أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَا تُفۡسِدُوۡا فِى الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِهَا وَادۡعُوۡهُ خَوۡفًا وَّطَمَعًا‌ ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰهِ قَرِيۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعا کرو، بیشک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے

تفسیر:

56..57: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور زمین میں اصلح کے بعد فساد نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعا کرو، بیشک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔ اور وہی ہے جو اپنی رحمت (کی بارش) کے آگے آگے خوشخبری کی ہواؤں کو بھیجتا ہے، حتی کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادل کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس کو کسی بنجر زمین کی طرف روانہ کردیتے ہیں پھر ہم اس سے پانی نازل کردتے ہیں، پھر ہم اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو (قبروں سے) نکالیں گے، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو ” (الاعراف : 57)

اس کائنات میں حشر کے دن مروں کو زندہ کرنے کی نشانی : 

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تھا کہ وہ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے، وہی کائنات میں حاکم اور تصرف کرنے والا ہے اور اس نے انسان کے لیے کائنات کو مسخر کردیا ہے اور اس نے انسان کو یہ ہدایت دی کہ وہ اپنی ہر ضرورت میں اور ہر آفت اور مصیبت میں اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور اس نے یہ بیان فرمایا کہ اس کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب اور اب اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ وہی رزاق ہے اور حصول رزق کا اہم ذریعہ آسمانی بارش ہے جس کی وجہ سے دریاؤں، چشموں اور کنوؤں میں انسانوں اور جانوروں کے لیے پینے کا پانی اور کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی فراہم ہوتا ہے۔ اور جس طرح وہ بنجر زمین کو بارش کے ذریعہ سرسبز اور زندہ فرماتا ہے اسی طرح وہ قیامت کے دن مردوں کو زندہ فرمائے گا۔ 

امام ابوداود الطیالسی اور امام بیہقی وغیرہما نے حضرت ابورزین عقیلی سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ مخلوق کو کس طرح دوبارہ زندہ فرمائے گا اور مخلوق میں اس کی کیا علامت ہے ؟ آپ نے فرمایا : کیا تم کبھی اپنی قوم کی خشک اور قحط زدہ زمین کے پاس سے نہیں گزرے ! اور پھر اس زمین کو سبزہ سے لہلہاتے ہوئے نہیں دیکھا ! انہوں نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا : یہ مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ یہ حدیث صحیح ہے اور اس آیت کے موافق ہے۔ (التذکرہ ص 210، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا جب پہلا صور پھونکنے کے بعد لوگ مرجائیں گے تو عرش کے نیچے سے ان پر بارش ہوگی اور وہ اس طرح اگنے لگیں گے جس طرح بارش سے سبزہ اگتا ہے حتی کہ جب ان کے اجسام مکمل ہوجائیں گے تو ان میں روح پھونک دی جائے گی۔۔ پھر ان پر نیند طاری کردی جائے گی اور وہ اپنی قبروں میں سو جائیں گے اور جس وقت دوسرا صورت پھونکا جائے گا تو ان کے سروں اور آنکھوں میں نیند کا خمار ہوگا اور ان کی ایسی کیفیت ہوگی جس طرح کسی سوئے ہوئے شخص کو اچانک بیدار کرنے سے ہوتی ہے اور اس وقت وہ یہ کہیں گے : ” یویلنا من بعثنا من مرقدنا ھذا ما وعد الرحمن و صدق المرسلون : ہائے افسوس ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا (پھر ایک منادی کہے گا) یہ وہ ہے جس کا رحمن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا ” (جامع البیان، جز 8، ص 274، دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 56