أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَدۡ خَسِرَ الَّذِيۡنَ قَتَلُوۡۤا اَوۡلَادَهُمۡ سَفَهًۢا بِغَيۡرِ عِلۡمٍ وَّحَرَّمُوۡا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افۡتِرَآءً عَلَى اللّٰهِ‌ؕ قَدۡ ضَلُّوۡا وَمَا كَانُوۡا مُهۡتَدِيۡنَ۞

ترجمہ:

بیشک ان لوگوں نے خسارہ پایا جنہوں نے حماقت اور جہالت کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل کردیا اور جو رزق اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اللہ پر افترا پردازی کرکے اس کو حرام قرار دیا، بیشک یہ گمراہ ہوگئے اور یہ ہدایت پانے والے تھے ہی نہیں۔ ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک ان لوگوں نے خسارہ پایا جنہوں نے حماقت اور جہالت کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل کردیا اور جو رزق اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اللہ پر افترا پردازی کرکے اس کو حرام قرار دیا، بیشک یہ گمراہ ہوگئے اور یہ ہدایت پانے والے تھے ہی نہیں۔ (الانعام : ١٤٠) 

بیٹیوں کو قتل کرنے کی شقاوت : 

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جن لوگوں نے اپنی اولاد کو قتل کیا اور زندہ درگور کردیا ‘ ان لوگوں نے نقصان اٹھایا۔ ان لوگوں نے اپنی جہالت سے اپنی اولاد کو قتل کیا۔ یہ تنگ دستی اور قلت رزق سے ڈرتے تھے اور یہ لوگ اس بات سے جاہل تھے کہ رزق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جو پاکیزہ رزق دیا تھا ‘ اس کو انہوں نے اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھ کر حرام کردیا اور یہ کھلی گمراہی میں پڑگئے ‘ کیونکہ انہوں نے دین اور دنیا کی سعادت کو کھو دیا ‘ اور یہ ہدایت کو حاصل کرنے والے تھے بھی نہیں۔ 

علامہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ نے بیان کیا ہے کہ روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک شخص ہمیشہ مغموم رہتا تھا آپ نے اس سے پوچھا کیا بات ہے ؟ تم کیوں مغموم رہتے ؟ اس نے کہا یارسول اللہ ! میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بہت بڑا گناہ کیا تھا اور میں ڈرتا ہوں کہ اللہ میرے اس گناہ کو نہیں بخشے گا ‘ خواہ میں مسلمان ہوچکا ہوں۔ آپ نے فرمایا مجھے بتاؤ ! تمہارا گناہ کیا تھا ؟ اس نے کہا یارسول اللہ ! میں ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی ‘ اس کی ماں نے مجھ سے سفارش کی کہ میں اس کو چھوڑ دوں حتی کہ وہ بڑی ہوگئی ‘ حتی کہ وہ عورتوں میں حسین ترین لڑکی تھی۔ لوگوں نے اس سے نکاح کرنے کا پیغام دیا ‘ مجھے اس عار آیا اور میرے دل نے یہ برادشت نہیں کیا کہ میں اس کا نکاح کر دوں ‘ یا اس کو بغیر نکاح کے رہنے دوں۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا میں اس کو فلاں فلاں قبیلہ میں اپنے رشتہ داروں سے ملانے کے لیے لے جا رہا ہوں ‘ وہ یہ سن کر خوش ہوئی۔ اس نے اس کو اچھے کپڑے اور زیور پہنائے ‘ میں اس کو لے گیا حتی کہ میں ایک کنوئیں پر پہنچا اور میں نے کنوئیں میں جھانک کر دیکھا ‘ وہ لڑکی سمجھ گئی کہ میں اس کو کنوئیں میں ڈالنا چاہتا ہوں ‘ وہ مجھے چمٹ گئی اور رونے لگی اور کہنے لگی ‘ اے میرے باپ ! تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ تم میرے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو ؟ مجھے اس پر رحم آیا ‘ پھر میں نے کنوئیں کی طرف دیکھا اور مجھ پر پھر عار غالب آگیا۔ وہ لڑکی پھر مجھ سے چمٹ گئی اور کہنے لگی ‘ اے میرے باپ ! میری ماں کی امانت کو ضائع نہ کر۔ میں نے پھر دوسری مرتبہ کنوئیں کی طرف دیکھا اور پھر اس کی طرف دیکھا۔ مجھے اس پر رحم آیا لیکن مجھ پر شیطان غالب آگیا ‘ میں نے پھر دوسری مرتبہ کنوئیں کی طرف دیکھا اور پھر اس کی طرف دیکھا مجھے اس پر رحم آیا لیکن مجھ پر شیطان غالب آگیا ‘ میں نے اس کو پکڑا اور اس کو اوندھے منہ کنوئیں میں ڈال دیا اور وہ کنوئیں میں چلا رہی تھی ‘ اے میرے باپ ! تو نے مجھے مار ڈالا ؟ میں اس کنوئیں پر ٹھہرا رہا حتی کہ آواز آنی بند ہوگئی ‘ پھر میں واپس آگیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب یہ سن کر رونے لگے۔ اور آپ نے فرمایا اگر میں کسی شخص کو زمانہ جاہلیت کے فعل پر سزا دیتا تو تمہیں دیتا۔ الجامع لاحکام القرآن جز ٧ ص ٨٨‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 140