أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَـمَّا سُقِطَ فِىۡۤ اَيۡدِيۡهِمۡ وَرَاَوۡا اَنَّهُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۙ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ يَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَيَغۡفِرۡ لَـنَا لَنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جب ان کی خود فریبی کا طلسم جاتا رہا اور انہوں نے جان لیا کہ وہ گمراہ ہوچکے ہیں تو انہوں نے کہا اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ فرمائے اور ہم کو نہ بخشے تو ہم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب ان کی خود فریبی کا طلسم جاتا رہا اور انہوں نے جان لیا کہ وہ گمراہ ہوچکے ہیں تو انہوں نے کہا اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ فرمائے اور ہم کو نہ بخشے تو ہم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

(الاعراف : ١٤٩ )

لما سقط فی ایدیھم کا معنی 

ولما سقط فی ایدیھم : عربی محاورہ میں اس کا معنی ہے جب انہوں نے لغزش کی یا جب وہ پچھتائے زجاج نے کہا اس کا معنی ہے جب ان کے ہاتھوں میں ندامت گرگئی۔ بنو اسرائیل بچھڑے کی عبادت کرنے پر بہت نادم ہوئے تھے۔ اس لیے فرمایا۔ ولما سقط فی ایدیھم : جب کوئی ناپسندیدہ اور مکروہ چیزوں میں آئے تو یہ کہتے ہیں اور ہاتھوں سے دل کا استعارہ کرتے ہیں۔

سقوط کا معنی کسی چیز کا اوپر سے نیچے گرنا۔ عرب کہتے ہیں سقط المطر بارش گری اور حمل ساقط ہونا کہتے ہیں جب ناتمام بچہ پیدا ہو۔ جن انسان کسی عمل کا اقدام کرتا ہے تو اس کو یقین ہوتا ہے کہ یہ عمل اچھا اور درست ہے اور اس عمل سے اس کو عزت اور بلندی حاصل ہوگی۔ اور جب اس پر یہ منکشف ہو کہ یہ عمل باطل اور فاسد تھا تو وہ گو یا بلندی سے نیچے گرگیا اور جو عزت اور بلندی اس کو حاصل تھی وہ جاتی رہی۔ اس لیے جب کسی شخص سے خطایا لغزش ہو تو عرب کہتے ہیں ذالک سقطۃ منہ اس کی سر بلندی اور سرفرازی گئی۔

اس کے بعد انہوں نے توبہ اور استغفار کیا۔ اور یہ معاملہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے طور سے واپس آنے کے بعد ہوا تھا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 149