حضرت عائشہ کی برأت میں قرآنی آیات کا نزول

ام المومنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں امید رکھتی تھی کہ اللہ تبارک و تعالی میری برأت فرمادے گا ۔ اور میری پاکی اور پاک دامنی کی خبر دے گا ۔ لیکن مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ اللہ میرے اس معاملہ میں وحی نازل فرمائے گا ۔ کیونکہ میں اپنے آپ کو اور اپنے معاملے کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی۔ البتہ مجھ کو صرف اس بات کی توقع تھی کہ رسول اللہ ﷺ شاید خواب دیکھیں گے اور اس ذریعہ سے مجھ بے چاری کی عفت اور عصمت پر گواہی مل جائے گی ۔ اللہ کا کرم دیکھئے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے کہ یکایک حضور پر نزول و حی کے آثار نمودار ہوئے اور جو شدت ایسے موقع پر ہوتی تھی وہ شروع ہوئی ۔ حتی کہ آپ کی پیشانی مبارک پر موتیوں کے مانند پسینہ چمکنے لگا ۔ آپ پر خوب ٹھنڈی کے موسم میں بھی نزول وحی کی شدت سے پسینہ وغیرہ کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ اور یہ اس گرانی اور بوجھ کی وجہ سے ہوتا تھا ، جو کلام مجید آپ پراترتا تھا ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب حضور اقدس ﷺ نزول وحی کی کیفیت سے فارغ ہوئے، تو آپ کا یہ حال تھا کہ آپ تبسم فرمارہے تھے ۔ سب سے پہلی بات جو حضور نے فرمائی وہ یہ تھی کہ ’’ اے عائشہ صدیقہ ! حق تعالی نے تمہیں بری قرار دے کر تمہیں پاک گردانا ہے ۔ اس تہمت سے تمہاری پاکی بیان کی ہے اور تمہاری شان میں قرآن بھیجا ہے ۔ ‘‘

حوالہ : (۱) مدارج النبوۃ ،اردو ترجمہ، جلد ۲۔ ص ۲۸۳

(۲) خصائص کبری ،اردوترجمہ، جلد ۱ ۔ ص۴۵۴)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس وقت إنَّ الَّذِیْنَ جَآؤا بِالإفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ (پارہ ۱۸ ، سورئہ نور، آیت ۱۱ ) ترجمہ:’’ بے شک وہ کہ یہ بہت بڑابہتان لائے ہیں، تمہیں میں کی ایک جماعت ‘‘ ( کنز الایمان ) سے لے کر دس ۱۰؎ آیتوں تک وحی ہوئی ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت میں دس آیات مذکورہ اور دیگر آٹھ۸؎ آیات ملا کر کل ۸ ۱؎ اٹھارہ آیات نازل فرمائیں ۔

سورئہ نور آیت ۴ ۔ پارہ اٹھارہ میں صاف حکم نازل ہوا کہ:

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأتُوا بِأرْبَعَۃِ شُھَدَآئِ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَ لاَ تَقْبَلُوا لَھُمْ شَھَادَۃً أبَدًا ۔

ترجمہ :’’ اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں ، پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو انہیں اسی۸۰؎ کوڑے لگائو اور ا ن کی کوئی گواہی کبھی نہ مانو ۔‘‘ ( کنز الایمان )

ام المومنین محبوبۂ محبوب رب العالمین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت اور افک کے سلسلہ میں قرآن مجید کا انداز بیان بڑا جامع اور پر زور ہے۔ اس میں اعجاز و ایجاز اور احکامات و تنبیہات اس اسلوب سے بیان کئے گئے ہیں کہ معصیت کے کسی دوسرے وقوع اور موقع پر اس انداز سے بیان نہیں کئے گئے۔ تہمت طرازی اور سخن سازی کا منافقین کی طرف سے جو مظاہرہ ہوا، جس سے اہل بیت رسول اور خود رسالت مآب ﷺ کو جو انتہائی صدمہ ، دکھ ، اور تکلیف پہونچی تھی، اس کی وجہ سے انداز بیان میں شدت ہوئی ہے ۔

الخصائص الکبری فی معجزات خیر الوری میں امام اجل حضرت علامہ عبد الرحمن جلال الدین سیوطی قدس سرہ نے زمخشری کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ ’’اصنام پرستی اور شرک کے بارے میں جو تنبیہات ہیں، وہ بھی مقابلۃً اس سے کچھ کم ہی ہیں ۔ کیونکہ یہ ایک پاکباز زوجۂ رسول ﷺ کی طہارت و برأت کی حامل ہیں ۔ ‘‘

وحی کے نزول کے بعد حضور اقدس ﷺ نے سورئہ نور کی دس۱۰؎ آیتوں کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت عائشہ صدیقہ کے یہاں سے نکل کر خوش و خرم مسجد نبوی میں تشریف لائے اور صحابہ کو جمع فرماکر خطبہ دیا اور اس کے بعد نازل شدہ آیتوں کی صحابۂ کرام کے سامنے تلاوت فرمائی ۔ اور تہمت لگانے والوں کو طلب فرمایا ۔ تہمت لگانے والے جب بارگاہ رسالت میں حاضر کئے گئے، تو سرکار نے ان پر ’’حد قذ ف ‘‘ جاری فرمایا اور ہر ایک کو اسی۸۰؎ اسی ۸۰؎ کوڑے لگوائے ۔

( حوالہ: مدارج النبوۃ ۔ اردو ، جلد ۲۔ ص ۲۸۳)

یہاں تک کے مطالعہ سے واقعہ کی ابتدا سے انتہا تک کی واقفیت حاصل ہو چکی ہوگی ۔ اب دور حاضر کے منافقین کے اعتراضات میں سے اہم اعتراض جو اس واقعہ کے ضمن میں حضور اقدس ﷺ کے علم غیب پر ہیں اس کا جواب دیں ۔