وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ(۴۲)

اور بے شک ہم نے تم سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے تو انہیں سختی اور تکلیف سے پکڑا (ف۹۷) کہ وہ کسی طرح گڑگڑائیں (ف۹۸)

(ف97)

فَقر و اِفلاس اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کیا ۔

(ف98)

اللہ کی طرف رجوع کریں ، اپنے گناہوں سے باز آئیں ۔

فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۴۳)

تو کیوں نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو گڑگڑائے ہوتے لیکن ان کے تو دل سخت ہوگئے (ف۹۹) اور شیطان نے ان کے کام ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے

(ف99)

وہ بارگاہِ الٰہی میں عاجز ی کرنے کے بجائے کُفر و تکذیب پر مُصِر رہے ۔

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ(۴۴)

پھر جب انہوں نے بھلا دیا جو نصیحتیں ان کو کی گئیں تھیں (ف۱۰۰) ہم نے اُن پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے (ف۱۰۱) یہاں تک کہ جب خوش ہوئے اس پر جوانہیں ملا (ف۱۰۲) تو ہم نے اچانک انہیں پکڑ لیا (ف۱۰۳)

(ف100)

اور وہ کسی طرح پَند پذیر نہ ہوئے ، نہ پیش آئی ہوئی مصیبتوں سے ، نہ انبیاء کی نصیحتوں سے ۔

(ف101)

صحت و سلامت اور وسعتِ رزق و عیش وغیرہ کے ۔

(ف102)

اور اپنے آپ کو اس کا مستحق سمجھے اور قارون کی طرح تکبُّر کرنے لگے ۔

(ف103)

اور مبتلائے عذاب کیا ۔

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاؕ-وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۴۵)

اب وہ آس ٹوٹے رہ گئے تو جڑ کاٹ دی گئی ظالموں کی (ف۱۰۴) اور سب خوبیوں سراہا اللہ رب سارے جہان کا (ف۱۰۵)

(ف104)

اور سب کے سب ہلاک کر دیئے گئے کوئی باقی نہ چھوڑا گیا ۔

(ف105)

اس سے معلوم ہوا کہ گمراہوں ، بے دینوں ، ظالموں کی ہلاکت اللہ تعالٰی کی نعمت ہے اس پر شکر کرنا چاہئے ۔

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَ اَبْصَارَكُمْ وَ خَتَمَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِهٖؕ-اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُوْنَ(۴۶)

تم فرماؤ بھلا بتاؤ تم اگر اللہ تمہارے کان آنکھ لے لے اور تمہارے دلوں پر مُہر کردے (ف۱۰۶) تو اللہ کے سوا کون خدا ہے کہ تمہیں یہ چیزیں لادے (ف۱۰۷) دیکھو ہم کس کس رنگ سے آیتیں بیان کرتے ہیں پھر وہ منہ پھیر لیتے ہیں

(ف106)

اور علم و معرفت کا تمام نظام درہم برہم ہو جائے ۔

(ف107)

اس کا جواب یہی ہے کہ کوئی نہیں تو اب توحید پر قوی دلیل قائم ہو گئی کہ جب اللہ کے سوا کوئی اتنی قدرت و اختیار والا نہیں تو عبادت کا مستحق صرف وہی ہے اور شرک بدترین ظلم و جُرم ہے ۔

قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ(۴۷)

تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو اگر تم پر اللہ کا عذاب آئے اچانک (ف۱۰۸) یا کھلم کھلا (ف۱۰۹) تو کون تباہ ہوگا سوا ظالموں کے (ف۱۱۰)

(ف108)

جس کے آثار و علامات پہلے سے معلوم نہ ہوں ۔

(ف109)

آنکھوں دیکھتے ۔

(ف110)

یعنی کافِروں کے کہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور یہ ہلاکت ان کے حق میں عذاب ہے ۔

وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۴۸)

اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے (ف۱۱۱) تو جو ایمان لائے اور سنورے (ف۱۱۲) ان کو نہ کچھ اندیشہ نہ کچھ غم

(ف111)

ایمانداروں کو جنّت و ثواب کی بِشارتیں دیتے اور کافِروں کو جہنّم و عذاب سے ڈراتے ۔

(ف112)

نیک عمل کرے ۔

وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(۴۹)

اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں انہیں عذاب پہنچے گا بدلہ ان کی بے حکمی کا

قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌۚ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّؕ-قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُؕ-اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ۠(۵۰)

تم فرمادو میں تم سے نہیں کہتا میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہوں کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہوں کہ میں فرشتہ ہوں (ف۱۱۳) میں تو اسی کا تابع ہوں جو مجھے وحی آتی ہے (ف۱۱۴) تم فرماؤ کیا برابر ہوجائیں گے اندھے اور انکھیارے (ف۱۱۵) تو کیا تم غور نہیں کرتے

(ف113)

کُفّار کا طریقہ تھا کہ وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم سے طرح طرح کے سُوال کیا کرتے تھے ، کبھی کہتے کہ آپ رسول ہیں تو ہمیں بہت سی دولت اور مال دیجئے کہ ہم کبھی محتاج نہ ہوں ، ہمارے لئے پہاڑوں کو سونا کر دیجئے ، کبھی کہتے کہ گزشۃ اور آیٔندہ کی خبریں سنائیے اور ہمیں ہمارے مستقبل کی خبر دیجئے کیا کیا پیش آئے گا تاکہ ہم منافِع حاصل کر لیں اور نقصانوں سے بچنے کے پہلے سے انتظام کر لیں ، کبھی کہتے ہمیں قیامت کا وقت بتائیے کب آئے گی ، کبھی کہتے آپ کیسے رسول ہیں جو کھاتے پیتے بھی ہیں نکاح بھی کرتے ہیں ، ان کے ان تمام باتوں کا اس آیت میں جواب دیا گیا کہ یہ کلام نہایت بے مَحل اور جاہلانہ ہے کیونکہ جو شخص کسی امر کا مُدعی ہو اس سے وہی باتیں دریافت کی جا سکتی ہیں جو اس کے دعوٰی سے تعلق رکھتی ہوں ، غیر متعلق باتوں کا دریافت کرنا اور ان کو اس دعوٰی کے خلاف حُجّت بنانا انتہا درجہ کا جَہل ہے اس لئے ارشاد ہوا کہ آپ فرما دیجئے کہ میرا دعوٰی یہ تو نہیں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں جو تم مجھ سے مال دولت کا سوال کرو اور میں اس کی طرف التفات نہ کروں تو رسالت سے منکِر ہو جاؤ ، نہ میرا دعوٰی ذاتی غیب دانی کا ہے کہ اگر میں تمہیں گزشۃ یا آیٔندہ کی خبریں نہ بتاؤں تو میری نبوّت ماننے میں عُذر کر سکو ، نہ میں نے فرشتہ ہونے کا دعوٰی کیا ہے کہ کھانا پینا ، نکاح کرنا قابلِ اعتراض ہو تو جن چیزوں کا دعوٰی ہی نہیں کیا ان کا سوال بے مَحل ہے اور اس کی اجابت مجھ پر لازم نہیں ، میرا دعوٰی نبوّت و رسالت کا ہے اور جب اس پر زبردست دلیلیں اور قوی برہانیں قائم ہو چکیں تو غیر متعلق باتیں پیش کرنا کیا معنٰی رکھتا ہے ۔

فائدہ : اس سے صاف واضح ہو گیا کہ اس آیتِ کریمہ کو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کے غیب پر مطلِع کئے جانے کی نفی کے لئے سند بنانا ایسا ہی بے محل ہے جیسا کُفّار کا ان سوالات کو انکارِ نبوّت کی دستاویز بنانا بے محل تھا علاوہ بریں اس آیت سے حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کےعلمِ عطائی کی نفی کسی طرح مراد ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس صورت میں تعارُض بینَ الآیات کا قائِل ہونا پڑے گا وَ ہُوَ بَاطِل ۔ مفسِّرین کا یہ بھی قول ہے کہ حضور کا ” لَۤا اَقُوْلُ لَکُمْ ”الآیہ فرمانا بطریقِ تواضع ہے ۔ (خازن و مدارک و جمل وغیرہ)

(ف114)

اور یہی نبی کا کام ہے تو میں تمہیں وہی دوں گا جس کا مجھے اِذن ہو گا ، وہی بتاؤں گا جس کی اجازت ہوگی ، وہی کروں گا جس کا مجھے حکم ملا ہو ۔

(ف115)

مؤمن و کافِر عالِم و جاہل ۔