أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَنۡ يَّهۡدِ اللّٰهُ فَهُوَ الۡمُهۡتَدِىۡ‌ۚ وَمَنۡ يُّضۡلِلۡ فَاُولٰۤئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

جس کو اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے اور جس کو وہ گمراہی پر رکھے سو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں

تفسیر:

178 ۔ 179:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” جس کو اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے اور جس کو وہ گمراہی پر رکھے سو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ 178 ۔ اور بیشک ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے ایسے جن اور انسان پیدا کیے جن کے دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں (مگر) وہ ان سے دیکھتے نہیں، اور ان کے کان ہیں (مگر) وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ ہیں وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں “۔

ہدایت اور گمراہی کا اللہ کی جانب سے ہونے کا معنی 

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے گمراہی کو بہت بری مثال سے واضح فرمایا ہے۔ اس لیے یہاں پر یہ فرمایا کہ ہدایت اور گمراہی دونوں اللہ کی جانب سے ہیں۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب ہدایت اور گمراہی دونوں اللہ کی جانب سے ہیں تو کسی شخص کا ہدایت یافتہ ہونا دنیا میں مدح اور آخرت میں ثواب کا مستحق نہیں ہونا چاہیے اور کسی شخص کا گمراہ ہونا دنیا میں مذمت اور آخرت میں عذاب کا مستحق نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہدایت اور گمراہی کا پیدا کرنا اللہ کی جانب سے ہے اور ان کا اختیار کرنا بندہ کی طرف مفوض ہے، بندہ اگر ہدایت کو اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں ہدایت کو پیدا کردیتا ہے اور اگر وہ گمراہی کو اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں گمراہی کو پیدا کردیتا ہے۔ باقی رہا یہ کہ اس اختیار کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ یہ بہت غامض بحث ہے۔ اس کی تفصیل اور تحقیق کے لیے شرح صحیح مسلم ج 7، ص 269 ۔ 271 کو ملاحظہ فرمائیں۔ 

اس آیت پر اشکال کے حسب ذیل جوابات بھی دیے گئے ہیں :

1 ۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ آخرت میں جنت اور ثواب کی طرف ہدایت دے گا وہ دنیا میں ہدایت یافتہ ہے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ آخرت میں جنت سے گمراہ کردے گا وہ نقصان اٹھانے والا ہے 

2 ۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ آخرت میں جنت اور ثواب کی طرف ہدایت دے گا وہ دنیا میں ہدایت یافتہ ہے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ آخرت میں جنت سے گمراہ کردے گا وہ نقصان اٹھانے والا ہے۔

2 ۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور اس نے اس ہدایت کو قبول کرلیا اور اس کے تقاضوں پر عمل کیا وہ ہدایت یافتہ ہے اور جس شخص نے اللہ کی دی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کیا اس کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ کردیا اور وہ نقصان اٹھانے والا ہے۔

3 ۔ جس نے ہدایت کو اختیار کرلیا اللہ تعالیٰ نے اس پر خاص لطف و کرم فرمایا وہ ہدایت یافتہ ہے اور جس نے گمراہی کو اختیار کا وہ اللہ تعالیٰ کے خاص لطف و کرم سے محروم ہوگیا اس کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ کردیا اور وہ نقصان اٹھانے والا ہے۔ 

بہت سے جنات اور انسانوں کو دوزخ کے لیے پیدا کرنے کی توجیہ 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور بیشک ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے انسان اور جن پیدا کیے۔ 

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جن انسانوں اور جنات کے متعلق ازل میں یہ علم تھا کہ وہ کفر پر اصرار کریں گے اور ان کی موت کفر پر ہوگی ان کو اللہ تعالیٰ نے انجام کار دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس آیت میں لام تعلیل کا نہیں ہے بلکہ عاقبت کا ہے جس کا معنی ہے انجام کار۔ اس کی مثال حسب ذیل آیات ہیں : 

وقال موی ربنا انک اتیت فرعون وملاہ زینۃ واموالا فی الحیوۃ الدنیا ربنا لیضلوا عن سبیلک : اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب ! تو نے فرعون کو اور اس کے عمال حکومت کو زینت کا سامان اور دنیا کی زندگی کے بہت اموال دیے ہیں تاکہ وہ انجام کار لوگوں کو تیرے راستہ سے گمراہ کریں۔ (یونس :88)

فالتطقطہ ال فرعون لیکون لہم عدوا وحزنا : سو اس (موسی) کو فرون کے گھروالوں نے اتھا لیا تاکہ انجام کار وہ ان کے لیے دشمن اور رنج و غم کا باعث ہوجائے۔

علامہ محمود بن عمر زمخشری متوفی 528 ھ لکھتے ہیں :

یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے متعلق اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ان کے اذہان حق کی معرفت کو قبول نہیں کریں گے اور یہ اپنی آنکھوں سے مخلوقات میں اللہ کی نشانیوں کو نہیں دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ کی آیات جب تلاوت کی جائیں گی تو یہ ان کو غور و فکر سے نہیں سنیں گے، کفر پر اصرار اور ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے قلوب ماؤف ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹیں ہیں۔ اس آیت سے مقصود یہود کا حال بیان کرنا ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب میں انتہا کو ہپنچ چکے ہیں، حالانکہ ان کو علم الیقین ہے کہ ان کی کتابوں میں جس نبی کی بعثت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ یہی ہیں یعنی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اور یہ ان بہت سے لوگوں میں سے ہیں جو ایمان لانے والے نہیں ہیں گویا کہ ان کو پیدا ہی دوزخ کے لیے کیا گیا ہے (الکشاف ج 2، ص 177 ۔ 178، مطبوعہ قم، ایران، 1413 ھ)

اس آیت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا مقصود ہے گویا کہ یوں کہا گیا ہے کہ اگر یہ ضدی اور معاند مشرکین ایمان نہیں لاتے اور آپ کی نصیحت کو قبول نہیں کرتے تو آپ پریشان نہ ہوں یہ ضدی مشرکین ان لوگوں میں سے ہیں جن کو انجام کار دوزخ کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ان کی وجہ سے آپ ملول خاطر نہ ہوں آپ اپنے دینی معاملات میں اور اپنے متبعین کے ساتھ مشغول رہیے اور ان کی پرواہ نہ کیجئے۔ 

اگر یہ کہا جائے کہ جنات تو آگ سے پیدا کیے گئے ہیں ان کو آگ کے عذاب کی کیا تکلیف ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ہے لیکن اگر اس کو اینٹ ماری جائے تو اس کو تکلیف ہوتی ہے حالانکہ اینٹ بھی مٹی سے بنی ہوئی ہے۔ سو اسی طرح جنات کو بھی آگ سے تکلیف ہوگی خواہ وہ آگ سے بنے ہوئے ہیں۔

ایک اور اعتراض یہ ہے کہ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون : اور میں نے جن اور انس کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ” (الذاریات :56) ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اور انس کو پیدا کرنے سے مقصود یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اور زیر تفسیر آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکثر جن اور انس کو دوزخ کے لیے پیدا فرمایا ہے اور یہ واضح تعارض ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور جنات کو اس لیے پیدا فرمایا ہے کہ وہ اپنے اختیار اور ارادہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، سو جو اپنے اختیار اور ارادہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے ان کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا، اور دوزخ میں داخل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو پیدا نہیں فرمایا لیکن جو اپنے اختیار اور ارادے سے کفر کریں گے اور اپنے مقصد تخلیق کے خلاف کام کریں گے ان کو اللہ تعالیٰ انجام کار دوزخ میں داخل فرمائے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ مقصد تخلیق اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور دوزخ میں داخل کرنا مقصد تخلیق نہیں ہے۔ اس لیے ان آیتوں میں تعارض نہیں ہے۔ 

عقل کا محل دل ہے یا دماغ ؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں (مگر) وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں (مگر) وہ ان سے سنتے نہیں۔

یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اس کی وحدانیت کے دلائل پر دل سے غور و فکر نہیں کرتے، اور اس کائنات میں اس کے وجود پر جو نشانیاں ہیں ان کا آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کرتے، اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی جو تلاوت کی جاتی ہے اس کو کانوں سے غور سے نہیں سنتے اور نہ وعظ اور نصیحت کو سنتے ہیں۔ 

اس آیت میں فرمایا ہے جن کے دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ امام فخر الدین رازی شافعی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں : علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ علم کا محل قلب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بہ طور مذمت فقہ اور فہم کی ان کے دلوں سے نفی کی ہے اور یہ اسی وقت درست ہوگا جب فقہ اور فہم کا محل قلب ہو۔ واللہ اعلم۔ (تفسیر کبیر ج 5، ص 411، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)

حضرت نعمان بن بشیر (رض) نے اپنی دو انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ امور مشتبہ ہیں جن کا بہت سے لوگوں کو علم نہیں ہے سو جو شخص شبہات سے بچا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کرلیا اور جس شخص نے امور مشتبہ کو اختیار کیا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا، جس طرح کوئی شخص کسی چراگاہ کی حدود کے گرد جانور چرائے تو قریب ہے کہ وہ جانور اس چراگاہ میں بھی چر لیں، سنو ہر بادشاہ کی ایک خاص حد ہوتی ہے اور یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کی حدود اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں اور سنو جسم میں گوشت کا ایک ایسا تکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اور یاد رکھو وہ گوشت کا ٹکڑا قلب ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2501 ۔ صحیح مسلم المساقات، 107 (1599) 4017 ۔ سنن ابوداود رقم الحدیث : 3330، 3329 ۔ سنن الترمذی، رقم الحدیث : 1209 ۔ سنن النسائیرقم الحدیث : 4453 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3984)

اس حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے : سنو ! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ اگر وہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اور یاد رکھو گوشت کا وہ ٹکڑا قلب ہے۔ علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ایک جماعت نے اس حدیث سے اس پر استدلال کیا ہے کہ عقل قلب میں ہے سر میں نہیں ہے، اور اس میں اختلاف مشہور ہے۔ ہمارے اصحاب (شافعیہ) اور جمہور متکلمی 9 ن کا یہ نظریہ ہے کہ عقل قلب میں ہے، اور امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے کہ عقل دماغ میں ہے۔ علامہ ماری لکھتے ہیں عقل کے قلب میں ہونے کے قائلین اس آیت سے استدلال کرتے ہیں فتکون لہم قلوب یعقلون بہا کہ ان کے دل ایسے ہوجاتے جن سے وہ سمجھتے۔ اور اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب۔ بیشک اس میں دل والے کے لیے نصیحت ہے۔ ان آیات کے علاوہ اس حدیث سے بھی اس پر استدلال کیا جاتا ہے کہ عقل دل میں ہے۔ 

علامہ نووی لکھتے ہیں کہ جو علماء یہ کہتے ہیں کہ عقل دماغ میں ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ جب دماغ فاسد ہو تو عقل فاسد ہوجاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقل دماغ میں ہوتی ہے۔ علامہ نووی اس دلیل کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یہ دلیل صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ عقل دماغ میں نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ عادت جاریہ ہو کہ وہ دماغ کے فساد کے وقت عقل کو فاسد کردیتا ہو اور اس میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ (شرح مسلم ج 2، ص 28، مطبوعہ کراچی)

علامہ نووی کا یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آنکھ سے بصارت کا ادراک نہیں ہوتا اور آنکھ ضائع ہونے بصارت اس لیے چلی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت جاریہ ہے کہ وہ آنکھوں کے فساد کے وقت بصارت کو فاسد کردیتا ہے اور یہ بداہت کے خلاف ہے۔ 

دماغ کے محل عقل ہونے پر دلائل 

عقل کا محل دماغ ہے۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کام کی استعداد اور صلاحیت جس عضو میں رکھی ہے اس کا محل اسی عضو کو بنایا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی عادت جاریہ ہے اور ہم بداہۃً جانتے ہیں کہ غور و فکر اور سوچ و بچار کا کام دماغ سے لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ مطالعہ کرنے زیادہ غور و فکر کرنے اور زیادہ سوچ و بچار سے دماغ تھک جاتا ہے دل کو کوئی تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ زیادہ پڑھنے سے سر میں درد ہوجاتا ہے دل میں کوئی درد نہیں ہوتا۔ اگر چربی بڑھ جانے اور مٹاپے سے عارضہ قلب کی بیماری لاحق ہوجائے اور دل کے دورے پڑنے لگیں تو اس سے انسان کی عقل متاثر نہیں ہوتی۔ اسی طرح بلڈ پریشر بڑھ جانے کی وجہ سے دل کو زیادہ مشقت اور محنت کرنا پڑے تو اس سے بھی عقل کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے برخلاف اگر دماغکو کوئی بیماری لاحق ہو جیسے عدم ارتکاز، ذہنی اتنشار، انجانا خوف، نسیان، مالیخولیا اور جنون وغیرہ تو ان بیماریوں سے عقل کی کارکگردگی کم یا فاسد ہوجاتی ہے۔ نیز اگر دماغ پر کوئی چوٹ لگ جائے تو اس سے بھی عقل متاچر ہوتی ہے۔ بعض اوقات دماغ کی چوٹ کی وجہ سے انسان کی یاد داشت ختم ہوجاتی ہے۔ بعض دفعہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کم یا ختم ہوجاتی ہے۔ یہ تمام چیزیں بکثرت مشاہدات اور بداہت سے ثابت ہیں اور ان کا انکار کرنا بداہت کا انکار کرنا ہے اور سب سے واضح دلیل ہے کہ مغربی ممالک میں بعض لوگوں کا آپریشن سے دل بدل دیا گیا اگر عقل اور ادراک کا محل دل ہوتا تو دل بدل جانے سے پوری شخصیت بدل جانی چاہیے تھے جبکہ ان لوگوں نے بتایا کہ ان کے علوم اور معلومات، احساسات اور جذبات میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا اور اس سے ثابت ہوا کہ عقل کا محل دماغ ہے دل نہیں ہے۔

قرآن اور حدیث میں دل کی طرف عقل اور ادراک کی نسبت کرنے کی توجیہ 

رہا یہ سوال کہ قرآن مجید میں عقل اور ادراک کی نسبت دل کی طرف کی گئی ہے دماغ کی طرف نہیں کی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن سائنس کی زبان میں نہیں بلکہ عرف اور ادب کی زبان میں کلام کرتا ہے اور روز مرہ کی گفتگو، عرف، محاورات اور ادبی زبان میں علم و ادراک، سوچ و بچار، احساسات، جذبات، خیالات بلکہ تقریباً دماغ کے تما فعال کو سینے اور دل کی طرف منسوب کیا جاتا ہے حتی کہ کسی چیز کے یاد ہونے کو کہتے ہیں کہ وہ تو میرے سینے میں موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ خیال آیا، میرا دل اس کو نہیں مانتا، حالانکہ دل میں تو صرف خون پمپ کرنے کا ایک آلہ ہے۔ سائنسی ترقی کے اس دور میں بھی پڑھے لکھے ادیب اور سائنس دان اپنی گفتگو میں الفت اور محبت اور علم اور ادراک کی نسبت دل کی طرف کرتے ہیں دماغ کی طرف نہیں کرتے۔

قرآن مجید میں عام لوگوں کے عرف اور محاورے کے مطابق خطاب ہے۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانزل من السماء ماء اور اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا (بقرہ :22) حالانکہ یہ پانی بخارات کی صورت میں زمین سے اوپر جاتا ہے اور بارش کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ عرف اور محاورے میں کہا جاتا ہے کہ آسمان سے بارش ہوئی، اس لیے اس کے مطابق خطاب فرمایا۔ نیز ارشاد ہے حتی اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حمئۃ (الکہف :86) یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ ہپنچے تو انہوں نے اس (سورج) کو سیاہ دلدل کے چشمہ میں غروب ہوتا ہوا دیکھا، حالانکہ عقل اور سائنس کے نزدیک سورج کبھی غروب نہیں ہوتا وہ ہمیشہ اپنے مدار میں گھومتا رہتا ہے اور یہ تو بالکل بدیہی ہے کہ سورج چشمہ میں غروب نہیں ہوسکتا لیکن عرف میں ایسا ہی کہتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں سورج پہاڑ کے پیچھے چھپ گیا اسی طرح عرف کے مطابق یہاں ارشاد فرمایا ہے۔

میرے شیخ علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ نے فرمایا قرآن مجید میں عام سطح کے لوگوں اور عرف کے مطابق خطاب کیا ہے، اور عقلاء اور سائنس دانوں کی اصطلاح کے مطابق خطاب نہیں کیا، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ عقل اور سائنس اور اعلی درجہ کے دماغوں کے مطابق خطاب کرتا تو یہ عام لوگوں کے لیے غیر مانوس ہوتا اور وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکتے اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے بھی خلاف تھی اور اس کی رحمت کے بھی خلاف تھی۔

مذکورہ حدیث میں صراحتاً عقل اور ادراک کی دل کی طرف نسبت نہیں کی گئی بلکہ انسانی دل کو اخلاق اور عادات کا مرکز قرار دیا ہے اگر دل میں اچھے خیالات ہوں تو انسان کے تمام اعضاء سے اچھے افعال کا ظہور ہوگا لیکن چونکہ اخلاق کا اچھا یا برا ہونا بھی انسانی فکر پر موقوف ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس حدیث فکر کا مرکز دل کو قرار دیا ہے اور ہمارے نزدیک یہ بھی عرف اور محاورے کے مطابق اطلاق مجازی ہے۔ اس بحث کو مکمل کرنے کے لیے ہم اس سلسلے میں ائمہ مجتہدین اور فقہاء اسلام کے نظریات پیش کریں گے۔ علامہ نووی کے حوالے سے ہم امام شافعی کا نظریہ بیان کرچکے ہیں کہ وہ دل کو عقل کا محل قرار دیتے ہیں اب ہم باقی ائمہ اور فقہاء کے نظریات پیش کریں گے۔ تاہم اس سے پہلے ہم عقل کی تعریف بیان کریں گے۔

عقل کی تعریف میں علماء کے اقوال 

علامہ محمد فرید وجدی لکھتے ہیں : عقل انسان میں ادراک کرنے کی قوت ہے اور یہ روح کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے اور اس کا محل مخ (مغز) ہے، جیسا کہ ابصار روح کے خصائص میں سے ایک خاصہ ہے اور اس کا آلہ آنکھ ہے۔ (دائرۃ المعارف القرن العشرین ج 6، ص 522، مطبوعہ بیروت)

علامہ میر سید محمد شریف لکھتے ہیں : عقل وہ قوت ہے جس سے حقائق اشیاء کا ادراک ہوتا ہے ایک قول یہ ہے اس کا محل سر ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا محل قلب ہے۔ (کتاب التعریفات ص 65، مطبوعہ ایران)

علامہ تفتا زانی لکھتے ہیں : عقل وہ قوت ہے جس میں علوم اور اداراکات کی صلاحیت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ عقل ایک جوہر ہے جس سے غائبات کا بالواسطہ اور محسوسات کا بالمشاہدہ ادراک ہوتا ہے۔ (شرح العقائد ص 16، مطبوعہ دہلی)

علامہ زبیدی نے ابشیطی سے نقل کیا ہے کہ عقل اگر عرض ہے تو وہ نفس میں ایک ملکہ ہے جس کی وجہ سے نفس میں علوم اور ادراکات کی صلاحیت ہے، اور اگر عقل جوہر لطیف ہے جس کی وجہ سے غائبات کا بالواسطہ اور محسوسات کا بالشماہدہ ادراک ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو دماغ میں پیدا کیا ہے اور اس کا نور قلب میں ہے۔ (تاج العروس، ج 8، ص 26، مطبوعہ مصر)

علامہ زبیدی نے علامہ مجد الدین کی اس تعریف کو زکر کیا ہے : عقل وہ قوت ہے جس سے اچھی اور بری چیزوں میں تمیز حاصل ہوتی ہے اور علامہ راغب اصفہانی کی یہ تعریف ذکر کی ہے : عقل وہ قوت ہے جس سے قبول علم کی صلاحیت ہے اور لکھا ہے کہ حق یہ ہے کہ عقل قلب یا دماغ میں ایک روحانی نور ہے جس سے نفس علوم بدیہیہ اور نظریہ کا ادراک کرتا ہے۔ (تاج العروس، ج 8، ص 25، مطبوعہ مصر)

علامہ شرتونی نے لکھا ہے عقل ایک روحانی نور ہے جس سے نفس علوم بدیہیہ اور نظریہ کا ادراک کرتا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ ایک طبعی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان میں فہم خطاب کی صلاحیت ہوتی ہے۔ (اقرب الموارد، ج 2، ص 812، مطبوعہ ایران)

محل عقل کے بارے میں ائمہ مذاہب کے اقوال 

امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے عقل دماغ میں ہے۔ شمس الائمہ سرخسی حنفی لکھتے ہیں :

اگر کوئی شخص کسی کے سر پر ضرب لگائے جس سے اس کی عقل چلی جائے تو عقل کے جانے کے اعتبار سے اس پر دیت لازم آتی ہے اور اس میں سر پر ضرب لگانے کا جرمانہ بھی داخل ہے۔ (المبسوط ج 26، ص 99، مطبوعہ بیروت)

شمس الائمہ سرخسی کے بیان کا حاصل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر سر پر ضرب لگانے سے مکمل عقل زائل ہوجائے تو پوری دیت لازم آئے گی، ورنہ اس کے حساب سے لازم آئے گی اور اس مسئلہ میں یہ دلیل ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک عقل کا محل دماغ ہے۔ 

امام مالک کے نزدیک بھی عقل کا محل دماغ ہے۔ علامہ سحنون بن سعید تنوخی مالکی لکھتے ہیں :

میں نے امام عبدالرحمان بن قاسم سے سوال کیا کہ کسی شخص کے سر پر عمداً ایسی ضرب لگائی گئی جس سے اس کی ہڈی ظاہر ہوگئی اور اس کی سماعت اور عقل چلی گئی تو اس مسئلہ میں امام مالک کا کیا قول ہے ؟ امام ابن قاسم نے فرمایا اگر اس نے ایسی ضرب لگائی جس سے ہڈی ظاہر ہوگئی اور وہ دماغ تک پہنچ گئی تو موضحہ کا قصاص لیا جائے گا اور مامومہ (ضرب دماغ تک پہنچنے میں) اس کی عاقلہ دیت ادا کریں گے، اور اگر اس نے کسی کے سر پر ایسی ضرب لگائی جس سے اس کی ہڈی ظاہر ہوگئی اور اس کی سماعت اور عقل چلی گئی تو اس کے علاج کے بعد دیکھا جائے گا اگر وہ ٹھیک ہوگیا تو موضحہ میں ضارب سے قصاص لیا جائے گا پھر دیکھا جائے گا آیا اس ضرب سے مضروب کی سماعت اور عقل زائل ہوگئی ہے اگر علاج کے بعد وہ ٹھیک ہوجائے اور اس کی سماعت اور عقل زائل نہیں ہوئی ہو تو اس کے مال سے سماعت اور عقل کی دیت وصول نہیں کی جائے گی۔ (المدونۃ الکبری، ج 4، ص 487، مطبوعہ بیروت)

اس مسئلہ سے واضح ہوگیا کہ امام مالک کے نزدیک بھی عقل دماغ میں ہے۔ امام شافعی کے بارے میں ہم پہلے علامہ نووی سے نقل کرچکے ہیں کہ ان کے نزدیک عقل قلب میں ہے۔ امام رازی شافعی کی بھی یہی رائے ہے اور امام احمد بن حنبل کی رائے بھی یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ حنبلی علماء نے عقل کا مستقر قلب قرار دیا ہے۔ علامہ عبدالرحمن بن الجوزی حنبلی لکھتے ہیں : ” القلب قطعۃ من دم جامدۃ سوداء وھو مستکن فی الفواد وھو بیت النفس و مسکن العقل : قلب سیاہ جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا ہے یہ دل کی کوٹھڑی ہے نفس کا گھر ہے اور عقل کا مسکن ہے ” (زاد المسیر ج 1، ص 28، مطبوعہ بیروت)

کفار کا جانوروں سے زیادہ گم راہ ہونا 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ ہیں وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

انسان اور باقی حیوانات غذا حاصل کرنے کی قوت، نشو و نما کی قوت اور تولید کی قوت میں مشترک ہیں، نیز حواس ظاہرہ اور باطنہ میں بھی مشترک ہیں اور تخیل، تو ہم اور تذکر کے احوال میں بھی مشترک ہیں، انسان اور باقی حیوانات کے درمیان صرف قوت عقلیہ اور فکریہ کی وجہ سے امتیاز ہے جو قوت حق اور خیر کی طرف ہدایت دیت ہے تاکہ حق اور خیر کے تقاضوں پر عمل کیا جائے۔ جب کفار نے قوت عقلیہ اور فکریہ سے کام لینے سے اعراض کیا اور اس کے توسط سے حق کی معرفت حاصل کرنے اور نیک کام کرنے سے روگردانی کی تو وہ جانوروں کی مانند ہوگئے بلکہ ان سے زیادہ گمراہ، کیونکہ حیوانات کو ان فضائل کے حصول پر کوئی قدرت نہیں ہے اور انسان کو ان کے حصول کی قدرت دی گئی ہے، اور جو لوگ قدرت کے باوجود ان عظیم فضائل کے حصول روگردانی کریں ان کا حال ان سے زیادہ خسیس ہوگا جو عجز کی وجہ سے ان فضائل کو حاصل نہیں کرسکتے۔ اور اس لیے بھی کہ جانور اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار ہیں اور کفار اپنے رب کے اطاعت گزار نہیں ہیں اور اس لیے بھی کہ جب جانوروں کو کوئی راہ دکھانے والا ہو تو وہ اس کی اطاعت کرتے ہیں اور راستہ سے نہیں بھٹکتے اور کفار کو انبیاء (علیہم السلام) سیدھا راستہ دکھاتے تھے لیکن وہ ان کی مخالفت کرکے گمراہی کو اختیار کرتے تھے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 178