أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِىۡ مُسۡتَقِيۡمًا فَاتَّبِعُوۡهُ‌ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوۡا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمۡ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ وَصّٰٮكُمۡ بِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اسی راستہ پر چلو، اور دوسرے راستوں پر نہ چلو وہ راستے تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے، اسی بات کا اللہ نے تمہیں مؤکد حکم دیا ہے تاکہ تم (گمراہی سے) بچو۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اسی راستہ پر چلو، اور دوسرے راستوں پر نہ چلو وہ راستے تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے، اسی بات کا اللہ نے تمہیں مؤکد حکم دیا ہے تاکہ تم (گمراہی سے) بچو۔ (الانعام : ١٥٣) 

بدعات سے اجتناب کا حکم : 

اس سے پہلی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے احکام بیان فرمائے تھے کہ شرک نہ کرو ‘ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو وغیرہ ‘ یہ نو تفصیلی اور جزئی احکام تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تفصیلی اور کلی حکم بیان فرمایا ہے جس میں یہ نو احکام اور باقی تمام شرعی احکام داخل ہیں اور وہ یہ ہے کہ یہ میری صراط مستقیم ہے اور یہی دین اسلام اور منہج قدیم ہے ‘ تم اجمالا اور تفصیلا ‘ اسی راستہ کو اختیار کرو اور اگر اس راستہ سے ادھر ادھر ہوئے تو گمراہی میں پڑجاؤ گے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ حق کا راستہ صرف ایک ہے اور باطل کے بہت راستے ہیں۔ 

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خط کھینچا اور فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے ‘ پھر آپ نے اس کے دائیں اور بائیں جانب متعدد خطوط کھینچے اور فرمایا یہ مختلف راستے ہیں اور ان میں سے ہر راستے کی طرف شیطان دعوت دے رہا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ‘ بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے ‘ سو تم اسی راستے کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو۔ (الایہ) (الانعام : ١٥٣) 

(سنن دارمی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠٢‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٤١٤٢‘ ٤٤٣٧‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١١) 

مجاہد نے اس آیت کی تفسیر میں کہا اس آیت میں دوسرے راستوں سے مراد بدعات ہیں۔ 

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا علم کے اٹھنے سے پہلے علم کو حاصل کرلو اور علم کا اٹھنا یہ ہے کہ اصحاب علم اٹھ جائیں گے۔ علم کو حاصل کرو ‘ کیونکہ تم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا کہ اسے کب علم کی ضرورت پیش آئے گی۔ تم عنقریب کچھ لوگوں کو دیکھو گے جو یہ دعوی کریں گے کہ وہ تمہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلا رہے ہیں ‘ حالانکہ ان لوگوں نے کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ لہذا تم علم حاصل کرو ‘ اور بدعات سے بچو اور تم مبالغہ آرائی سے اور گہرائی میں جانے سے بچو ‘ اور قدیم نظریات کے ساتھ وابستہ رہو۔ (سنن دارمی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ) 

حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن فجر کی نماز کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نصیحت کی اور وہ بہت موثر نصیحت تھی جس سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دل خوفزدہ ہوگئے۔ ایک شخص نے کہا یہ تو الوداع ہونے والے شخص کی نصیحت ہے۔ آپ ہم کو کیا وصیت فرماتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں تم کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور حاکم کا حکم سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ‘ خواہ وہ حبشی غلام ہو۔ تم میں سے جو شخص بعد میں زندہ رہے گا ‘ وہ بہت اختلاف دیکھے گا، تم نئی نئی باتوں میں پڑنے سے بچنا ‘ کیونکہ نئی نئی باتیں گمراہی ہیں۔ تم میں سے جو شخص دین میں نئی نئی باتیں دیکھے ‘ وہ میری سنت کو لازم کرلے اور خلفاء راشدین مھدیین کی سنت کو لازم کرے اور اس سنت کو دانتوں سے پکڑ لو ‘ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ 

(سنن الترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦٨٥‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٤٦٠٧‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٤٢‘ سنن دارمی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٩٥‘ مسند احمد ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٧١٤٥‘ المستدرک ‘ ج ١‘ ص ٩٧۔ ٩٦) 

بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام : 

علامہ مجد الدین ابن الاثیر محمد جزری متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : 

حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قیام رمضان کے متعلق فرمایا یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے ! (صحیح البخاری ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠١٠) 

بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعت ھدی اور بدعت ضلال ‘ جو نیا کام اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے خلاف ہو وہ مذموم ہے اور لائق انکار ہے ‘ اور جو نئے کام اللہ تعالیٰ کے بیان کیے ہوئے عموم استحباب میں داخل ہوں اور جن پر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے برانگیختہ کیا ہو ‘ وہ کام لائق مدح ہیں اور جن کاموں کی مثال موجود نہ ہو جیسے جود وسخا کی اقسام اور دیگر نیک کام تو وہ افعال محمودہ سے ہیں اور یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کام احکام شرع کے خلاف ہوں ‘ کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے کاموں کے لیے ثواب کی خبر دی ہے ‘ سو آپ نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں نیک طریقہ کو ایجاد کیا اس کو اس کا اجر ملے گا اور جو اس طریقہ پر عمل کرے گا ‘ اس کا اجر بھی اس کو ملے گا (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ ١٠١٧) اور اس کی ضد کے متعلق فرمایا جس شخص نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو ایجاد کیا اسے اس کا گناہ ہوگا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی گناہ ہوگا اور یہ اس وقت ہوگا جب وہ نیا کام اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ کے خلاف ہو۔ حضرت عمر (رض) نے جو یہ فرمایا تھا یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے ‘ یہ پہلی قسم سے ہے اور جب کہ نیک کام لائق مدح ہیں تو حضرت عمر (رض) نے اس تراویح کو بدعت فرمایا اور اس کی تعریف کی۔ تراویح کو حضرت عمر (رض) نے بدعت اس لیے فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تراویح کو مسلمانوں کے لیے سنت نہیں کیا ‘ آپ نے چند راتیں تراویح پڑھیں ‘ پھر اس کو ترک فرما دیا اور اس کی حفاظت کی ‘ نہ اس کے لیے مسلمانوں کو جمع کیا ‘ اور نہ یہ حضرت ابوبکر (رض) کے زمانہ میں تھی۔ صرف حضرت عمر (رض) نے اس کی جماعت کرانے کا اہتمام کیا اور اس کی دعوت دی ‘ اس وجہ سے حضرت عمر (رض) نے اس کو بدعت فرمایا اور یہ درحقیقت سنت ہے ‘ کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری سنت کو لازم رکھو اور میرے بعد خلفاء راشدین کی سنت کو لازم رکھو۔ (سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٦٠٧) اور فرمایا میرے بعد ابوبکر اور عمر کی اقتداء کرو اور یہ جو آپ نے فرمایا ہے ہر نیا کام بدعت ہے اس سے مراد دین میں وہ نئے کام ہیں جو شریعت کے قواعد کے خلاف ہوں اور سنت کے موافق نہ ہوں اور بدعت کا زیادہ تراستعمال مذمت میں ہوتا ہے۔ (نہایہ ‘ ج ١‘ ص ١٠٧۔ ١٠٦‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٣٦٧ ھ) 

علامہ محمد طاہر پٹنی متوفی ٩٨٦ ھ نے بھی بدعت کا معنی بیان کرتے ہوئے یہی لکھا ہے اور مزید یہ لکھا ہے کہ بعض بدعات واجب ہوتی ہیں ‘ جیسے متکلمین کا اسلام کی حقانیت اور گمراہ فرقوں کے رد پر دلائل قائم کرنا اور بعض بدعات مستحب ہوتی ہیں جیسے علمی کتابوں کی تصنیف کرنا ‘ دینی مدارس کو بنانا اور تراویح اور بعض بدعات مباح ہوتی ہیں ‘ جیسے انواع و اقسام کے نئے نئے کھانے۔ (مجمع بحار الانوار ‘ ج ١‘ ص ١٦١۔ ١٦٠‘ مطبوعہ مکتبہ دارالایمان ‘ المدینہ المنورہ ‘ ١٤١٥ ھ) 

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں : 

بعض بدعات واجب ہوتی ہیں جیسے گمراہ فرقوں کے رد پر دلائل قائم کرنا اور کتاب وسنت کو سمجھنے کے لیے علم نحو کو پڑھنا اور بعض بدعات مستحب ہوتی ہیں ‘ جیسے سرائے اور مدرسہ بنانا اور ہر وہ نیک کام جو اسلام کے ابتدائی عہد میں نہیں تھا ‘ اور بعض بدعات مکروہ ہوتی ہیں جیسے مساجد کو مزین کرنا اور بعض بدعات مباح ہوتی ہیں جیسے کھانے پینے کی لذیذ چیزیں اور عمدہ کپڑے۔ علامہ طحاوی نے شرح جامع صغیر میں ‘ علامہ نووی نے تہذیب میں اور علامہ برکلی نے الطریقہ المحمدیہ میں اسی طرح لکھا ہے اور علامہ شمسی نے بدعت محرمہ کی یہ تعریف کی ہے ہر وہ نیا عقیدہ یا نیا کام یا نیا حال جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت شدہ امور کے خلاف ہو ‘ اس کو کسی قسم کے شبہ یا تاویل کی بنا پر دین قدیم اور صراط مستقیم بنا لیا جائے جیسے شیعہ پیروں کو دھونے کی بجائے ان کا مسح کرتے ہیں اور موزوں پر مسح کا انکار کرتے ہیں۔ (رد المختار ج ٣٧٧‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٩ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 153