بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌؕ-وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۱۰۱)

بے کسی نمونے کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اس کے بچہ کہاں سے ہو حالانکہ اس کی عورت نہیں (ف۲۱۱) اور اس نے ہرچیز پیدا کی (ف۲۱۲) اور وہ سب کچھ جانتا ہے

(ف211)

اور بے عورت اولاد نہیں ہوتی اور زوجہ اس کی شان کے لائق نہیں کیونکہ کوئی شے اس کی مثل نہیں ۔

(ف212)

تو جو ہے وہ اس کی مخلوق ہے اور مخلوق اولاد نہیں ہو سکتی تو کسی مخلوق کو اولاد بتانا باطل ہے ۔

ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْهُۚ-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ(۱۰۲)

یہ ہے اللہ تمہارا رب (ف۲۱۳)اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں ہر چیز کا بنانے والا تو اسے پوجواور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے (ف۲۱۴)

(ف213)

جس کے صفات مذکور ہوئے اور جس کے یہ صفات ہوں وہی مستحقِ عبادت ہیں ۔

(ف214)

خواہ وہ رزق ہو یا اَجَل یا حمل ۔

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(۱۰۳)

آنکھیں اُسے احاطہ نہیں کرتیں (ف۲۱۵) اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہی ہے نہایت باطن پورا خبردار

(ف215)

مسائل : اِدراک کے معنٰی ہیں مَرئی کے جوانِب و حدود پر واقف ہونا اسی کو اِحاطہ کہتے ہیں ۔ ادراک کی یہی تفسیر حضرت سعید ابنِ مسیّب اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے منقول ہے اور جمہور مفسِّرین ادراک کی تفسیر احاطہ سے فرماتے ہیں اور احاطہ اسی چیز کا ہو سکتا ہے جس کے حدود و جہات ہوں ، اللہ تعالٰی کے لئے حد و جِہت محال ہے تو اس کا ادراک و احاطہ بھی ناممکن ، یہی مذہب ہے اہلِ سُنّت کا ، خوارج و معتزِلہ وغیرہ گمراہ فرقے ادراک اور رویت میں فرق نہیں کرتے اس لئے وہ اس گمراہی میں مبتلا ہو گئے کہ انہوں نے دیدارِ الٰہی کو محالِ عقلی قرار دے دیا باوجودیکہ نفیٔ رویت نفیٔ علم کو مستلزم ہے ورنہ جیسا کہ باری تعالٰی بخلاف تمام موجودات کے بلا کیفیت و جِہت جانا جا سکتا ہے ایسے ہی دیکھا بھی جا سکتا ہے کیونکہ اگر دوسری موجودات بغیر کیفیت و جِہت کے دیکھی نہیں جا سکتی تو جانی بھی نہیں جا سکتی ، راز اس کا یہ ہے کہ رویت و دید کے معنٰی یہ ہیں کہ بصر کسی شئے کو جیسی کہ وہ ہو ویسا جانے تو جو شئے جِہت والی ہو گی اس کی رویت و دید جِہت میں ہو گی اور جس کے لئے جِہت نہ ہو گی اس کی دید بے جہت ہو گی ۔

دیدارِ الٰہی : آخرت میں اللہ تعالٰی کا دیدار مومنین کے لئے اہلِ سُنّت کا عقیدہ اور قرآن و حدیث و اِجماعِ صحابہ و سلفِ اُمّت کے دلائلِ کثیرہ سے ثابت ہے ۔ قرآنِ کریم میں فرمایا ” وُجُوہ ُ یَّوْمَئِذٍ نَاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ ” اس سے ثابت ہے کہ مومنین کو روزِ قیامت ان کے ربّ کا دیدار میسّر ہو گا ، اس کے علاوہ اور بہت آیات اور صحاح کی کثیر احادیث سے ثابت ہے ۔ اگر دیدارِ الٰہی ناممکن ہوتا تو حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام دیدار کا سوال نہ فرماتے ۔ ” رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرُ اِلَیْکَ ” ارشاد نہ کرتے اور ان کے جواب میں ” اِنِ اسۡتقَرَّ مَکَانَہ’ فَسَوْفَ تَرَانِیْ ” نہ فرمایا جاتا ۔ ان دلائل سے ثابت ہو گیا کہ آخرت میں مؤمنین کے لئے دیدارِ الٰہی شرع میں ثابت ہے اور اس کا انکار گمراہی ۔

قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآىٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْۚ-فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَاؕ-وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(۱۰۴)

تمہارے پاس آنکھیں کھولنے والی دلیلیں آئیں تمہارے رب کی طرف سے تو جس نے دیکھا تو اپنے بھلے کو اور جو اندھا ہواتو اپنے بُرے کو اور میں تم پر نگہبان نہیں

وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَ لِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَ لِنُبَیِّنَهٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(۱۰۵)

اور ہم اسی طرح آیتیں طرح طرح سے بیان کرتے ہیں (ف۲۱۶) اور اس لیے کہ کافر بول اٹھیں کہ تم تو پڑھے ہو اور اس لیے کہ اُسے علم والوں پر واضح کردیں

(ف216)

کہ حُجّت لازم ہو ۔

اِتَّبِـعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ(۱۰۶)

اس پر چلو جو تمہیں تمہارے رب کی طرف سے وحی ہوتی ہے(ف۲۱۷) اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے منہ پھیر لو

(ف217)

اور کُفّار کی بے ہودہ گوئیوں کی طرف التفات نہ کرو ، اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکینِ خاطر ہے کہ آپ کُفّار کی یاوَہ گوئیوں سے رنجیدہ نہ ہوں ، یہ ان کی بدنصیبی ہے کہ وہ ایسی واضح برہانوں سے فائدہ نہ اٹھائیں ۔

وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكُوْاؕ-وَ مَا جَعَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ(۱۰۷)

اور اللہ چاہتا تو وہ شریک نہیں کرتے اور ہم نے تمہیں ان پر نگہبان نہیں کیااور تم ان پر کڑوڑے نہیں

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ۪-ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۰۸)

اور انہیں گالی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے (ف۲۱۸) یونہی ہم نے ہر امت کی نگاہ میں اس کے عمل بھلے کردئیے ہیں پھر انہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے اور وہ انہیں بتادے گا جو کرتے تھے

(ف218)

قتادہ کا قول ہے کہ مسلمان کُفّار کے بُتوں کی بُرائی کیا کرتے تھے تاکہ کُفّار کو نصیحت ہو اور وہ بُت پرستی کے عیب سے باخبر ہوں مگر ان ناخدا شَناس جاہلوں نے بجائے پند پذیر ہونے کے شانِ الٰہی میں بے ادبی کے ساتھ زبان کھولنی شروع کی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اگرچہ بُتوں کو برا کہنا اور ان کی حقیقت کا اظہار طاعت و ثواب ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کُفّار کی بدگوئیوں کو روکنے کے لئے اس کو منع فرمایا گیا ۔ ابنِ اَنباری کا قول ہے کہ یہ حکم اول زمانہ میں تھا جب اللہ تعالٰی نے اسلام کو قوت عطا فرمائی منسوخ ہو گیا ۔

وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىٕنْ جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ مَا یُشْعِرُكُمْۙ-اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱۰۹)

اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں پوری کوشش سے کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئی تو ضرور اس پر ایمان لائیں گے تم فرمادو کہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں (ف۲۱۹) اور تمہیں (ف۲۲۰) کیا خبر کہ جب وہ آئیں تو یہ ایمان نہ لائیں گے

(ف219)

وہ جب چاہتا ہے حسبِ اقتضائے حکمت نازل فرماتا ہے ۔

(ف220)

اے مسلمانو ۔

وَ نُقَلِّبُ اَفْـٕدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ نَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۠(۱۱۰)

اور ہم پھیر دیتے ہیں ان کے دلوں اور آنکھوں کو (ف۲۲۱) جیسا وہ پہلی باراس پر ایمان نہ لائے تھے (ف۲۲۲) اور انہیں چھوڑ دیتے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکا کریں

(ف221)

حق کے ماننے اور دیکھنے سے ۔

(ف222)

ان آیات پر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر ظاہر ہوئی تھیں مثل شقُ القمر وغیرہ معجزاتِ باہِرات کے ۔