ نہ کہہ سکے کہ مسلمان مجھے سجدہ کررہے ہیں۔خیال رہے کہ سورج ہروقت کہیں نہ کہیں طلوع کرتا ہے تو مطلب یہ ہے کہ شیطان سورج کے ساتھ اسی طرح گردش کرتا ہے کہ جہاں سورج طلوع ہورہا ہو وہاں اس وقت وہ نمودار ہوتاہے اس کی بہت تفسیریں ہیں۔