أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيۡنَ الۡاِنۡسِ وَالۡجِنِّ يُوۡحِىۡ بَعۡضُهُمۡ اِلٰى بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا‌ ؕ وَلَوۡ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوۡهُ‌ فَذَرۡهُمۡ وَمَا يَفۡتَرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان انسانوں اور جنوں کو دشمن بنادیا جو (لوگوں کو) دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں القا کرتے رہتے ہیں، اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ یہ نہ کرتے، سو آپ انہیں اور انکی افتراء پردازیوں کو ان کے حال پر چھوڑدیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان انسانوں اور جنوں کو دشمن بنادیا جو (لوگوں کو) دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں القا کرتے رہتے ہیں۔ (الانعام : ١١٢) 

انسانوں اور جنوں میں سے شیاطین (سرکشوں) کا ہونا۔ 

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے لیے سرکش اور شیطان انسانوں اور جنوں کو دشمن بنادیا تھا ‘ اسی طرح آپ کے لیے بھی سرکش اور شیطان انسانوں اور جنوں کو دشمن بنادیا ہے۔ 

اس آیت میں ” شیاطین الانس والجن “۔ فرمایا ہے۔ اس کی دو تفسیریں ہیں۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ شیطان سے مراد سرکش ہے اور انسانوں اور جنوں میں سے بعض سرکش ہوتے ہیں اور یہ دونوں مومنوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ تمام شیطان ابلیس کی اولاد ہیں ‘ اور اس نے ان کے دو گروہ کردیئے ہیں۔ ایک گروہ انسانوں کو بہکاتا ہے اور دوسرا گروہ جنوں کو بہکاتا ہے اور ان دونوں گروہوں کو شیاطین الانس والجن کہا جاتا ہے لیکن پہلی تفسیر راجح ہے اور اس کی تائید میں یہ حدیث ہے : 

امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ‘ اور صحابہ کا یہ گمان تھا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے ‘ اس لیے وہ آپ کے سامنے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ اتنے میں حضرت ابوذر (رض) آکر آپ کے پاس بیٹھ گئے۔ آپ نے فرمایا اے ابوذر ! کیا تم نے آج نماز پڑھ لی ہے انہوں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا اب کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ جب انہوں نے چار رکعات چاشت کی نماز پڑھ لی تو آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے پناہ طلب کیا کرو ‘ انہوں نے کہا یا نبی اللہ ! کیا انسانوں کے لیے بھی شیطان ہوتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا ہاں ! جن اور انس کے شیاطین (لوگوں کو) دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں القا کرتے ہیں۔ الحدیث بطولہ۔ شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے۔ 

(مسند احمد ‘ ج ١٦‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢١٨٩‘ ٢١٤٣٨‘ طبع دارالحدیث ‘ قاہرہ ‘ مسند احمد ‘ ج ٥ ص ٢٦٦‘ ٢٦٥‘ طبع قدیم ‘ سنن النسائی ‘ ج ٨‘ رقم الحدیث :‘ ٥٥٢٢‘ المعجم الکبیر ‘ ج ٨‘ رقم الحدیث :‘ ٧٨٧١‘ مجمع الزوائد ‘ ج ٣‘ ص ١١٥) 

وحی ‘ زخرف القول اور غرور کے معنی : 

اس آیت میں فرمایا ہے میں سے بعض ‘ بعض کی طرف غرور (دھوکے) میں مبتلا کرنے کے لیے زخرف القول کی وحی کرتے ہیں۔ 

وحی کا معنی ہے اشارہ کرنا ‘ لکھنا اور کلام خفی۔ جب وحی کی نسبت انبیاء (علیہم السلام) کی طرف ہو تو اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) پر بلاواسطہ یا فرشتے کی وساطت سے نیند یابیداری میں نازل فرماتا ہے ‘ اور جب اس کی نسبت عام مسلمانوں کی طرف ہو تو اس سے مراد الہام ہوتا ہے۔ یعنی کسی خیر اور نیک بات کا دل میں ڈالنا اور جب اس کی نسبت شیطان کی طرف ہو جیسا کہ اس آیت میں ہے تو اس کا معنی ہے وسوسہ ‘ یعنی کسی بری بات یا برے کام کی طرف انسانوں کے دل کو مائل اور راغب کرنا۔ زخرف اس چیز کو کہتے ہیں جس کا باطن باطل ‘ برائی اور گناہ ہو اور اس کا ظاہر مزین ‘ خوش نما اور خوب صورت ہو۔ جیسے چاندی پر سونے کاملمع کرکے اسے سونا بنا کر پیش کیا جائے۔ 

غرور کے معنی ہیں دھوکا ‘ مغرور وہ شخص ہے جو کسی چیز کو مصلحت کے مطابق عمدہ اور نفع آور گمان کرے اور درحقیقت وہ اس طرح نہ ہو۔ 

شیطان کے وسوسہ اندازی کی تحقیق : 

شیطان کے وسوسہ سے دھوکہ کھانے کی تحقیق یہ ہے کہ جب تک انسان کسی چیز کے متعلق یہ یقین نہ کرے کہ اس میں خیر غالب ہے اور نفع زیادہ ہے ‘ وہ اس چیز میں رغبت نہیں کرتا اور اس کے حصول کے درپے نہیں ہوتا۔ پھر اگر اس کا یہ یقین واقع کے مطابق ہو تو یہ حق اور صدق ہے اور اگر یہ یقین کسی فرشتے کے القاء کرنے کی وجہ سے ہے ‘ تو یہ الہام ہے اور اگر اس کا یہ یقین واقع کے مطابق نہیں ہے اور اس کا ظاہر حسین اور مزین ہے اور اس کا باطن فاسد اور باطل ہے ‘ تو یہ کلام مزخرف ہے۔ اب یا تو اس نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے بری چیز کو اچھا اور پیتل کو سونا سمجھ لیا اور یا ارواح خبیثہ نے اس کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا ہے اور اس کے ذہن میں برائی کو خوش نمابنا کر پیش کیا ہے ‘ اور یہی معنی اس آیت میں مراد ہے۔ 

درحقیقت روحین دو قسم کی ہوتی ہیں ‘ ایک طیب اور طاہر ہوتی ہیں یہ فرشتے ہیں ‘ اور دوسری ناپاک اور شریر ہوتی ہیں ‘ یہ شیاطین ہیں۔ ارواح طیبہ جس طرح لوگوں کو نیکی کا حکم دیتی ہیں ‘ اسی طرح ایک دوسرے کو بھی نیکی کا حکم دیتی ہیں ‘ اور ارواح خبیثہ جس طرح لوگوں کو برائی کا حکم دیتی ہیں ‘ اسی طرح ایک دوسرے کو بھی برائی کا حکم دیتی ہیں۔ پھر انسانوں میں جن کی سرشت نیک ہوتی ہے اور ان پر پاکیزگی اور خیر کا غلبہ ہوتا ہے ‘ انکی فرشتوں کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اور ان پر الہام ہوتا ہے اور جن کی سرشت خبیث ہوتی ہے اور ان پر برائی کا غلبہ ہوتا ہے ‘ انکی شیطانوں کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اور ان کے دلوں میں شیطان وسوسے ڈالتے رہتے ہیں۔ پھر انسانوں میں جو زیادہ خبیث اور سرکش ہوتے ہیں ‘ وہ دوسرے انسانوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرتے ہیں اور برائیوں کو خوش نما بنا کر دوسرے لوگوں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں اور لوگوں کو برائیوں اور گناہوں پر راغب کرتے ہیں۔ اس آیت میں یہی بتایا ہے کہ شیطان جن اور شیطان انسان لوگوں کو دھوکے میں دالنے کے لیے برائیوں کو خوش نما بنا کر بیان کرتے ہیں ‘ اور اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شیطان انسانوں اور شیطان جنوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ 

اس بحث میں یہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہیے۔ 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابن آدم کے قریب ایک شیطان کا نزول ہوتا ہے اور ایک فرشتہ کا نزول ہوتا ہے (یعنی اس کے دل میں ایک القاء کرنے والا شیطان ہوتا ہے اور ایک فرشتہ) شیطان کی طرف القا کرنے والا اس کو مصائب سے ڈراتا ہے اور حق کی تکذیب کراتا ہے اور فرشتہ کی طرف سے القاء کرنے والا خیر کی بشارت دیتا ہے۔ جو شخص اس کو اپنے دل میں پائے وہ اللہ کا شکر بجا لائے اور جو شخص اپنے دل میں دوسری بات پائے وہ ” اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم “۔ پڑھے ‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : 

(آیت) ” الشیطن یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء “۔ (البقرہ : ٢٦٨) 

ترجمہ : شیطان تم کو مفلسی سے ڈراتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ 

امام ابو عیسیٰ نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے۔ 

(سنن الترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٩٩٩‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٩٩٧‘ السنن الکبری ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث : ١١٠٥١) 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن پیدا ہوتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ساتھ بھی پیدا کیا گیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! میرے ساتھ بھی پیدا کیا گیا ہے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے میری اعانت فرمائی ‘ وہ مسلمان ہوگیا۔ وہ مجھے نیکی کے سوا اور کوئی مشورہ نہیں دیتا۔ 

(صحیح مسلم ‘ منافقین ‘ ٦٩‘ (٢٨١٤) ٦٩٧٥‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث : ٣٦٤٨) 

قاضی عیاض نے کہا ہے کہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم ‘ آپ کا دل اور آپ کی زبان شیطان کے آثار سے محفوظ ہے اور اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرین جن (ہم زاد) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت اور آپ کی مبارک صحبت سے مسلمان ہوگیا اور برائی کا حکم دینے والا نیکی کا حکم دینے والا بن گیا ‘ اور ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو شیطان کے اغواء اور اس کے وسوسوں سے بچانے کی کوشش کریں۔ 

شیطان کی طرف القاء وسوسہ ہوتا ہے اور فرشتہ کی طرف سے القاء الہام ہوتا ہے۔ شیطان کفر ‘ فسق اور ظلم کے وسوسے ڈالتا ہے اور توحید ‘ رسالت ‘ مرنے کے بعد اٹھنے ‘ قیامت اور جنت اور دوزخ کے انکار کی تلقین کرتا ہے اور فرشتہ ‘ اللہ اور رسول اور قرآن مجید کی تصدیق کی تلقین کرتا ہے اور نماز ‘ روزہ اور دیگر نیکی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے۔ جب اس کے دل میں اس قسم کی باتیں آئیں تو اللہ کا شکر ادا کرے اور جب اس کے خلاف باتیں آئیں ‘ تو شیطان کے شر سے پناہ مانگے۔ ہرچند کہ احکام شرعیہ میں الہام معتبر نہیں ہے ‘ لیکن وساوس شیطان سے اجتناب میں وہ معتبر ہے ‘ عارفین نے کہا ہے کہ جو شخص حرام کھاتا ہو وہ الہام اور وسوسہ میں تمیز نہیں کرسکتا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ یہ نہ کرتے، سو آپ انہیں اور انکی افتراء پردازیوں کو ان کے حال پر چھوڑدیں۔ (الانعام : ١١٢) 

شیاطین کو پیدا کرنے کی حکمت : 

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسانوں اور جنوں میں سرکش اور شیاطین سابقہ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے امتیوں کو اپنے وسوسوں اور سازشوں سے نقصان نہ پہنچاتے اور اسی طرح وہ آپ کو اور آپ کی امت کو بھی ضرر پہنچانے سے باز رہتے ‘ لیکن یہ چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہے کہ بعض نیک لوگ ان شیاطین کی سازشوں اور وسوسوں کی وجہ سے ضرر میں مبتلا ہوں ‘ پھر اللہ تعالیٰ ان شیاطین کو آخرت میں سزا دے اور نیک لوگوں کو ان کے امتحان میں کامیاب ہونے اور مصائب پر صبر کرنے کی وجہ سے جزا دے ‘ تو آپ ابلیس اور اس کے پیروکاروں کو اور انکی مزخرف باتوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ یہ آیت کفر پر عذاب کی وعید اور اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں کی بشارت کو متضمن ہے۔ اور اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے اور آپ کے قلب مبارک سے غم کو زائل کرنا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 112