أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَتَمَّتۡ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدۡقًا وَّعَدۡلاً  ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ‌ ۚ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ ۞

ترجمہ:

اور آپ کے رب کی بات سچائی اور عدل کے اعتبار سے پوری ہوگی، اس کے احکام کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے، اور وہ بہت سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور آپ کے رب کی بات سچائی اور عدل کے اعتبار سے پوری ہوگی، اس کے احکام کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے، اور وہ بہت سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔ (الانعام : ١١٥) 

کلمات رب کے صادق اور عادل ہونے کے معافی : 

اس سے پہلی آیت میں یہ بیان کیا تھا کہ قرآن مجید معجز ہے اور اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ آپ کے رب کا کلمہ صدق اور عدل کے اعتبار سے پورا ہوگیا۔ یعنی قرآن مجید جو معجز کلام ہے ‘ وہ پورا ہوگیا ‘ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق پر دلالت کرتا ہے۔ اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ مکلفین کو قیامت تک علم اور عمل کے اعتبار سے جن چیزوں کی ضرورت ہے ‘ وہ سب قرآن مجید میں بتمامہ موجود ہیں اور اس کا تیسرا معنی یہ ہے کہ ازل میں اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے وہ سب تمام اور مکمل ہیں ‘ ان میں نہ کوئی تغیر ہوسکتا ہے اور نہ کوئی اضافہ ہوسکتا ہے ‘ جیسا کہ اس حدیث میں ہے : 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔ 

(سنن ترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٢٥٢٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) 

حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے علم پر قلم خشک ہوچکا ہے۔ (سنن ترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٢٦٥١) 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم جن چیزوں سے ملاقات کرنے والے ہو ‘ ان کے متعلق قلم (لکھ کر) خشک ہوچکا ہے۔ (صحیح البخاری ‘ کتاب القدر ‘ باب ٢) 

حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھ ‘ اس نے کہا اے میرے رب ! میں کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قیامت تک ہر چیز کی تقدیر لکھ۔ (الحدیث)

(سنن ابوداؤد ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٠٠‘ مسند احمد ‘ ج ٥‘ ص ٣١٧‘ المعجم الکبیر ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ١٢٢٢٧‘ ١١٢٤٣‘ السنن الکبری للبیہقی ‘ ج ١٠‘ ص ٢٠٤‘ مختصر اتحاف السادۃ المھرۃ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٣٢) 

علامہ ابوبکر بن اسماعیل بوصیری متوفی ٨٤٠ ھ لکھتے ہیں : 

اس حدیث کو امام احمد بن منیع نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اور امام ابو داؤد الطیالسی اور امام ابو داؤد سجستانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس کو اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے ‘ اور اس کی سند میں احمد بن سلیم ضعیف ہے۔ (اتحاف السادۃ المھرۃ بزوائد المسانید العشرہ ‘ ج ١‘ ص ١٢٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ) 

اس آیت میں اللہ کے کلمہ کو جو صدق اور عدل فرمایا ہے ‘ اس کا چوتھا معنی یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات دو قسم کی ہیں۔ ایک قسم میں خبریں ہیں اور دوسری قسم میں عقائد اور احکام شرعیہ ہیں۔ صدق کا تعلق قرآن مجید کی دی ہوئی خبروں کے ساتھ ہے اور عدل کا تعلق عقائد اور احکام شرعیہ کے ساتھ ہے ‘ یعنی اس کی دی ہوئی تمام خبریں صادق ہیں اور اس کے بیان کردہ عقائد اور احکام شرعیہ سب عادل ہیں ‘ یعنی متوسط ہیں اور صحیح ہیں۔ کیونکہ عدل کا معنی متوسط ہے جو افراط اور تفریط کی درمیانی کیفیت کا نام ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کا کلام میں کذب محال ہے : 

امام فخرالدین محمد بن ضیاء الدین عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : 

اللہ کا کلمہ صادق ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعد اور وعید دونوں میں خلف محال ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٥ ص ١٣٥ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ) 

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اشاعرہ تو خلف وعید کے قائل ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بہ ظاہر خلف وعید کو جائز کہتے ہیں لیکن حقیقتا جائز نہیں کہتے ‘ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسی جرم کی کوئی سزا بیان کی ہے وہاں پر یہ شرط یا یہ قید ملحوظ ہے کہ اگر میں معاف نہ کروں یا اگر میں چاہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے معاف نہ کیا تو عذاب دے گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا تو عذاب نہیں دے گا۔ لہذا اب وعید کے خلاف نہیں ہوگا ‘ ہاں ! شرک پر جو عذاب کی وعید سنائی ہے ‘ وہاں یہ قید ملحوظ نہیں ہے اور اس وعید کا خلاف ہونا اور کافر اور مشرک کا بخشا جانا محال ہے اور امام رازی نے جو کہا ہے کہ خلف وعید محال ہے ‘ اس سے مراد شرک کی وعید ہے۔ دیگر گناہوں پر جو وعید ہے اس کا خلف مراد نہیں ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک اور کفر کے علاوہ ہر گناہ کا بہرحال بخش دے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ خلف وعید کذب کو مستلزم ہے ‘ اور وعید کا امکان کذب کا امکا ہے ‘ ان کا یہ قول باطل ہے ‘ کیونکہ خلف وعید تو بالفعل واقع ہوگا ‘ لہذا ان کے قاعدہ پر اللہ کے کلام کا بالفعل کذب ہونا لازم آئے گا۔ معاذ اللہ۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 115