ایمانِ ابو طالب کے متعلق حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : آج کل مسلہ ایمانِ ابو طالب پر بہت بحث ہو رہی ہے اس موضوع پر جلد ہم تفصیل سے لکھیں گے اور دونوں فریقین کے دلائل بھی پیش کرینگے اس وقت ہم صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان مبارک پیش کر رہے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ احباب اس پر غور فرمائیں گے کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی عالم یا حضرت ابو طالب کا ہمدرد نہیں ہو سکتا لہٰذا آیئے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان پڑھتے ہیں :

حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا ، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ ۔

ترجمہ : حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب میرے والد فوت ہوئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا فوت ہو گئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جا کر انہیں دفنا دیں ۔ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور انہیں دفنا دیں ، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا ۔ (مسند الطيالسي صفحہ نمبر 19 حدیث نمبر 120 ، وسنده ‘ حسن متصل،چشتی)

ایک روایت کے الفاظ ہیں : إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِئْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا ؟ ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں ۔ (مسند الامام احمد : 97/1،چشتی)(سنن ابي داؤد : 3214) (سنن النسائي : 190، 2008 ، واللفظ لهٗ ، وسندهٗ حسن)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7) اور امام ابنِ جارود رحمۃ اللہ علیہ (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے ۔ یہ حدیث نصِ قطعی ہے کہ ابوطالب مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ تک نہیں پڑھی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)