ازواج مطہرات قرآن کی روشنی میں

مولانا شکیل الرحمن نظامی

نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کا لقب امہات المومنین ہے یعنی ایمان والوں کی مائیں، چونکہ قرآن عظیم سے یہ بات ثابت ہے کہ حضور ﷺ کی بیویاں مرتبہ میں دنیا کی عام عورتوں سے زیادہ افضل ہیں دنیا کی دوسری عورتیں ان کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتیں ان کا اجر اوروں سے بڑھ کر ہے ۔ حضورﷺ کی تمام بیویاں پاکباز ، پاکدامن او رثقہ تھیں ۔ایک بار منافقین نے ان میں کسی پر بہتان لگایا تو خود قرآن نے ان کی پاکدامنی کا اعلان فرمادیا۔ الزام تراشنے والوں کو اسّی اسّی کوڑوں کی سزا ملی، وہ سب علم و فضل ، زہد و ورع ، حلم و بردباری، حیا و عفت، جود وسخا اور بلند ہمتی میں یگانۂ روزگار تھیں۔اسلام میں بہت ساری سہولتیں ان کی برکت سے حاصل ہوئیں، انہیں میں سے ایک تیمم ہے، جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی برکت سے ہمیں ملا، اور عورتوں کے بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کو انہوں نے حضور سے پوچھ کر حل فرمایا۔

حضورﷺ اپنی تمام بیویوں سے محبت فرماتے تھے اور ہر ایک کی دلجوئی کرتے اور آپ کی بیویاں بھی آپ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتی تھیں، اور ان کی محبت کو اپنا ایمان سمجھتی تھیں، اور یہ حضورﷺ سے نکاح کا ہی ثمرہ ہے کہ آپ کی بیویاں امہات المومنین کے عظیم خطاب سے نوازی گئیں۔

امہات المومنین کے فضائل میں بہت سی آیات و احادیث وارد ہیں۔ ذیل میں چند آیات پیش کی جاتی ہیں۔

(۱) یٰنِسَائَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَائِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا۔

( سورہ احزاب، پارہ ۲۲، رکوع ۱، آیت ۳۲)

اے نبی کی بیویو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کاروگی کچھ لالچ کرے ہاں اچھی بات کہو۔

یعنی تمہارا مرتبہ اوروں سے زیادہ ہے اور تمہارا اجر سب سے بڑھ کر ہے جہاں کی عورتوں میں کوئی تمہاری ہمسر نہیں‘ اس آیت میں تعلیم آداب ہے اگر بضرورت غیر مرد سے پسِ پردہ گفتگو کرنی پڑے تو قصد کرو کہ لہجہ میں نزاکت نہ آنے پائے اور بات میں لوچ نہ ہو۔ بات نہایت سادگی سے کی جائے عفت مآب خواتین کے لئے یہی شایاں ہے۔

(۲) وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہیلۃ الاولی واقمن الصلوۃ واٰتین الزکوۃ واطعن اللہ ورسولہ۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیراً۔ (پ ۲۲؍ رکوع۱)

اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ ہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی اور نماز قائم رکھو او زکوۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے‘ خوب ستھرا کردے۔

اگلی جاہلیت سے مراد قبل اسلام کا زمانہ ہے اس زمانہ میں عورتیں اتراتی نکلتی تھیں۔ اپنی زینت و محاسن کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضاء اچھی طرح نہ ڈھکیں اور پچھلی جاہلیت سے اخیر زمانہ مراد ہے۔ جس میں لوگوں کے افعال پہلوں کے مثل ہوجائیں گے یعنی گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو۔ ان آیات سے اہل بیت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور اہل بیت میں نبی کریمﷺ کے ازواج مطہرات اور حضرت خاتون جنت فاطمۃ الزہراء اور حضرت علی و حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہم سب داخل ہیں۔ آیات و احادیث جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے اور یہی حضرت امام ابو منصور ماتریدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے۔ ان آیات میں اہل بیت رسولﷺ کو نصیحت فرمائی گئی ہے تاکہ وہ گناہوں سے بچیں اور تقویٰ و پرہیزگاری کے پابند رہیں ،گناہوں کو ناپاکی سے اور پرہیزگاری کو پاکی سے استعارہ فرمایا گیاکیوں کہ گناہوں کا مرتکب ان سے ایسا ہی ملوث ہوتا ہے جیسا کہ جسم نجاستوں سے و اس طرز کلام سے مقصود یہ ہے کہ ارباب عقول کو گناہوں سے نفرت دلائی جائے اور تقویٰ وپرہیزگاری کی ترغیب دی جائے۔

انہیں کی شان میں قرآن ناطق ہے:

ینساء النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ یضعف لھا العذاب ضعفین و کان ذالک علی اللہ یسیرًا۔

اے نبی کی بیویو! جو تم میں صریح حیا کے خلاف کوئی جرأت کرے۔ اس پر اوروں سے دونا عذاب ہوگا اور یہ اللہ کو آسان ہے۔

ومن یقنت منکن للہ و رسولہ و تعمل صالحا نوتھا اجرھا مرتین واعتدنا لھا رزقا کریما۔

اور جو تم میں فرمانبردار ہے اللہ اور رسول کی اور اچھا کام کرے ہم اسے اوروں سے دونا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کی روزی تیا ر رکھی ہے۔

یعنی اگر اوروں کو ایک نیکی پر دس گنا ثواب دیں گے تو تمہیں بیس گنا کیونکہ تمام جہاں کی عورتوں میں تمہیں شرف وفضیلت ہے اور تمہارے عمل میں بھی دو جہتیں ہیں ایک ادائے اطاعت اور دوسرے رسول کریمﷺ کی رضا جوئی اور قناعت و حسن معاشرت کے ساتھ حضور اکو خوشنود کرنا۔

جس وقت حضورﷺ سے ازواج مطہرات نے مال طلب کیا اور حضورﷺ ملول خاطر ہوئے۔ تب حضورﷺ کی تسلی قلب کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔

یا ایھا النبی قل لا زواجک ان کنتن تردن الحیاۃ الدنیا و زینتھا فتعالین امتعکن و اسر حکن سرا حا جمیلا۔

اے غیب بتانے والے (نبی) اپنی بیویوں سے فرمادیجئے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں مال دوں اور اچھی طرح چھوڑ دوں۔

وان کنتن تردن اللہ و رسولہ والدار الاخرۃ فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجرا عظیما۔

اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو بے شک اللہ نے تمہاری نیکی والیوں کے لئے بڑا اجر تیار رکھا ہے۔

اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ سید عالمﷺ کی ازواج مطہرات نے آپ سے دنیوی سامان طلب کئے اور نفقہ میں زیادتی کی درخواست کی۔ یہاں کمال زہد تھا ۔سامان دنیا اور اس کا جمع کرنا گوارہ ہی نہ تھا۔ اس لئے یہ خاطر اقدس پر گراں ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی اور ازواج مطہرات کو تخییر دی گئی۔ اس وقت حضور کی نو بیبیاں تھیں۔ پانچ قریشیہ (۱) حضرت عائشہ بنت ابی بکر (۲) حفصہ بنت فاروق (۳) ام حبیبہ بنت سفیان (۴) ام سلمہ بنت ابی امیہ (۵) سودہ بنت زمعہ اور چار غیر قریشیہ (۶) زینب بنت حجش اسدیہ (۷) میمونہ بنت حارث (۸) صفیہ بنت حئی بن اخطب اسرائیلیہ (۹) جویریہ بنت حارث مصطلقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن۔  سید عالمﷺ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ آیت سنا کر اختیار دیا اور فرمایا کہ جلدی نہ کرو اپنے والدین سے مشورہ کرکے جو رائے ہو اس پر عمل کرو۔ انہوں نے عرض کیا۔ حضور سید عالمﷺ کے معاملہ میں مشورہ کیسا؟ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اور دارالآخرت کو چاہتی ہوں اور باقی ازواج نے بھی یہی جواب دیا۔

واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکن من اٰیات اللہ والحکمۃ۔ ان اللہ کان لطیفا خبیرا۔(پ ۲۲۔ع۱)

اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں اللہ کی آیتیں اور حکمت بے شک اللہ ہر باریکی جانتا خبردار ہے۔

لایحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج ولو اعجبک حسنھن الا ماملکت یمینک۔(پ ۲۲)

ان کے بعد اور عورتیں تمہیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ ان کے عوض اور بیبیاں بدلو اگرچہ تمہیں ان کا حسن بھائے مگر کنیز تمہارے ہاتھ کا مال۔

یعنی ان بیبیوں کے بعد جو آپ کے نکاح میں ہیں جنہیں آپ نے اختیار دیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ و رسول کو اختیار کیا کیونکہ رسول اللہا کے لئے ازواج کا نصاب نو ہے۔ جیسے کہ امت کے لئے چار یعنی طلاق دے کر ان کی جگہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلو ایسا بھی نہ کرو۔ یہ احترام ان ازواج کا اس لئے ہے کہ جب حضور ا نے انہیں اختیار دیا تھا تو انہوں نے اللہ و رسول کو اختیار کیا اور آسائش دنیا کو ٹھکرا دیا ۔چنانچہ رسول اکرم ا نے انہیں پر اکتفا فرمایا۔ اور اخیر تک یہی بیبیاں حضور ا کی خدمت میں رہیں۔

واذا اسالتموھن متاعا فسئلوھن من وراء حجاب۔

اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔

مسلمان اپنی حقیقی ماں کو دیکھ بھی سکتا ہے اور تنہائی میں بیٹھ کر اس سے بات چیت بھی کرسکتا ہے مگر حضور ا کی مقدس بیویوں سے ہر مسلمان کے لئے پردہ فرض ہے اور تنہائی میں ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔

اسی طرح حقیقی ماں باپ لڑکوں کی نانی نانا اور حقیقی ماں کے بھائی بہن، لڑکوں کے ماموں اور خالہ ہوا کرتے ہیں مگر ازواج مطہرات کے ماں باپ امت کے نانی نانا اور ازواج مطہرات کے بھائی امت کے ماموں خالہ نہیں کہے جاسکتے۔ یہ حکم حضورﷺ کی ان تمام ازواج مطہرات کیلئے ہے جن سے حضورﷺ نے نکاح فرمایا۔ چاہے حضورا سے پہلے ان کا انتقال ہوا یا حضورﷺ کے بعد انہوں نے وفات پائی ہو۔ یہ سب کے سب امت کی مائیں اور ہر امتی کے لئے اس کی حقیقی ماں سے بڑھکر لائق تعظیم اور واجب الاحترام ہیں۔