أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ مَكَّـنّٰكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَشۡكُرُوۡنَ۞

ترجمہ:

اور ہم نے تم کو زمین پر قابض کردیا اور تمہارے لیے اس (زمین) میں اسباب زیست فراہم کیے (مگر) تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور ہم نے تم کو زمین پر قابض کردیا اور تمہارے لیے اس (زمین) میں اسباب زیست فراہم کیے (مگر) تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو “

مشکل الفاظ کے معانی اور آیات سابقہ سے مناسبت : 

ولقد مکنکم : یعنی اے بنو آدم ہم نے تمہارے لیے زمین کو مستقر بنایا اور زمین میں تمہیں جگہ دی، یا ہم نے تم کو زمین پر قبضہ دیا اور زمین میں تصرف کرنے کی قدرت دی۔ 

معایش : یہ معیشت کے جمع ہے۔ جن چیزوں سے زندگی بسر کی جاتی ہے۔ مثلاً کھانے پینے کی چیزیں۔ ان کو معیشت کہتے ہیں۔ علامہ طاہر پٹنی متوفی 986 ھ نے لکھا ہے کہ جو چیزیں حیات کا آلہ ہیں، مثلاً زرعی پیداوار اور دودھ دینے والے جانوروں کے تھن ان کو معیشت کہتے ہیں۔ (مجمع بھار الانوار، ج 3 ص 719، مطبوعہ دار الایمان، مدینہ منورہ 1415 ھ)

اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت کو قبول کرنے اور ان کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد ان کی پیروی نہ کرنے پر ان کو دنیا کے عذاب سے ڈرایا۔ اور ہم نے کتنی ہی بستیوں کو ہلاک کردیا۔ ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت آیا یا جس وقت وہ دوپہر کو سو رہے تے (الاعراف :4) پھر ان کو آخرت کے عذاب اور مواخذہ سے ڈرایا پس ہم ان لوگوں سے ضرور باز پرس کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے تھے (الاعراف :6) ۔ پھر فرمایا : پس جن (کی نیکیوں) کے پلڑے بھاری ہوئے تو وہی کامیاب ہیں۔ اور جن کی نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہوئے تو وہی اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالنے والے ہیں (الاعراف :8-9) اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی نعمتوں کو یاد دلایا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کی ترغیب دی ہے تاکہ وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کا احسان مانیں اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی دعوت اور ان کے پیغام کو قبول کریں اور ان کی اطاعت اور اتباع کریں کیونکہ نعمتوں کی کثرت زیادہ اطاعت کو واجب کرتی ہے۔ 

معایش کی تفصیل : اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جو معایش (اسباب زیست) بنائے ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے کہ بعض معایش کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا۔ مثلاً دریاؤں میں پانی پیدا کیا، آسمان سے بارش نازل فرمائی، پھلوں اور غلوں کو اگایا، حلال جانور پیدا کیے اور بعض اسباب زیست وہ ہیں جن کو انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت سے اپنے اکتساب کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔ جیسے انسان تجارت اور محنت مزدوری کرکے رزق حاصل کرتا ہے۔ 

اور اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت یہ ہے کہ انسان زمین میں بستے ہیں اور اس میں تصرف کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی فہم و دانش اور قوت و توانائی سے ہر دور میں انسان کی فوز و فلاح، اس کی بہتری، سہولت اور مصلحت کے لیے نت نئے ذرائع اور وسائل تلاش کررہے ہیں۔ پہلے انسان پتوں سے بدن ڈھانپتا تھا، پھر سوت اور ریشم کے لباس کا دور آیا اور اب انسان پٹرولیم سے بھی لباس بنانے لگا ہے۔ پہلے لکڑی اور کوئل سے آگ حاصل کرتا تھا، پھر قدرت گیس کا دور آیا۔ برقی توانائی کے بعد ایٹمی توانائی کا دور آیا۔ پہلے بری سفر، خچروں اور گھوڑوں سے اور بحری سفر بادبانی کشتیوں سے کیا جاتا تھا۔ پھر موٹر کاروں ریل گاڑیوں اور دخانی جہازوں کا دور آیا اور اب ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور راکٹوں کا دور ہے۔ بہت سی بیماریوں کا پہلے پتا نہ تھا لوگ ان میں مبتلا ہو کر مرجاتے تھے۔ اب ان بیماریوں اور ان کے علاج کا پتا چلالیا گیا ہے۔ مثلاً ذیا بیطس ہے، ہائی بلڈ پریشر ہے، دل اور دماغ کے پیچیدہ امراض ہیں۔ فالج ہے، دماغ کی رگ کا پھٹ جانا ہے۔ سرجری کا طریقہ ایجاد ہوا اور طب کی دنیا میں بہت سے لاینحل مسئلے حل ہوگئے۔

اللہ تعالیٰ نے ان اسباب زیست اور ان سے فائدہ اٹھانے والی قوتوں کو انسان کی بہتری اور اس کی مصلحت کے لیے بنایا ہے اور یہ مادی فوائد اس لیے عطا کیے ہیں کہ ان کی مدد سے انسان روحانی حیات میں تزکیہ اور جلاء کو حاصل کرے اور اپنے باطن کو پاک اور صاف کرکے اپنے آپ کو اخروی نعمتوں کا اہل بنائے۔ سو انسان کو چاہیے کہ وہ ان نعمتوں کے نتیجے میں اپنے آپ کو گناہوں سے پاک رکھے اور ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کرے۔ 

شکر کا لغوی اور اصطلاحی معنی : علامہ سید محمد مرتضی زبیدی متوفی 1205 ھ لکھتے ہیں : علامہ مجد الدین فیروز آبادی متوفی 897 ھ نے قاموس میں لکھا ہے کہ شکر کا معنی ہے احسان کو پہچاننا اور اس کو بیان کرنا۔ اور علامہ فیروز آبادی نے بصائر میں لکھا ہے کہ شکر کی تین قسمیں ہیں۔ شکر بالقلب : یہ نعمت کا تصور کرنا ہے۔ شکر باللسان : یہ نعمت دینے والے کی حمد وثناء کرنا اور زبان سے تعظیم کرنا ہے اور شکر بالجوارح : یہ بہ قدر استحقاق، نعمت کے بدلہ میں کوئی نعمت دینا ہے (بعض علماء نے اس کی تعریف میں کہا یہ تعظیماً کھڑے ہونا، یا ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینا ہے اور سجدہ کرنا ہے) نیز علامہ فیروز آبادی نے کہا کہ شکر پانچ بنیادوں پر مبنی ہے : 

1 ۔ منعم کے سامنے شکر کرنے والے کا عجز و انکسار سے پیش آنا۔ 2 ۔ منعم سے محبت کرنا۔ 3 ۔ اس نعمت کا اعتراف کرنا۔ 4 ۔ اس نعمت پر منعم کی تعریف کرنا۔ 5 ۔ منعم کی نعمت کو اس کی ناپسندیدہ جگہ استعمال نہ کرنا۔

یہ پانچ امور شکر کی اساس اور بناء ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک امر بھی نہ ہو تو شکر ادا نہیں ہوگا۔ یہ پانچ امور شکر کا مرجع اور مدار ہیں۔ 

جنید بغدادی نے کہا : شکر یہ ہے کہ تم یہ گمان کرو کہ تم اس نعمت کے اہل نہ تھے۔ ابوعثمان نے کہا : شکر یہ ہے کہ تم یہ جان لو کہ تم منعم کا شکر ادا کرنے سے عاجز ہو۔ رویم نے کہا : شکر یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو منعم کی خدمت کے لیے فارغ کرلو۔ شبلی نے کہا : شکر یہ ہے کہ تم نعمت کو نہ دیکھو، نعمت دینے والے کو دیکھو۔ اس کا معنی یہ ہے کہ نعمت میں مشغول ہونے کی وجہ سے تم منعم سے غافل نہ ہوجاو۔ اور کمال شکر یہ ہے کہ بندہ نعمت اور معم دونوں کا مشاہدہ کرے۔ کیونکہ بندہ جس قدر زیادہ نعمت کا مشاہدہ کرے گا، اس قدر زیادہ شکر ادا کرے گا، اور اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے کہ اس کا بندہ اس کی نعمت کو دیکھے اور اس کا اعتراف کرے اور اس پر اس کی ثناء اور تعریف کرے، اور اس نعمت کی وجہ سے اللہ سے محبت رکھے۔ سوا اس کے کہ وہ نعمت فنا ہوجائے یا گم ہوجائے۔ 

علامہ فیروز آبادی نے کہا : علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ شکر اور حمد میں سے کون افضل ہے۔ حدیث میں ہے حمد شکر کی سردار ہے۔ جس شخص نے اللہ کی حمد نہیں کی، اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اقسام اور اسباب کے اعتبار سے شکر حمد سے عام ہے۔ (کیونکہ حمد صرف زبان سے ہوتی ہے اور شکر، زبان، دل اور اعضاء اور جوارح سے بھی ہوتا ہے) اور متعلق کے اعتبار سے شکر حمد سے خاص ہے۔ کیونکہ شکر صرف نعمت پر ادا کیا جاتا ہے جبکہ حمد میں یہ قید نہیں ہے۔ (وہ مطلقاً زبان سے کسی کی ثناء کرنے کو کہتے ہیں) مثلاً یہ نہیں کہا جائے گا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حیات، اس کی سمع اور بصر اور اس کے علم پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں بلکہ یوں کہا جائے گا کہ ہم ان اوصاف پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کی نعمتوں پر ہم دل میں جو اس کی تعطیم کرتے ہیں یا سجدہ شکر بجا لاتے ہیں، تو اس کو حمد نہیں کہا جائے گا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اور ہم زبان سے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کی ثناء اور تعریف کرتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی حمد بھی ہے اور اس کی شکر بھی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان میں عوم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے۔ 

شکور کا معنی ہے بہت زیادہ شکر ادا کرنے والا۔ قرآن مجید میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق ہے انہ کان عبدا شکورا (بنو اسرائیل :3) یعنی وہ اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لیے اس کی بہت کوشش سے عبادت کرتے تھے، اور شکور اللہ تعالیٰ کی بھی صفت ہے۔ واللہ شکور حلیم (التغابن :17) اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ بندوں کے کم اعمال پر دگنا چوگنا بلکہ بہت زیادہ اجر عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کا شکر کرتا ہے یعنی ان کو بخش دیتا ہے۔ اللہ کی طرف جب شکر کی نسبت ہو تو اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا اور ثواب عطا فرمانا۔ (تاج العروس، ج 3، ص 312، مطبوعہ المطبعہ الخیریہ، مصر، 1306 ھ)

علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی 806 ھ لکھتے ہیں : شکر کا لغوی معنی یہ ہے کسی نعمت پر زبان، دل یا دیگر اعضاء سے منعم کی تعظیم و تکریم کرنا۔ اور شکر کا اصطلاحی معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندہ کو سمع، بصر اور دیگر نعمتیں جو عطا کی ہیں ان کو اپنے مقاصد تخلیق کے مطابق خرچ کرنا۔ (کتاب التعریفات، ص 65، مطبوعہ المطبعہ الخیریہ، مصر 1306 ھ)

امام محمد بن غزالی متوفی 606 ھ لکھتے ہیں : دل کا شکر یہ ہے کہ نعمت کے ساتھ خیر اور نیکی کا قصد کیا جائے اور زبان کا شکر یہ ہے کہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کی جائے اور باقی اعضاء کا شکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں خرچ کیا جائے، اور ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی معصیت میں صرف ہونے سے بچایا جائے۔ حتی کہ آنکھوں کا شکر یہ ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ چیزوں کو دیکھے اور اس کی ناپسندیدہ چیزوں کو دیکھنے سے باز رہے۔ یعنی جن چیزوں کے دیکھنے میں اجر وثواب ہے ان کو دیکھے اور جن چیزوں کا دیکھنا گناہ ہے ان کو دیکھے۔ علی ھذا القیاس۔ تمام اعضاء کا حکم ہے۔ (احیاء العلوم ج 3 ص 338، مطبوعہ دار الخیر، بیروت، 1413 ھ)

شکر کے متعلق قرآن مجید کی آیات : ” واشکروا لی ولا تکفرون : اور میرا شکر ادا کرتے رہو، اور میری ناشکری نہ کرو ” (البقرہ :152) ۔ ” مایفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وامنتم وکان اللہ شاکرا علیما : اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آؤ اور اللہ شکر کی جزا دینے والا اور جاننے والا ہے ” (النساء :147) ۔ ” وسنجزی الشاکرین : اور ہم عنقریب شکر ادا کرنے والوں کو اچھی جزا دیں گے ” (آل عمران :145) ۔ ” اعملوا آل داود شکرا و قلیل من عبادی الشکور : اے آل داود ! شکر بجا لانے کے لیے نیک کام کرو، میرے بندوں میں شکر ادا کرنے والے کم ہیں ” (سبا :13) ۔ ” لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید : اگر تم شکر کروگے تو میں تم کو یقینا اور زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو بیشک میرا عذاب ضرور سخت ہے ” (ابراہیم :7) ۔

شکر ادا کرنے کے طریقوں کے متعلق احادیث : ہم اس سے پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اس نعمت کا شکر ہے۔ اس کے متعلق یہ حدیث ہے امام ابن ماجہ متوفی 273 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کوئی بندہ اللہ کی دی ہوئی نعمت پر الحمد للہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے افضل نعمت عطا فرماتا ہے (سنن ابن ماجہ، ج 2، قم الحدیث 3805، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت حکم بن عمیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم نے الحمد للہ رب العالمین کہا تو تم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کردیا اور اللہ تعالیٰ تمہاری نعمت میں زیادتی کرے گا۔ (جامع البیان ج 1 ص 90، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)

امام احمد بن حنبل متوفی 241 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت اسود بن سریع (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ثناء اور تعریف میں الحمد للہ سے زیادہ کوئی کلمہ پسند نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود الحمد للہ سے اپنی ثنا کی ہے۔ (مسند احمد، ج 5، رقم الحدیث :15586، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1414 ھ) ۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نعمت خواہ کتنی پرانی ہوجائے جب بھی بندہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیا ثواب عطا فرماتا ہے اور مصیبت خواہ کتنی پرانی ہوجائے جب بھی بندہ اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو نیا ثواب اور اجر عطا فرماتا ہے۔ نعمت پر شکر ادا کرنے سے اس نعمت کی مسئولیت کم ہوجاتی ہے اور مصیبت پر صبر کرنے سے اس کے ثمرات کی حفاظت ہوتی ہے۔ (نوادر الاصول ج 2 ص 203، مطبوعہ دار الجبل، بیروت، 1412 ھ)

شکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کی جائے اور اس کی کسی نعمت کی بےقدری نہ کی جائے۔ 

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے اور اپنے گھر میں روٹی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا۔ آپ اس کے پاس چل کر گئے۔ آپ نے اس کو اٹھایا، اس پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا : اے عائشہ ! اللہ کی نعمتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ جس نعمت کی لوگ ناقدری کرتے ہیں، ان کے پاس وہ نعمت بہت کم دوبارہ آتی ہے۔ (نوادر الاصول، ج 4، ص 174، مطبوعہ دار الجبل، بیروت، 1412 ھ)

شکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کم چیز پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے اور اللہ کی نعمت کا اظہار کیا جائے۔

حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے قلیل چیز کا شکر ادا نہیں کیا اس نے کثیر چیز کا بھی شکر ادا نہیں کیا اور اللہ کی نعمت کا بیان کرنا شکر ہے اور اس کو ترک کرنا کفر ہے۔ (علامہ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے) (مسند احمد، ج 14، رقم الحدیث : 18361، مطبوعہ دار الحدیث قاہر، 1416 ھ)

شکر کا ایک طیرقہ یہ بھی ہے کہ بندوں کا شکر ادا کیا جائے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ (سنن ابو داود، ج 4، رقم الحدیث 4811 ۔ سنن الترمذی ج 3، رقم الحدیث 1961 ۔ مسند احمد ج 7 رقم الحدیث 4795، مطبوعہ قاہرہ، صحیح ابن حبان، رقم الحدیث 2070 ۔ الادب المفرد، رقم الحدیث : 218 ۔ مسند ابویعلی، رقم الحدیث :1122)

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو کوئی چیز دی گئی تو وہ اس کے بدلہ میں کوئی چیز دے۔ اگر کوئی چیز نہ ملے تو اس کی تعریف کرے۔ جس نے اس کی تعریف کی اس نے اس کا شکر کیا اور جس نے اس کو چھپایا، اس نے کفر کیا۔ (سنن ابوداود، ج 4 رقم الحدیث :4813، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1414 ھ)

حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کے ساتھ کوئی نیکی کی گئی اور اس نے اس نیکی کرنے والے سے کہا جزاک اللہ خیرا اس نے اس شخص کی پوری تعریف کردی۔ (سنن الترمذی، ج 3، رقم الحدیث : 2042، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1414 ھ) 

راحت کے ایام میں مصیبت کے ایام کو یاد کرنا بھی شکر ہے۔

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص مصیبت میں مبتلا کیا گیا ہو پھر اس کو یاد کرے تو اس نے شکر ادا کیا اور اگر اس نے اس مصیبت کو چھپایا تو اس نے ناشکری کی۔ (سنن ابو داود، ج 4 رقم الحدیث : 4814، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1414 ھ)

شکر کی فضیلت کے متعلق احادیث : حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے مومن کے حال پر تعجب ہوتا ہے۔ اس کے ہرحال میں بھلائی ہے۔ اگر اس کو راحت پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کی فلاح ہے اور اگر اس کو ضرر پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کا فلاح ہے۔ (صحیح مسلم، زہد : 64، (2999) 7365 ۔ مسند احمد، ج 4، ص 332 ۔ 333، ج 6، 15، طبع قدیم) 

حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ میرے رب نے مکہ کی وادی کو پیش کیا تاکہ اس کو میرے لیے سونا بنا دے۔ میں نے کہا : نہیں ! اے میرے رب ! میں ایک دن سیر ہو کر کھاؤں گا اور ایک دن بھوکا رہوں گا، جب میں بھوکا ہوں گا تو تجھے یاد کروں گا تجھ سے فریاد کروں گا اور جب میں سیر ہوں گا تو تیرا شکر ادا کروں گا اور تیری حمد کروں گا۔ (سنن الترمذی، جلد 4 رقم الحدیث : 2354 ۔ مسند احمد، جلد 8 رقم الحدیث 22252، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

حضرت فضیل بن عمرو رضٰ اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص سے ملاقات کی۔ آپ نے اس سے پوچھا تمہارا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا میں ٹھیک ہوں، آپ نے پھر پوچھا تمہارا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا میں ٹھیک ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، آپ نے فرمایا میں تم سے یہی سننا چاہتا تھا۔ (کتاب الدعاء للطبرانی، رقم الحدیث 1939)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایمان کے دو نصف ہیں، نصف میں صبر ہے اور نصف میں شکر ہے۔ (شعب الایمان، رقم الحدیث : 9715، الجامع الصغیر، ج 1 رقم الحدیث : 3106)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 10