یَسْــٴَـلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْۚ-ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَۚ-وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)

اے محبوب اہل کتاب (ف۳۸۲) تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار دو (ف۳۸۳) تووہ تو موسیٰ سے اس سے بھی بڑا سوال کرچکے (ف۳۸۴) کہ بولے ہمیں اللہ کو علانیہ (ظاہر کرکے)دکھا دو تو انہیں کڑک نے آلیا ان کے گناہوں پر پھر بچھڑا لے بیٹھے (ف۳۸۵) بعد اس کے کہ روشن آیتیں (ف۳۸۶)ان کے پاس آچکیں تو ہم نے یہ معاف فرمادیا (ف۳۸۷) اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ دیا (ف۳۸۸)

(ف382)

براہِ سرکشی۔

(ف383)

یکبارگی شان نزول : یہود میں سے کَعب بن اشرف وفَخَّاص بن عازوراء نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ نبی ہیں تو ہمارے پاس آسمان سے یکبارگی کتاب لائیے جیسا حضرت موسٰی علیہ السلام توریت لائے تھے یہ سوال ان کا طلبِ ہدایت و اتباع کے لئے نہ تھا بلکہ سرکشی و بغاوت سے تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

(ف384)

یعنی یہ سوال ان کا کمالِ جہل سے ہے اور اس قسم کی جہالتوں میں ان کے باپ دادا بھی گرفتار تھے اگر سوال طلبِ رُشد کے لئے ہوتا تو پورا کردیا جاتا مگر وہ تو کسی حال میں ایمان لانے والے نہ تھے۔

(ف385)

اس کو پوجنے لگے ۔

(ف386)

توریت اور حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مُعجزات جو اللہ تعالٰی کی وحدانیت اور حضرت موسٰی علیہ الصلوٰۃوالسلام کے صدق پر واضحُ الدلالۃ تھے اور باوجود یکہ توریت ہم نے یکبارگی نازل کی تھی” لیکن خوئے بدرابہانہء بسیار” بجائے اطاعت کرنے کے ُانہوں نے خدا کے دیکھنے کا سوال کیا۔

(ف387)

جب انہوں نے توبہ کی اس میں حضور کے زمانہ کے یہودیوں کے لئے توقع ہے کہ وہ بھی توبہ کریں تو اللہ انہیں بھی اپنے فضل سے معاف فرمائے۔

(ف388)

ایسا تسلط عطا فرمایا کہ جب آپ نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لئے خود ان کے اپنے قتل کا حکم دیا اور انکار نہ کرسکے اور انہوں نے اطاعت کی ۔

وَ رَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِهِمْ وَ قُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا(۱۵۴)

پھر ہم نے ان پر طور کو اونچا کیا ان سے عہد لینے کو اور ان سے فرمایا کہ دروازے میں سجدہ کرتے داخل ہو اور ان سے فرمایا کہ ہفتہ میں حد سے نہ بڑھو (ف۳۸۹) اور ہم نے ان سے گاڑھا(پختہ) عہد لیا(ف۳۹۰)

(ف389)

یعنی مچھلی کا شکار وغیرہ جو عمل اس روز تمہارے لئے حلال نہیں نہ کرو سورۂ بقر میں ان تمام احکام کی تفصیلیں گزر چکیں ۔

(ف390)

کہ جو انہیں حکم دیا گیا ہے وہ کریں اور جس کی ممانعت کی گئی ہے اس سے باز رہیں پھر انہوں نے اس عہد کو توڑا۔

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ وَ كُفْرِهِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ قَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ قَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌؕ-بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَیْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا۪(۱۵۵)

تو ان کی کیسی بدعہدیوں کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور اس لیے کہ وہ آیاتِ الٰہی کے منکر ہوئے (ف۳۹۱) اور انبیاءکو ناحق شہید کرتے (ف۳۹۲) اور ان کے اس کہنے پر کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں (ف۳۹۳) بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے تو ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے

(ف391)

جو انبیاء کے صدق پر دلالت کرتے تھے جیسے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے معجزات ۔

(ف392)

انبیاء کا قتل کرنا تو ناحق ہے ہی کسی طرح حق ہوہی نہیں سکتا لیکن یہاں مقصود یہ ہے کہ ان کے زعم میں بھی انہیں اس کا کوئی استحقاق نہ تھا۔

(ف393)

لہذا کوئی پندو وعظ کارگر نہیں ہوسکتا۔

وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًاۙ(۱۵۶)

اور اس لیے کہ انہوں نے کفر کیا (ف۳۹۴) اور مریم پر بڑا بہتان اٹھایا(باندھا)

(ف394)

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ساتھ بھی۔

وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُؕ-مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ(۱۵۷)

اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسٰی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا (ف۳۹۵) اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ اُن کے لئے اِس کی شبیہ(شکل وصورت) کا ایک بنادیا گیا (ف۳۹۶) اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہہ میں پڑے ہوئے ہیں (ف۳۹۷) انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں (ف۳۹۸) مگر یہی گمان کی پیروی (ف۳۹۹) اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہ کیا (ف۴۰۰)۱۵۹

(ف395)

یہود نے دعوٰی کیا کہ انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کو قتل کردیا اور نصارٰی نے اس کی تصدیق کی تھی اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی تکذیب فرمادی

(ف396)

جس کو انہوں نے قتل کیا اور خیال کرتے رہے کہ یہ حضرت عیسٰی ہیں باوجود یکہ ان کا یہ خیال غلط تھا۔

(ف397)

اور یقینی نہیں کہہ سکتے کہ وہ مقتول کون ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ مقتول عیسٰی ہیں بعض کہتے ہیں کہ یہ چہرہ تو عیسٰی کا ہے اور جسم عیسٰی کا نہیں لہذا یہ وہ نہیں اسی تردّد میں ہیں ۔

(ف398)

جو حقیقت حال ہے۔

(ف399)

اور اٹکلیں دَوڑانا۔

(ف400)

ان کا دعوٰئے قتل جُھوٹا ہے ۔

بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۵۸)

بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا (ف۴۰۱) اور اللہ غالب حکمت والا ہے

(ف401)

صحیح و سالم بسوئے آسمان احادیث میں اس کی تفصیلیں وارد ہیں سورۂ آل عمران میں اس واقعہ کا ذکر گزر چکا ہے۔

وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًاۚ(۱۵۹)

کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے(ف۴۰۲) اورقیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا(ف۴۰۳)

(ف402)

اس آیت کی تفسیر میں چند قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ یہود ونصارٰی کو اپنی موت کے وقت جب عذاب کے فرشتے نظر آتے ہیں تو وہ حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لے آتے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے کفر کیا تھا اور اس وقت کا ایمان مقبول و معتبرنہیں دوسرا قول یہ ہے کہ قریب قیامت جب حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان سے نزول فرمائیں گے اس وقت کے تمام اہل کتاب اُن پر ایمان لے آئیں گے اس وقت حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃو التسلیمات شریعتِ محمدیہ کے مطابق حکم کریں گے اور اُسی دین کے آئمہ میں سے ایک امام کی حیثیت میں ہوں گے اور نصارٰی نے ان کی نسبت جو گمان باندھ رکھے ہیں ان کا اِبطال فرمائیں گے دینِ محمدی کی اشاعت کریں گے اس وقت یہود و نصارٰی کو یا تو اسلام قبول کرنا ہو گا یا قتل کر ڈالے جائیں گے جزیہ قبول کرنے کا حکم حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول کرنے کے وقت تک ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ ہر کتابی اپنی موت سے پہلے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئے گا۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اللہ تعالٰی پر ایمان لے آئے گا لیکن وقتِ موت کا ایمان مقبول نہیں نافع نہ ہوگا۔

(ف403)

یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام یہود پر تو یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے آپ کی تکذیب کی اور آپ کے حق میں زبانِ طعن دراز کی اور نصارٰی پر یہ کہ اُنہوں نے آپ کو رب ٹھرایا۔ اور خدا کا شریک گَردانا اور اہلِ کتاب میں سے جو لوگ ایمان لے آئیں ان کے ایمان کی بھی آپ شہادت دیں گے۔

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًاۙ(۱۶۰)

تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے (ف۴۰۴) سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں کہ اُن کے لیے حلال تھیں (ف۴۰۵) اُن پر حرام فرمادیں اور اس لیے کہ انہوں نے بہتوں (بہت سے لوگوں)کو اللہ کی راہ سے روکا

(ف404)

نقضِ عہد و غیرہ جن کا اُوپر آیات میں ذکر ہوچکا۔

(ف405)

جن کا سورۂ اَنعام کی یہ آیہ ” وَعَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا ”میں بیان ہے۔

وَّ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُهُوْا عَنْهُ وَ اَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِؕ-وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(۱۶۱)

اور اس لیے کہ وہ سود لیتے حالانکہ وہ اس سے منع کیے گئے تھے اور لوگوں کا مال ناحق کھاجاتے (ف۴۰۶) اور ان میں جو کافر ہوئے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے

(ف406)

رشوت وغیرہ حرام طریقوں سے۔

لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوةَ وَ الْمُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-اُولٰٓىٕكَ سَنُؤْتِیْهِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا۠(۱۶۲)

ہاں جو ان میں علم میں پکے (ف۴۰۷) اور ایمان والے ہیں وہ ایمان لاتے ہیں اُس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا (ف۴۰۸)اور نماز قائم رکھنے والے اور زکوٰۃ دینے والے اور اللہ اور قیامت پر ایمان لانے والے ایسوں کو عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے

(ف407)

مثل حضرت عبداللہ بن سلام اور اُن کے اصحاب کہ جو علمِ راسخ اور عقلِ صافی اور بصیرتِ کاملہ رکھتے تھے انہوں نے اپنے علم سے دینِ اسلام کی حقیقت کو جانا اور سید انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ایمان لائے۔

(ف408)

پہلے انبیاء پر ۔