أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَنُقَلِّبُ اَفۡــئِدَتَهُمۡ وَاَبۡصَارَهُمۡ كَمَا لَمۡ يُؤۡمِنُوۡا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمۡ فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ۞

ترجمہ:

ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ لوگ اس قرآن پر پہلی بار ایمان نہیں لائے تھے۔ اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ رہے ہیں۔ ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ لوگ اس قرآن پر پہلی بار ایمان نہیں لائے تھے۔ اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ رہے ہیں (الانعام : ١١٠) 

جب اللہ نے کفار کے دلوں کو پھیر دیا تو ان کا کفر میں کیا قصور ہے ؟ 

یہ آیت بھی ان آیات میں سے ایک ہے جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ کفر اور ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی قضاء قدر سے ہے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب کفار کے طلب کردہ معجزات پیش کردیئے گئے اور کفار کو پتا چل گیا کہ یہ معجزات سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوی نبوت کے صدق پر دلالت کرتے ہیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور آنکھوں کو اس صحیح دلالت سے پھیر دیا ‘ تو وہ اپنے کفر پر قائم رہے اور ان معجزات کی دلالت سے فائدہ نہیں اٹھا سکے : 

اس جگہ یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہی ان کے دلوں اور آنکھون کو سچائی ‘ ہدایت اور اسلام کی راہ سے پھیر دیا ‘ تو پھر ان کے ایمان نہ لانے میں ان کا کیا قصور ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ پہلی بار جب ان کا فرمائشی معجزہ دکھایا گیا اور چاند کو شق کردیا گیا اور وہ پھر بھی ایمان نہیں لائے تو دوسری بار اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ جب معجزہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق پر دلالت کرتا ‘ تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں اور آنکھوں کو پھیر دیتا اور وہ اپنے کفر پر برقرار رہتے۔ 

دوسرا جواب یہ ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں اور آنکھوں کو دوزخ کے شعلوں اور انگاروں کی طرف پھیر دے گا ‘ تاکہ انکو عذاب ہو ‘ جس طرح دنیا میں یہ پہلی بار ایمان نہیں لائے تھے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 110