أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَا تُدۡرِكُهُ الۡاَبۡصَارُ وَهُوَ يُدۡرِكُ الۡاَبۡصَارَ‌ۚ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ ۞

ترجمہ:

آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ‘ وہ نہایت باریک بین بہت باخبر ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ‘ وہ نہایت باریک بین بہت باخبر ہے۔ (الانعام : ١٠٣) 

رویت باری کے متعلق فقہاء اسلام کے نظریات : 

تقریبا ہر دور کے علماء اسلام کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رویت (اس کا دکھائی دینا) دنیا اور آخرت میں ممکن ہے یا نہیں۔ بعض علماء نے اس کا انکار کیا اور جمہور علماء اسلام کا موقف یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رویت ممکن ہے اور دنیا میں یہ رویت صرف سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے معراج کی شب واقع ہوئی اور آخرت میں تمام انبیاء (علیہم السلام) اور مومنین کے لیے یہ روایت واقع ہوگی ‘ میدان حشر میں بھی اور جنت میں بھی۔ 

منکرین رویت کے دلائل اور ان کے جوابات : 

معتزلہ اور دیگر منکرین رویت کی ایک دلیل یہ ہے کہ جو چیز دکھائی دے ‘ وہ دیکھنے والے کی مقابل جانب میں ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ دکھائی دے تو اس کے لیے ایک جانب اور جہت کا ہونا لازم آئے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پھر تمہیں چاہیے کہ تم اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کا بھی انکار کردو ‘ کیونکہ دیکھنے والا بھی دکھائی دینے والی چیز کی جانب مخالف یہ ہوتا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دیکھنے اور دکھائی دینے کا یہ قاعدہ ممکنات اور مخلوقات کے اعتبار سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں ہے ‘ اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کے لیے جانب اور مقابلہ کی شرط ہے ‘ نہ دکھائی دینے کے لیے۔ 

منکرین رویت کی دوسری دلیل یہ آیت ہے جس کا معنی وہ یہ کرتے ہیں کہ آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں سلب عموم اور نفی شمول ہے۔ عموم السلب اور شمول النفی نہیں ہے۔ یعنی ہر ہر آنکھ کے دیکھنے کی نفی نہیں ہے ‘ نہ ہر ہر زمانہ میں دیکھنے کی نفی ہے ‘ نہ ہر ہر مواقع پر دیکھنے کی نفی ہے ‘ بلکہ بعض زمانہ میں بعض مواقع پر بعض لوگوں کے دیکھنے کی نفی ہے ‘ سو دنیا میں دیکھنے کی نفی ہے اور آخرت کے بعض مواقع میں جب اللہ تعالیٰ غضب اور جلال میں ہوگا ‘ اس وقت اس کی دیکھنے کی نفی ہے اور کفار اور منافقین کے دیکھنے کی نفی ہے۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں جو اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور محشر میں اور جنت میں دیگر انبیا (علیہم السلام) اور جملہ مومنین کے دیکھنے کی نفی نہیں ہے۔ 

منکرین رویت کی تیسری دلیل یہ ہے کہ جن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مطالبہ کو بہ طور مذمت نقل کیا ہے اور اس مطالبہ پر عذاب نازل کیا : 

(آیت) ” واذقلتم یموسی لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ فاخذتکم الصعقۃ وانتم تنظرون “۔ (البقرہ : ٥٥) 

ترجمہ : اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ! ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے ‘ حتی کہ ہم اللہ کو کھلم کھلا دیکھ لیں تو تم کو (بجلی کی) کڑک نے پکڑلیا اور تم (اس منظرکو) دیکھ رہے تھے۔ 

اس کا جواب یہ ہے کہ ان پر عذاب نازل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے اور ان کی باتوں پر یقین کرنے کو ازراہ عناد اور سرکشی اللہ تعالیٰ کے دیکھنے پر معلق کردیا تھا اس وجہ سے نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور شوق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھنا چاہتے تھے۔ 

منکرین رویت کی چوتھی دلیل یہ حدیث ہے۔ 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 

مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اے ابو عائشہ ! جس شخص نے تین باتوں میں سے ایک بات بھی کہی ‘ اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ ؛ میں نے پوچھا وہکون سی باتیں ہیں ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا جس شخص نے یہ زعم کیا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ‘ اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق نے کہا میں ٹیک لگائے ہوئے تھا ‘ میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا اے ام المومنین ! مجھے مہلت دیں اور جلدی نہ کریں ‘ کیا اللہ عزوجل نے یہ نہیں فرماما : 

(آیت) ” ولقد راہ بالافق المبین “۔ (التکویر : ٢٣) 

ترجمہ : اور بیشک انہوں نے اسے روشن کنارے پر دیلھا۔ 

(آیت) ” ولقد راہ نزلۃ اخری “۔ (النجم : ١٣) 

ترجمہ : اور بیشک انہوں نے اسے دوسری بار ضرور دیکھا۔ 

حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا میں اس امت میں وہ سب سے پہلی شخص ہوں جس نے ان آیتوں کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا اس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں ‘ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو جس صورت پر پیدا کیا گیا ‘ میں نے اس صورت پر انکو صرف دوبارہ دیکھا ہے۔ میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ان کی عظیم خلقت نے آسمان سے زمین تک کی جگہ کو بھر لیا تھا۔ حضرت عائشہ (رض) نے (مسروق سے) فرمایا کیا تم نے قرآن مجید کی یہ آیتیں نہیں سنیں : 

(آیت) ” لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار “۔ (الانعام : ١٠٣) 

ترجمہ : آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے۔ 

(آیت) ” وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورآی حجاب اویرسل رسولا فیوحی باذنہ مایشآء “۔ (الشوری : ٥١) 

ترجمہ : اور کسی بشر کے لائق نہیں کہ وہ اللہ سے کلام کرے ‘ مگر وحی سے یا پردے کے پیچھے سے یا وہ کوئی فرشتہ بھیج دے جو اس کے حکم سے جو کچھ اللہ چاہے ‘ پہنچا دے۔ 

(صحیح مسلم ‘ ایمان ‘ ٢٨٧‘ (١٧٧) ٤٣٢‘ صحیح البخاری ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨٥٥‘ سنن الترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣٠٦٨‘ مسند احمد ‘ ج ١٠‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦٠٩٩‘ السنن الکبری للنسائی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١١١٤٧ )

اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اس مسئلہ میں اختلاف تھا ‘ جیسا کہ ہم انشاء اللہ عنقریب بیان کریں گے۔ حضرت عائشہ (رض) اس بات کی قائل نہیں تھیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ‘ لیکن وہ آخرت میں رویت باری کا انکار نہیں کرتی تھیں۔ حضرت ابن عباس (رض) شب معراج میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کے قائل تھے اور جمہور علماء اسلام انکی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے سورة الانعام کی جس زیر بحث آیت سے استدلال کیا ہے ‘ اس کا جواب ہم دے چکے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں نہ یہ کہ آنکھیں اس کا مطلقا ادراک نہیں کرسکتی۔ 

اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے متعلق قرآن مجید کی آیات : 

(آیت) ” وجوہ یومئذ ناضرۃ ‘ الی ربھا ناظرۃ “۔ (القیامہ : ٢٣۔ ٢٢) 

ترجمہ : کتنے ہی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے ہوئے۔ 

اس آیت میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی تصریح ہے ؛ 

(آیت) ” کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون “۔ ( المطففين : ١٥) 

ترجمہ : بیشک وہ اس دن اپنے رب کے دیدار سے ضرور محروم ہوں گے۔ 

اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ قیامت کے دن کفار اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے اور یہ چیز ان کے لیے اسی وقت باعث حرمان ویاس ہوگی جب مسلمان اس دن اپنے رب کا دیدار کر رہے ہوں ‘ کیونکہ اگر انکو بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل نہ ہو اور نہ کافروں کو ‘ تو پھر یہ چیز ان کے لیے باعث افسوس نہیں ہوگی۔ 

(آیت) ” لا تدرکہ الابصار “۔ (الانعام : ١٠٣) 

ترجمہ : آنکھیں اس کو دیکھ سکتیں۔ 

یہ آیت اللہ تعالیٰ کی مدح میں ہے ‘ اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کی مدح میں اسی وقت ہوسکتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا دکھائی دینا ممکن ہو ‘ کیونکہ اسی چیز کی نفی وجہ کمال ہوتی ہے جس کا ثبوت ممکن ہو۔ مثلا ہوا ‘ خوشبو اور آواز کا دکھائی دینا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے انکی مدح اور تعریف اسی وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن ہو۔ سو یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی دلیل ہے : 

(آیت) ” قال رب ارنی انظر الیک “۔ (الاعراف : ١٤٣) 

ترجمہ : موسیٰ نے عرض کیا ‘ اے میرے رب ! مجھے اپنی ذات دکھا میں تجھے دیکھوں۔ 

اگر دینا میں اللہ تعالیٰ کا دکھائی دیناممکن نہ ہوتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے یہ سوال نہ کرتے۔ 

(آیت) ” ولکم فیھا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ما تدعون “۔ (حم السجدہ : ٣١) 

ترجمہ : اور تمہارے لیے اس جنت میں ہر وہ چیز ہے جس کو تمہارے دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جس کو تم طلب کرو گے۔ 

نیک اور صاف دل لوگ جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار طلب کریں گے اور اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ جنت میں انکی ہر خواہش پوری فرمائے گا ‘ سو یہ آیت جنت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی دلیل ہے۔ 

آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے متعلق احادیث : 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ‘ اچانک آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا۔ آپ نے فرمایا تم عنقریب اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ تمہیں اس کو دیکھنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی ‘ پس اگر تم یہ کرسکتے ہو کہ طلوع آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ ہو اور غروب آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ ہو تو اس طرح کرو۔ 

(صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٥٤‘ ج ٨‘ رقم الحدیث :‘ ٧٤٣٦‘ ٧٤٣٥‘ صحیح مسلم ‘ المساجد ‘ ٢١١‘ (٦٣٣) ١٤٠٧) سنن ابودؤاد ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٢٩‘ سنن الترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٥٦٠‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٤٦٠‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٧٧‘ مسند احمد ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث :‘ ١٩٢١١‘ طبع جدید ‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٣٦٨‘ طبع قدیم) 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : 

(آیت) ” للذین احسنوا الحسنی وزیادۃ “۔ (یونس : ٢٦) 

ترجمہ : جن لوگوں نے نیک کام کیے انکے لیے اچھی جزاء ہے اور اس سے بھی زیادہ۔ 

آپ نے فرمایا جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی ندا کرے گے ‘ کہ اللہ کے پاس تمہارا ایک وعدہ ہے ‘ وہ کہیں گے : کیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے چہرے سفید نہیں کیے اور ہم کو دوزخ سے نجات نہیں دی اور ہم کو جنت میں داخل نہیں کیا ؟ وہ کہیں گے ‘ کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا پھر حجاب کھول دیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا جنتیوں کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھیں۔ 

(سنن ترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٥٦١‘ صحیح مسلم ‘ ایمان ‘ ٢٩٧‘ (١٨١) ‘ ٤٤٢‘ السنن الکبری ‘ للنسائی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١١٢٣٤‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٧‘ مسند احمد ‘ ج ٤‘ ص ٣٣٢۔ ٣٣٣‘ طبع قدیم) 

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل جنت کا ادنی درجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی جنتوں ‘ اپنی بیویوں اور اپنی نعمتوں اور اپنے خادموں اور اپنی باندیوں کی طرف ایک ہزار سال کی مسافت سے دیکھے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم وہ ہوگا جو صبح اور شام اس کے چہرے کی زیارت کرے گا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی : 

(آیت) ” وجوہ یومئذ ناضرۃ، الی ربھا ناظرۃ “۔ (القیامہ : ٢٣۔ ٢٢) 

ترجمہ : کتنے ہی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے ہوئے۔ 

امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ‘ صحیح ‘ غریب ہے۔ (سنن الترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٢٥٦٣) 

حضرت ابوبکر بن عبداللہ بن قیس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو جنتیں چاندی کی ہیں۔ ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے چاندی کا ہے ‘ اور دو جنتیں سونے کی ہیں۔ ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے ‘ سونے کا ہے ‘ اور ان لوگوں اور ان کے رب کے دیدار میں صرف اللہ کی کبریائی کی چادر ہے جو جنت عدن میں اس کے چہرے پر ہے۔ 

(صحیح مسلم ‘ ایمان ‘ ٢٩٦‘ (١٨٠) ٤٤١‘ صحیح البخاری ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨٧٨‘ سنن الترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٥٣٦‘ السنن الکبری للنسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٧٧٦٥‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٦‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ١٠‘ رقم الحدیث :‘ ٤٦١١‘ مسند احمد ‘ ج ٣“ رقم الحدیث :‘ ٨٤٢٧‘ طبع جدید ‘ مسنداحمد ‘ ج ٢‘ ص ٣٣٩‘ ٣٣٥‘ طبع قدیم ‘ المستدرک ‘ ج ١‘ ص ٨٠)

شب معراج اللہ تعالیٰ کے دیدار کے متعلق علماء امت کے نظریات : 

علامہ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم مالکی قرطبی متوفی ٦٥٦ ھ ‘ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں : 

متقدمین اور متاخرین کا اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے میں اختلاف رہا ہے۔ اکثر مبتدعین دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کا انکار کرتے ہیں اور اہل السنہ اور اہل السلف دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے جواز اور وقوع کے قائل ہیں۔ پھر اس میں بھی متقدمین اور متاخرین کا اختلاف ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے یا نہیں ‘ 

حضرت عائشہ (رض) ‘ حضرت ابوہریرہ (رض) ‘ مشہور روایت کے مطابق حضرت ابن مسعود (رض) ‘ سلف صالحین اور متکلمین اور محدثین کی ایک جماعت نے اس کا انکار کیا ہے ‘ اور سلف صالحین کی ایک عظیم جماعت نے یہ کہا ہے ‘ کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا یہی مسلک ہے۔ انہوں نے کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کلام کے ساتھ خاص کیے گئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلت کے ساتھ اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رویت کے ساتھ خاص کیے گئے ‘ حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ کعب ‘ حسن بصری اور امام احمد بن حنبل (رح) کا یہی نظریہ ہے اور حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) سے بھی ایک یہی روایت ہے۔ امام ابو الحسن اشعری اور ان کے اصحاب کی ایک جماعت سے بھی یہی منقول ہے ‘ مشائخ کی ایک جماعت نے توقف کا قول کیا ہے۔ انہوں نے کہا اس کی نفی اور اثبات پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے ‘ لیکن یہ عقلا جائز ہے اور یہی صحیح ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا عقلا اور نقلا جائز ہے۔ عقلی دلائل علم کلام میں ہیں اور نقلی دلائل میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رویت کا سوال کرنا ہے ‘ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو دیکھنا محال ہوتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کا سوال نہ کرتے۔ نیز احادیث متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ مومنین آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے۔ (المضم ‘ ج ١ ص ٤٠٢۔ ٤٠١‘ مطبوعہ دارابن کثیر ‘ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ) 

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

عبداللہ بن الحارث نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابی بن کعب (رض) کی ملاقات ہوئی۔ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا ہم بنو ہاشم یہ کہتے ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ پھر حضرت ابن عباس (رض) نے کہا کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو کہ خلت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ہو اور کلام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے ہو اور دیدار سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہو۔ پھر حضرت ابی بن کعب نے بہت بلند آواز سے کہا اللہ اکبر ! حتی کہ پہاڑ گونج اٹھے۔ پھر حضرت ابن عباس (رض) نے کہا اللہ تعالیٰ نے رویت اور کلام کو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت موسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اور امام عبدالرزاق نے رویت کیا ہے حسن بصری اللہ کی قسم کھا کر کہتے تھے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور ابو عمر الطلمن کی نے اس قول کو عکرمہ سے روایت کیا ہے اور بعض متکلمین نے اس قول کو حضرت ابن مسعود (رض) سے بھی روایت کیا ہے اور امام ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ مروان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سوال کیا : کہ کیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اور نقاش نے امام احمد بن حنبل سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا میں حضرت ابن عباس کی حدیث کے مطابق کہتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ 

وہ بار بار کہتے رہے کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے حتی کہ امام احمد کا سانس منقطع ہوگیا۔ شیخ ابو الحسن اشعری اور ان کے اصحاب کا بھی یہی نظریہ ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ حضرت انس (رض) ‘ حضرت ابن عباس (رض) ‘ عکرمہ (رض) ‘ ربیع (رض) اور حسن بصری کا بھی یہی نظریہ ہے۔ امام ابو العالیہ ‘ قرظی اور ربیع بن انس کا یہ قول ہے کہ آپ نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور عکرمہ (رض) سے بھی قول منقول ہے۔ علامہ ابن عبدالبرنے امام احمد سے بھی اس قول کی حکایت کی ہے۔ امام مالک بن انس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ باقی ہے اور فانی آنکھوں سے باقی کو نہیں دیکھا جاسکتا ‘ اور جب مسلمان آخرت میں پہنچیں گے تو ان کو باقی رہنے والی آنکھیں دی جائیں گی تو پھر باقی آنکھوں سے باقی ذات کو دیکھ لیں گے۔ قاضی عیاض نے کہا یہ عمدہ کلام ہے۔ اس دلیل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا محال ہے ‘ بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ دیکھنے والوں کی اس دنیا میں قدرت ضعیف ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے ‘ اتنی قدرت عطا فرما دے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کا بوجھ اٹھا سکے تو اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی رویت ممتنع نہیں ہے۔ الجامع لاحکام القرآن جز ٧ ص ٥٢ ‘۔ ٥١ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ) 

حضرت عائشہ (رض) کے انکار رویت کے جوابات : 

علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں : 

صاحب تحریر کا مختار یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا اس مسئلہ میں دلائل ہیں ‘ لیکن ہمارا استدلال اس قوی حدیث سے ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کیا تو اس پر تعجب کرتے ہو کہ خلت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ہو اور کلام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے ہو اور رویت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہو عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا ‘ کیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا ہاں ! ایک معتمد سند کے ساتھ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور اس مسئلہ میں دلیل حبر الامت حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین مشکل مسائل میں انکی طرف رجوع کرتے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے بھی اس مسئلہ میں ان سے رجوع کیا ہے اور ان سے یہ سوال کیا کہ کیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ‘ انہوں نے کہا ہاں دیکھا ہے ‘ اور اس مسئلہ میں حضرت عائشہ (رض) کی مخالفت سے کوئی اثر نہیں پڑے گا ‘ کیونکہ حضرت عائشہ (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نہیں کیا کہ آپ نے فرمایا ہے میں نے اپنے رب کو نہیں دیکھا ‘ بلکہ انہوں نے خود قرآن مجید کی دو آیتوں سے اس مسئلہ کا استنباط کیا ہے ‘ اور جب صحابی کا قول کسی دوسرے صحابی کے قول کے خلاف ہو تو اس کا قول حجت نہیں ہوتا اور جب حضرت ابن عباس (رض) سے صحیح سند کے ساتھ رویت ثابت ہے تو اس روایت کو قبول کرنا واجب ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ محض عقل سے نہیں جانا جاسکتا اور اس میں ظنی دلائل کافی ہیں ‘ اور حضرت ابن عباس (رض) کی متعلق یہ گمان کرنا جائز نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے ظن اور اجتہاد سے یہ کہا ہے کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور معمر بن راشد نے کہا ہے کہ ہمارے نزدیک حضرت عائشہ (رض) علم میں حضرت ابن عباس (رض) سے زائد نہیں ہیں اور حضرت ابن عباس (رض) نے ایک چیز کو ثابت کیا ہے جس کی دوسروں نے نفی کی ہے۔ اور مثبت روایت نافی پر مقد ہوتی ہے۔ (صاحب تحریر کا کلام ختم ہوا) 

خلاصہ یہ ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک راجح یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج سر کی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے ‘ کیونکہ اس کو حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا ہے اور یہ انہوں نے صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر ہی بیان کیا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کا استدلال صرف آیتوں سے ہے ‘ پس سورة الانعام کی آیت ١٠٣ کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ادراک بہ طور احاطہ کی نفی ہے ‘ اور سورة شوری کی آیت ٥١ سے جو انہوں نے استدلال کیا ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بلاحجاب رویت کی نفی نہیں ہے ‘ بلکہ بلاحجاب کلام کی نفی ہے اور رویت کلام کو مستلزم نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ آپ نے صرف اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہو اور دیدار کے وقت کلام نہ کیا ہو۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں عام قاعدہ بیان کیا ہے اور عام مخصوص البعض ہے اور دوسرے دلائل سے ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس عام قاعدہ سے مخصوص اور مستثنی ہیں۔ (صحیح مسلم مع شرح النووی ‘ ج ١ ص ٩٨٣۔ ٩٧٦‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ ‘ ریاض ‘ ١٤١٧ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 103