أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَوَهَبۡنَا لَهٗۤ اِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ‌ؕ كُلًّا هَدَيۡنَا ‌ۚ وَنُوۡحًا هَدَيۡنَا مِنۡ قَبۡلُ‌ وَمِنۡ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيۡمٰنَ وَاَيُّوۡبَ وَيُوۡسُفَ وَمُوۡسٰى وَ هٰرُوۡنَ‌ؕ وَكَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَۙ ۞

ترجمہ:

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) عطاکیے ‘ اور ہم نے سب کو ہدایت دی، اور اس سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو (ہدایت دی) اور ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) عطاکیے ‘ اور ہم نے سب کو ہدایت دی، اور اس سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور ان کی اولاد میں سے داؤد اورسلیمان  اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو (ہدایت دی) اور ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔ (الانعام : ٨٤) 

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تسلسل : 

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر اپنی نعمتیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ نعمت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کفار کے مقابلہ میں حجت اور دلیل کے اعتبار سے غالب اور سر خرو کیا اور دوسری نعمت یہ تھی کہ ان کے درجات بلند فرمائے اور تیسری نعمت یہ ہے کہ ان کی نسل سے اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث فرمایا ‘ جن کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ حضرت سارہ دونوں بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ اس وقت حضرت لوط (علیہ السلام) کی طرف جاتے ہوئے ان کے پاس فرشتے آئے اور ان کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی بشارت دی۔ اس بشارت سے حضرت سارہ کو بہت تعجب ہوا۔ انہوں نے کہا۔ 

(آیت) ” قالت یویلتیء الدوانا عجوز و ھذا بعلی شیخا ان ھذا لشیء عجیب، قالوا اتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ وبرکتہ علیکم اھل البیت انہ حمید مجید “۔ (ھود : ٧٣۔ ٧٢) 

ترجمہ : سارہ نے کہا ہائے افسوس ! کیا میں بچہ جنوں گی ‘ حالانکہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور یہ میرا شوہر (بھی) بوڑھے ہیں ‘ بیشک یہ عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہوا اے ابراہیم کے اہل بیت ‘ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ‘ بیشک وہی ہے تعریف کیا ہوا بڑی بزرگی والا۔ 

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق کے نبی ہونے کی بشارت دی : 

(آیت) ” وبشرنہ باسحق نبیا من الصلحین “۔ (الصفت : ١١٢) 

ترجمہ : اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق نبی کی بشارت دی جو صالحین میں سے ہیں۔ 

اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق کے بعد حضرت سارہ کو (ان کے پوتے) حضرت یعقوب کی بشارت دی : 

(آیت) ” فبشرنھا باسحق ومن ورآء اسحاق یعقوب “۔ (ھود : ٧١) 

ترجمہ : اور ہم نے سارہ کو اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی : 

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں حضرت اسماعیل : (علیہ السلام) کو ذکر نہ کرنے کی وجہ : 

اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں میں سے حضرت اسحاق کا ذکر فرمایا ہے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر نہیں فرمایا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت سارہ کے بوڑھے ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی کا ظہور اول حضرت اسحاق کی پیدائش سے ہوا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس جگہ انبیاء بنی اسرائیل کا ذکر کرنا مقصود ہے اور بنو اسرائیل کے تمام انبیاء حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں۔ 

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں ‘ ان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو نبوت اور حکمت سے نوازا تھا اور یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بہت بڑی نعمت ہے ‘ ان کے جداکرم نبی تھے۔ وہ خود بھی نبی تھے اور ان کی اولاد میں بھی انبیاء (علیہم السلام) ہیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) حضرت سلیمان (علیہ السلام) ‘ حضرت یوسف (علیہ السلام) ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) یہ سب انکی ذریت طیبہ ہے : 

(آیت) ” ذریۃ بعضھا من بعض “۔ (ال عمران : ٣٤) 

ترجمہ : ان میں سے بعض ‘ بعض کی اولاد ہیں۔ 

اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ ” من ذریتہ “ کی ضمیر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے یا حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف۔ اگر یہ ضمیر حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف راجع ہو تو اس آیت کا معنی ہوگا حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے حضرت داؤد ‘ (علیہ السلام) حضرت سلیمان ‘ حضرت ایوب ‘ حضرت یوسف ‘ حضرت موسیٰ ‘ حضرت ہارون ‘ حضرت زکریا ‘ حضرت یحییٰ ‘ حضرت عیسیٰ اور حضرت الیاس ہیں اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اگر یہ ضمیر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف راجع ہو تو یہ تمام انبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد قرار پائیں گے۔ اس اعتبار سے تو یہ مناسب ہے ‘ کیونکہ اس کلام کا سیاق وسباق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر نعمتوں کا بیان ہے اور یہ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ یہ سارے انبیاء (علیہم السلام) ان کی اولاد ہیں ‘ لیکن اس پر اعتراض ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صلبی بیٹے نہیں ہیں ‘ بلکہ وہ ان کی بیٹی حضرت مریم کے بیٹے ہیں اور دور کی پشتوں میں جا کر آپکے نواسے ہوئے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی اولاد کا اطلاق کس طرح درست ہوا ‘؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اطلاق مجازی ہے۔ اس کی مزید تفصیل انشاء اللہ ہم آیت ٨٥‘ کی تفسیر میں ذکر کریں گے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 84