قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَۚ-وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ(۳۸)

تم کافروں سے فرماؤ اگر وہ باز رہے تو جو ہو گزرا وہ انہیں معاف فرمادیا جائے گا(ف۶۴) اور اگر پھر وہی کریں تو اگلوں کا دستور گزر چکا ہے(ف۶۵)

(ف64)

مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافِر جب کُفر سے باز آئے اور اسلام لائے تو اس کا پہلا کُفر اور مَعاصی مُعاف ہوجاتے ہیں ۔

(ف65)

کہ اللہ تعالٰی اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے اور اپنے انبیاء اور اولیاء کی مدد فرماتا ہے ۔

وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِۚ-فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۳۹)

اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فساد (ف۶۶) باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ ہی کا ہو جائے پھراگر وہ باز رہیں تو اللہ اُن کے کام دیکھ رہا ہے

(ف66)

یعنی شرک ۔

وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَوْلٰىكُمْؕ-نِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ(۴۰)

اور اگر وہ پھریں (ف۶۷) تو جان لو کہ اللہ تمہارا مولٰی ہے (ف۶۸)تو کیا ہی اچھا مولٰی اور کیا ہی اچھا مددگار

(ف67)

ایمان لانے سے ۔

(ف68)

تم اس کی مدد پر بھروسہ رکھو ۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۴۱)

اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لو (ف۶۹) تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول و قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا ہے (ف۷۰) اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتارا جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں(ف۷۱)اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے

(ف69)

خواہ قلیل یا کثیر ۔ غنیمت وہ مال ہے جو مسلمانوں کوکُفّار سے جنگ میں بطریقِ قَہر و غلبہ حاصل ہو ۔ مسئلہ : مالِ غنیمت پانچ حصوں پر تقسیم کیا جائے اس میں سے چار حصے غانمین کے ۔

(ف70)

مسئلہ : غنیمت کا پانچواں حصہ پھر پانچ حصوں پر تقسیم ہوگا ان میں سے ایک حصہ جو کُل مال کا پچیسواں حصہ ہو ا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے اور ایک حصہ آپ کے اہلِ قرابت کے لئے اور تین حصے یتیموں اور مسکینوں ، مسافروں کے لئے ۔

مسئلہ : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضور اور آپ کے اہلِ قرابت کے حصے بھی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کو ملیں گے اور پانچواں حصہ انہیں تین پر تقسیم ہوجائے گا ۔ یہی قول ہے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا ۔

(ف71)

اس دن سے روزِ بدر مراد ہے اور دونوں فوجوں سے مسلمانوں اور کافِروں کی فوجیں اور یہ واقعہ سترہ یا انیس رمضان کو پیش آیا ۔ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعداد تین سو دس سے کچھ زیادہ تھی اور مشرکین ہزار کے قریب تھے ۔ اللہ تعالٰی نے انہیں ہزیمت دی ان میں سے ستّرسے زیادہ مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے ۔

اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْؕ-وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِۙ-وَ لٰكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ﳔ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ(۴۲)

جب تم نالے کے اُس کنارے تھے (ف۷۲) اور کافر پَرلے کنارے اور قافلہ (ف۷۳) تم سے ترائی میں (ف۷۴) اور اگر تم آپس میں کوئی وعدہ کرتے تو ضرور وقت پر برابر نہ پہنچتے (ف۷۵) لیکن یہ اس لیے کہ اللہ پورا کرے جو کام ہونا ہے (ف۷۶) کہ جو ہلاک ہو دلیل سے ہلاک ہو (ف۷۷) اور جو جئے دلیل سے جئے (ف۷۸) اور بےشک اللہ ضرور سنتاجانتا ہے

(ف72)

جو مدینہ طیّبہ کی طرف ہے ۔

(ف73)

قریش کا جس میں ابوسفیان وغیرہ تھے ۔

(ف74)

تین میل کے فاصلہ پر ساحل کی طرف ۔

(ف75)

یعنی اگر تم اور وہ باہم جنگ کا کوئی وقت مُعیّن کرتے پھر تمہیں اپنی قلت و بے سامانی اور ان کی کثرت و سامان کا حال معلوم ہوتا تو ضرور تم ہیبت و اندیشہ سے میعاد میں اختلاف کرتے ۔

(ف76)

یعنی اسلام اور مسلمین کی نصرت اور دین کا اعزاز اور دشمنانِ دین کی ہلاکت اس لئے تمہیں اس نے بے میعاد ہی جمع کردیا ۔

(ف77)

یعنی حجُّتِ ظاہرہ قائم ہونے اور عبرت کا معائنہ کر لینے کے بعد ۔

(ف78)

محمد بن اسحٰق نے کہا کہ ہلاک سے کُفر ، حیات سے ایمان مراد ہے ۔ معنی یہ ہیں کہ جو کوئی کافِر ہو اس کو چاۂے کہ پہلے حُجّت قائم کرے اور ایسے ہی جو ایمان لائے وہ یقین کے ساتھ ایمان لائے اور حُجّت و برہان سے جان لے کہ یہ دین حق ہے اور بدر کا واقعہ آیاتِ واضحہ میں سے ہے اس کے بعد جس نے کُفر اختیار کیا وہ مکابر ہے ، اپنے نفس کو مغالَطہ دیتا ہے ۔

اِذْ یُرِیْكَهُمُ اللّٰهُ فِیْ مَنَامِكَ قَلِیْلًاؕ-وَ لَوْ اَرٰىكَهُمْ كَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۴۳)

جب کہ اے محبوب اللہ تمہیں کافروں کو تمہاری خواب میں تھوڑا دکھاتا تھا (ف۷۹) اور اے مسلمانو اگر وہ تمہیں بہت کرکے دکھاتا تو ضرور تم بُزدلی کرتے اور معاملہ میں جھگڑا ڈالتے (ف۸۰) مگر اللہ نے بچالیا (ف۸۱) بےشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے

(ف79)

یہ اللہ تعالٰی کی نعمت تھی کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کُفّار کی تعداد تھوڑی دکھائی گئی اور آپ نے اپنا یہ خواب اصحاب سے بیان کیا اس سے ان کی ہمتیں بڑھیں اور اپنے ضعف و کمزوری کا اندیشہ نہ رہا اور انہیں دشمن پر جرأت پیدا ہوئی اور قلب قوی ہوئے ۔ انبیاء کا خواب حق ہوتا ہے آپ کو کُفّار دکھائے گئے تھے اور ایسے کُفّار جو دنیا سے بے ایمان جائیں اور کُفر ہی پر ان کا خاتمہ ہو وہ تھوڑے ہی تھے کیونکہ جو لشکر مقابل آیا تھا اس میں کثیر لوگ وہ تھے جنہیں اپنی زندگی میں ایمان نصیب ہوا اور خواب میں قِلّت کی تعبیر ضعف سے ہے چنانچہ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو غالب فرما کر کُفّار کا ضعف ظاہر کردیا ۔

(ف80)

اور ثبات و فرار میں متردِّد رہتے ۔

(ف81)

تم کو بُزدلی اور تردُّد اور باہمی اختلاف سے ۔

وَ اِذْ یُرِیْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْۤ اَعْیُنِكُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُكُمْ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًاؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠(۴۴)

اور جب لڑتے وقت (ف۸۲) تمہیں کافر تھوڑے کرکے دکھائے (ف۸۳) اور تمہیں ان کی نگاہوں میں تھوڑا کیا (ف۸۴)کہ اللہ پورا کرے جو کام ہونا ہے (ف۸۵) اور اللہ کی طرف سب کاموں کی رجوع ہے

(ف82)

اے مسلمانو ۔

(ف83)

حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ ہماری نگاہوں میں اتنے کم جچے کہ میں نے اپنے برابر والے ایک شخص سے کہا کہ تمہارے گمان میں کافِر ستّر ہوں گے اس نے کہا کہ میرے خیال میں سو ہیں اور تھے ہزار ۔

(ف84)

یہاں تک کہ ابو جہل نے کہا کہ انہیں رسیّوں میں باندھ لو گویا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت کو اتنا قلیل دیکھ رہا تھا مقابلہ کرنے اور جنگ آزما ہونے کے لائق بھی خیال نہیں کرتا تھا اور مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد تھوڑی دکھانے میں یہ حکمت تھی کہ مشرکین مقابلہ پر جم جائیں ، بھاگ نہ پڑیں اور یہ بات ابتداء میں تھی ، مقابلہ ہونے کے بعد انہیں مسلمان بہت زیادہ نظر آنے لگے ۔

(ف85)

یعنی اسلام کا غلبہ اور مسلمانوں کی نصرت اور شرک کا ابطال اور مشرکین کی ذلّت اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزے کا اظہار کہ جو فرمایا تھا وہ ہوا کہ جماعتِ قلیلہ لشکرِ گراں پر فتح یاب ہوئی ۔