وَاِذَا قُرِئَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَهٗ وَاَنۡصِتُوۡا لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 204
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذَا قُرِئَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَهٗ وَاَنۡصِتُوۡا لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے “
اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی عظمت بیان فرمائی تھی کہ یہ قرآن تمہارے رب کی طرف سے بصیرت افروز احکام کا مجموعہ ہے اور ایمانے والے والوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے اور اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ اس کی عظمت کا یہ تقاضا ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو اس کو غور سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔
قرآن مجید پڑھنے کے آداب
علامہ طاہر بن عبدالرشید بخاری حنفی متوفی 542 ھ لکھتے ہیں :
فتاویٰ میں مذکور ہے کہ جو شخص قرآن مجید پڑھنے کا ارادہ کرے اس کو چاہیے کہ وہ بہترین کپڑے پہنے، عمامہ باندھے اور قبلہ کی طرف منہ کرے، اسی طرح عالم پر علم کی تعظیم واجب ہے۔ گرمیوں میں صبح کے وقت قرآن مجید کو ختم کرے اور سردیوں میں اول شب میں۔ اگر وہ قرآن مجید پڑھنے یا نماز پڑھنے کا ارادہ کرے اور اس کو ریاکاری کا خدشہ ہو تو اس وجہ سے قران کریم پڑھنے اور نماز پڑھنے کو ترک نہ کرے، اسی طرح باقی فرائض کو بھی خوف ریا کی وجہ سے ترک نہ کرے۔ لیٹ کر قرآن مجید پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور قراءت کے وقت اپنی ٹانگیں ملا لے۔ کسی شخص نے قرآن مجید کا کچھ حصہ یاد کیا ہو پھر اس کو باقی قرآن مجید یاد کرنے کی فرصت مل جائے تو نفلی نماز پڑھنے سے قرآن مجید کو یاد کرنا افضل ہے اور فقہ کا علم حاصل کرنا باقی قرآن مجید کے حفظ کرنے سے افضل ہے، اور بغیر علم کے زہد کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ قرآن مجید خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 1468، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1342، خلاصۃ الفتاوی ج 1، ص 102 ۔ 103، مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
علامہ ابراہیم بن محمد حلبی متوفی 956 ھ لکھتے ہیں :
قرآن مجید کی جتنی مقدار سے نماز جائز ہوتی ہے قرآن مجید کی اتنی مقدار کو حفظ کرنا ہر مکلف پر فرض عین ہے۔ اور سورة فاتحہ کو اور کسی ایک سورت کو حفظ کرنا واجب ہے اور پورے قرآن کو حفظ کرنا فرض کفایہ ہے۔ اور سنت عین پڑھنا نفل پڑھنے سے افضل ہے اور قرآن مجید کو مصحف سے پڑھنا افضل ہے کیونکہ اس میں قرآن مجید کے مصحف کو دیکھنے اور قرآن مجید کو پڑھنا دونوں عبادتوں کو جمع کرنا ہے، اور باوضو ہو کر قبلہ کی طرف منہ کرکے اچھے کپڑے پہن کر تعطیم اور اکرام کے ساتھ قرآن مجید کو پڑھنا مستحب ہے۔ قراءت سے پہلے اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھے۔ اعوذ باللہ ایک بار پڑھنا مستحب ہے بشرطیکہ قرات کے دوران کوئی دنیاوی کام نہ کرے حتی کہ اگر اس نے سلام کا جواب دیا یا سبحان اللہ یا لا الہ الا اللہ کہا تو اعوذ باللہ کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ فتاویٰ الحجہ میں مذکور ہے، اور النوازل میں مذکور ہے کہ محد بن مقاتل سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے سورة توبہ کو بغیر بس اللہ پڑھے پڑھنا شروع کیا تو انہوں نے کہا اس نے خطا کی۔ علامہ سمرقندی نے کہا سورة توبہ کو اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر پڑھنا شروع کرے اور یہ قول قراء کی تصریح کے خالف ہے انہوں نے کہا سورة توبہ سے پہلے بسم اللہ کو اس لیے نہیں لکھا کہ بسم اللہ امت ہے اور سورة توبہ رفع امان کے لیے ہے۔ یہ حضرت علیل اور حضرت ابن عباس سے منقول ہے اور حضرت عثمان نے فرایا کہ جب بھی کوئی سورت یا آیت نازل ہوتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتا دیتے تھے کہ اس کو فلاں جگہ رکھو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے اور آپ نے سورة توبہ کا مقام نہیں بتایا، اور میں نے دیکھا کہ اس کا قصہ الانفال کے قصہ کے مشابہ ہے کیونکہ الانفال میں عہود کا ذکر ہے اور اس میں رفع العہود کا ذکر ہے اس لیے میں نے ان دونوں کو ملا دیا اور ایک قول یہ ہے کہ اس میں صحابہ کا اختلاف تھا بعض نے کہا الانفال اور براءۃ (توبہ) ایک سورت ہیں جو قتال کے لیے نازل ہوئیں اور بعض نے کہا یہ الگ الگ سورتیں ہیں، اس لیے ان کے درمیان فاصلہ کو رکھا گیا اور بسم اللہ کو نہیں لکھا گیا۔ اولیٰ یہ ہے کہ چالیس دن میں ایک بار قرآن مجید ختم کیا جائے، دوسرا قول یہ ہے کہ سال میں دو بار قرآن مجید ختم کیا جائے، امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ جس نے سال میں دو بار قرآن مجید کو ختم کیا اس نے قرآن کریم کا حق ادا کردیا۔ ایک قول یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک بار ختم کرے البتہ تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم نہ کرے۔ کیونکہ سنن ابوداود ترمذی، اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے تین دن سے کم میں قرآن مجید کو ختم کیا اس نے قرآن مجید کو نہیں سمجھا۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 1394 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2949)
بستر پر لیٹ کر قرآن مجید پڑھنا جائز ہے۔ سنن ترمذی میں شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص بستر پر لیٹ کر قرآن مجید کی کوئی سورت پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے ایک فرشتہ مقرر کردیتا ہے جو اس کی ہر موذی چیز سے حفاظت کرتا ہے البتہ ادباً ٹانگیں ملائے، غسل خانہ میں اور مواضع نجاست میں قرآن مجید پڑھنا مکرو ہے۔ امام بیہقی نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ دفن کے بعد قبر پر سورة بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیتیں پڑھنا مستحب ہے۔ (سنن کبری ج 4، ص 56 ۔ 57، مطبوعہ بیروت، غنیۃ المستحملی، ص 496 ۔ 497، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور، 1412 ھ)
قران مجید سننے کا حکم آیا نماز کے ساتھ مخصوص ہے یا خارج از نماز کو بھی شامل ہے
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے بعض، بعض کو نماز میں سلام کیا کرتے تھے کہ سلام علی فلاں، سلام علی فلاں۔ حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی واذا قرء القران فاستعموا لہ وانصتوا۔
بشیر بن جابر (رض) روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے نماز پڑھائی۔ انہوں نے لوگوں کو امام کے ساتھ نماز میں قرآن پڑھتے ہوئے سنا، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا ابھی تک تمہاری سمجھ داری کا وقت نہیں آیا ؟ کیا ابھی تک تمہیں عقل نہیں آئی ؟ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو، جس طرح تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے۔
یہ حدیث فقہاء احناف کی دلیل ہے کہ نماز میں امام کے پیچھے قراءت نہیں کرنی چاہیے۔ اس حدیث کو امام ابن جریر کے علاوہ امام ابن ابی حاتم متوفی 327 ھ نے بھی روایت کیا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج 5، رقم الحدیث : 830)
انکے علاوہ حافظ ابن کثیر اور حافظ سیوطی نے بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج 3، ص 271، الدر المنثور ج 3، ص 635)
طلحہ بن عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک واعظ وعظ کر رہا تھا اور عبید بن عمیر اور عطا بن ابی رباح باتیں کر رہے تھے۔ میں نے کہا آپ دونوں وعظ نہیں سن رہے اور وعید کے مستحق ہو رہے ہیں، ان دونوں نے میری طرف دیکھا اور پھر اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے۔ میں نے پھر اپنی نصیحت دہرائی، انہوں نے میری طرف دیکھا اور پھر باتوں میں مشغول ہوگئے، جب میں نے تیری بار کہا تو انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا یہ حکم صرف نماز کے متعلق ہے۔
مجاہد، سعید بن جبیر اور ضحاک سے بھی روایت ہے کہ قرآن مجید کو غور سے سننے اور خاموش رہنے کا حکم اس وقت ہے جب قرآن مجید کو نماز میں پڑھا جائے۔
حضرت ابن عباس، ابراہیم نخعی، عامر، قتادہ، ابن زید اور زہری سے بھی یہی مروی ہے کہ یہ حکم نماز کے ساتھ مخصوص ہے۔ صحابہ نے کہا نماز کے علاوہ تلاوت کے دوران قراءت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا نماز کے علاوہ قرآن مجید کی تلاوت نفل ہے خواہ وعظ میں ہو، اس تلاوت کے دوران خاموش رہنا فرض نہیں ہے۔
مجاہد اور عطا بن ابی رباح سے یہ روایت بھی ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران سننے اور خاموش رہنے کا حکم نماز اور خطبہ میں ہے۔ مجاہد سے روایت ہے کہ یہ حکم جمعہ کے خطبہ کے متعلق ہے۔ نیز مجاہد سے روایت ہے کہ یہ حکم نماز اور خطبہ کے متعلق ہے۔ عطا بن ابی رباح سے روایت ہے کہ دو وقتوں میں خاموش رہنا واجب ہے جب امام نماز میں قرآن پڑھ رہا ہو یا وہ خطبہ دے رہا ہو۔
حسن بصری، سعید بن جبیر اور عطا بن ابی رباح سے بھی یہ روایت ہے کہ یہ حکم نماز اور خطبہ دونوں کے متعلق ہے۔ (جامع البیان جز 9، ص 216 ۔ 220، ملخصاً مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
قرآن مجید کی اس ظاہر آیت کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن مجید کو خواہ نماز میں پڑھا جائے یا خطبہ اور وعظ میں یا اس کی عام تلاوت کی جائے ہر صورت میں قرآن مجید جب پڑھا جائے تو اس کا سننا فرض ہے اور تلاوت اور قراءت کے وقت خاموش رہنا بھی فرض ہے۔
علامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد نسفی حنفی متوفی 710 ھ لکھتے ہیں :
ظاہر آیت کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن مجید کی قراءت کے وقت اس کو سننا اور خاموش رہنا لازم ہے خواہ یہ قراءت نماز میں ہو یا غیر نماز میں۔
آیا قرآن مجید سننا فرض عین ہے یا فرض کفایہ
علامہ طاہر بن عبدالرشید بخاری متوفی 542 ھ لکھتے ہیں :
ایک شخص فقہ لکھ رہا ہو اور اس کے پہلو میں دوسرا شخص قرآن مجید پڑھا رہا ہو، اور فقہ میں مشغول شخص کے لیے قرآن مجید سننا ممکن نہ ہو تو نہ سننے والے کا گناہ قرآن مجید پڑھنے والے کو ہوگا، اسی اصل پر اگر کوئی شخص رات کو چھپ بلند آواز سے قرآن مجید پڑھے اور لوگ سوئے ہوں تو وہ شخص گنہ گار ہوگا۔ (خلاصۃ الفتاویٰ ج 1، ص 103، مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :
نماز اور خارج نماز میں قرآن مجید کو سننا مطلقاً واجب ہے، کیونکہ یہ آیت ہرچند کہ نماز کے متعلق وارد ہے، لیکن اعتبار خصوصیت سبب کا نہیں عموم الفاظ کا ہوتا ہے، اور یہ حکم اس وقت ہے جب کوئی عذر نہ ہو۔ قتیبہ میں مذکورہ ہے کہ گھر میں بچہ قرآن مجید پڑھ رہا ہو اور گھر والے کام کاج میں مشغول ہوں تو وہ نہ سننے میں معذور ہوں گے بشرطیکہ انہوں نے اس کے پڑھنے سے پہلے کام شروع کیا ہو، ورنہ وہ معذور نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد علامہ شامی نے خلاصۃ الفتاویٰ کی عبارت نقل کی ہے کہ اگر فقہ میں مشغول شخص کے پاس کوئی قرآن پڑھے یا رات کو چھت پر پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں تو ان کے نہ سننے کا گناہ پڑھنے والے پر ہوگا۔ کیونکہ ان کے نہ سننے کا سبب پڑھنے والا ہے۔ یا وہ سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرکے اذیت پہنچا رہا ہے، اس میں غور کرنا چاہیے، اور شرح المنیہ میں یہ مذکور ہے کہ اصل میں قرآن کریم کا سننا فرض کفایہ ہے۔ کو ین کہ قرآن مجید کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے اور اس کی تلاوت کو ضائع نہ کیا جائے اور بعض کے خاموش ہوجانے سے یہ حق ادا ہوجاتا ہے، جیسے سلام کا جواب دینا واجب ہے تاکہ مسلمان کے حق کی رعایت ہو اور بعض کے جواب دینے سے یہ حق ادا ہوجاتا ہے اور باقی مسلمانوں سے یہ وجوب ساقط ہوجاتا ہے۔ البتہ قرآن کریم پڑھنے والے پر اس کا احترام کرنا واجب ہے بایں طور کہ وہ بازاروں میں قرآن مجید نہ پڑھے اور نہ ان مقامات پر قرآن کریم پڑھے جہاں لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں اور اگر اس نے وہاں پڑھا تو قرآن مجید کی حرمت کو ضائع کرنے والا وہی شخص ہوگا، سو وہی گنہ گار ہوگا نہ کہ مشغول لوگ، تاکہ لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے میں حرج نہ ہو۔ (غنیۃ المستحملی ص 97، مطبوعہ لاہور، 1412 ھ) قاضی القضاۃ یحییٰ منقاری زادہ نے اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے اور اس میں یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کا سنن فرض عین ہے۔ (رد المحتار ج 1، ص 366 ۔ 367، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1407 ھ)
علامہ سید احمد طحطاوی حنفی متوفی 1231 ھ نے غنیۃ المستحملی کے حوالے سے یہی لکھا ہے کہ قرآن مجید کا سننا فرض کفایہ ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، ج 1، ص 237، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت، 1395 ھ)
علامہ ابراہیم حلبی صاحب غنیۃ المستحملی متوفی 956 ھ نے قرآن مجید سننے کے حکم کو فرض کفایہ قرار دیا ہے اور علامہ شامی اور علامہ طحطاوی نے ان کی اتباع کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں مسلمانوں کے لیے آسانی ہے، لیکن ان کی دلیل دو وجہ سے صحیح نہیں ہے اولاً اس لیے کہ انہوں نے قرآن مجید سننے کے حکم کو سلام کو جواب دینے کے حکم پر قیاس کیا ہے حالانکہ سلا کا جواب دینے کا حکم خبر واحد سے ثابت ہے اور اس کا وجوب ظنی ہے اور قرآن مجید سننے کا حکم خود قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے، سو یہ اعلیٰ کو ادنیٰ پر قیاس کرنا ہے، اور ثانیاً اس لیے کہ سلام کا جواب دینے میں مسلمان کے حق کی رعایت ہے اور قرآن مجید سننے میں اور تلاوت کے وقت خاموش رہنے میں اللہ کے کلام کے حق کی رعایت ہے اور اللہ کے کلام کے حق کی رعایت بندہ کے حق کی رعایت سے کئی درجہ افضل ہے۔ نیز اس سے یہ لازم آتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک محفل میں تلاوت کی جا رہی ہو اور ایک آدمی خاموش ہو کر سنے اور باقی شرکاء محفل تلاوت کی طرف توجہ نہ کریں اور آپس میں باتیں کرتے رہیں تو یہ امر جائز ہو حالانکہ اس میں قرآن مجید کی صریح بےحرمتی ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک قاضی منقاری زادہ کا یہ قول صحیح ہے کہ قرآن مجید کا سننا فرض عین ہے۔
قرآن مجید سننے کے حکم میں مذاہب فقہاء
اس سلسلہ میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ فقہاء احناف میں سے علامہ منقاری زادہ کے نزدیک قرآن مجید سننا فرض عین ہے اور یہی صحیح ہے اور علامہ حلبی کے نزدیک فرض کفایہ ہے۔
امام مالک کے نزدیک قرآن مجید نماز میں پڑھا جائے یا خارج از نماز، اس کا سننا واجب ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز 7، ص 316، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)
امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ واذاقرء فانصتوا (صحیح مسلم رقم الحدیث : 404) جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو
حافظ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی المالکی المتوفی 656 ھ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : یہ حدیث امام مالک کی اور ان فقہاء کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ جب امام بلند آواز سے قراءت کرے تو مقتدی قراءت نہ کرے، اور امام دار قطنی کا اس حدیث پر یہ اعتراض صحیح نہیں ہے کہ اس حدیث کی صحت پر حفاظ کا اجماع نہیں ہے۔ کیونکہ امام مسلم نے اس حدیث کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔ (المفہم ج 2، ص 39، مطبوعہ دار ابن کثیر، بیروت، 1417 ھ)
امام احمد بن حنبل کے نزدیک بھی قرآن مجید کا سننا فرض ہے کیونکہ علامہ موفق الدین عبداللہ بن مقدامہ حنبلی متفی 620 ھ لکھتے ہیں :
مقتدی پر سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے واذا قرء القران فاستعموا لہ وانصتوا (الاعراف : 204) اور حضرت ابوہریرہ نے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نماز سے فارغ ہوئے، جس میں آپ نے بلند آواز سے قراءت کی تھی۔ پھر فرمایا کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قراءت کی تھی ؟ ایک شخص نے کہا ہاں ! یارسول اللہ ! میں نے قراءت کی تھی۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تب ہی میں سوچ رہا تھا کہ مجھے قرآن پڑھنے میں دشواری کیوں ہو رہی ہے۔ پھر لوگ ان نمازوں میں قراءت کرنے سے رک گئے جن نمازوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلند آواز سے قراءت کرتے تھے۔ جب انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سنا۔ (الموطا رقم الحدیث : 194 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 918 ۔ سنن ابو داود، رقم الحدیث : 312 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 348 ۔ 349 ۔ مسند احمد ج 2، ص 240 ۔ 487، ج 5، ص 345 ۔ الکافی ج 1، ص 246، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1414 ھ)
فقہاء شافعیہ کے نزدیک جب قرآن کریم پڑھا جائے تو اس کا سننا مستحب ہے۔ قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی شافعی متوفی 685 ھ لکھتے ہیں : اس آیت کے ظاہر الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی قرآن پڑھا جائے تو اس کا سننا مطلقاً واجب ہو اور عامۃ العلماء کے نزدیک خارج از نماز قرآن مجید کا سننا مستحب ہے اور جو علماء امام کے پیچھے مقتدی کی قراءت کو واجب نہیں کہتے وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں اور یہ استدلال ضعیف ہے۔ (انوار التنزیل و اسرار التاویل مع حاشیہ الکازرونی، ج 3، ص 86)
ڈاکٹر وھبہ زحیلی مصر لکھتے ہیں : جن محفلوں میں قرآن مجید کی قرآت کی جائے ان میں قرآن کریم سننے اور خاموش رہنے کو ترک کرنا بہت سخت مکروہ ہے مومن پر لازم ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت اس کے سننے پر حریص ہو، جیسا کہ وہ مجلس میں قرآن مجید کی تلاوت پر حریص ہوتا ہے۔ (التفسیر المنیر ج 9، ص 229 ۔ 230، مطبوعہ دار الفکر، بیروت 1411 ھ)
صحیح یہ ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو اس کا سنن اور خاموش رہنا ہرحال میں اور ہر کیفیت میں واجب ہے خواہ نماز ہو یا غیر نماز ہو۔ (التفسیر المنیر ج 9، ص 232، مطبوعہ بیروت)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے اللہ کی کتاب کی کسی ایک آیت کو بھی غور سے سنا ہے اس کے لیے دگنی چوگنی نیکی لکھی جائے گی اور جس نے اس آیت کی تلاوت کی وہ قیامت کے دن اس کے لیے نور ہوگی۔ (اس حدیث کی سند ضعیف ہے) ۔ (مسند احمد ج 2، ص 341 ۔ مسند احمد ج 8، رقم الحدیث : 8475، طبع قاہرہ۔ الجامع الصغیر رقم الحدیث : 8425)
امام کے پیچھے قرآن سننے میں مذاہب اربعہ
امام ابو اسحاق ابراہیم بن علی الفیروز آبادی الشیرازی الشافعی المتوفی 455 ھ لکھتے ہیں :
آیا مقتدی پر بھی سورة فاتحہ کی قراءت واجب ہے اس میں غور کیا جائے گا اگر وہ ایسی نماز ہے جس میں آہستہ قراءت کی جاتی ہے تو مقتدی پر سورة فاتحہ کی قراءت واجب ہے اور اگر وہ ایسی نماز ہے جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے تو اس میں دو قول ہیں، کتاب الام اور البویطی میں مذکور ہے کہ اس میں مقتدی پر سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے، کیونکہ حضرت عبادہ بن الصامت (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو صبح کی نماز پڑھائی آپ پر قراءت دشوار ہوگئی، آپ نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں دیکھ رہا تھا کہ تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کر رہے تھے ! ہم نے کہا اللہ کی قسم ہاں ہم ایسا کر رہے تھے، آپ نے فرمایا سورة فاتحہ کے سوا ایسا نہ کیا کرو، کیونکہ جو شخص سورة فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی، اور امام شافعی کا قدیم قول یہ ہے کہ جہری نماز میں امام کے پیچھے سورة فاتحہ نہ پڑھے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضٰ اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نماز سے فارغ ہوئے جس میں آپ نے بلند آواز سے قراءت کی تھی آپ نے پوچھا : کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قراءت کی تھی۔ ایک شخص نے کہا ہاں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا (تبھی) میں یہ سوچ رہا تھا کہ میری تلاوت میں دشواری کیوں ہورہی ہے، جب مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا تو جن نمازوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلند آواز سے قراءت کرتے تھے، ان نمازوں میں انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قراءت کرنا ترک کردیا۔ (المہذب ج 1، ص 72، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
فقہاء حنبلیہ کے اس مسئلہ میں مختلف اور متضاد اقوال ہیں
علامہ شمس الدین محمد بن مفلح المقدسی الحنبلی المتوفی 763 ھ لکھتے ہیں :
اثرم نے نقل کیا ہے کہ مقتدی کے لیے سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، ابن الزاغوانی نے شرح الخرقی میں اسی طرح ذکر کیا ہے، اور ہمارے اکثر اصحاب اس کے وجوب کو نہیں پہچانتے، اس کو نوادر میں نقل کیا ہے اور یہی قول زیادہ ظاہر ہے۔ ابن المنذر نے ذکر کیا ہے کہ ایک قول یہ ہے کہ جس نماز میں آہستہ قراءت ہوتی ہے اس میں مقتدی سورة فاتحہ پڑھے۔ ابو داود نے نقل کیا ہے کہ ہر رکعت میں جب امام بلند آواز سے قراءت کرے تو مقتدی اس کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھے اور انہوں نے کہا کہ پہلی رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا کفایت کرے گا اور سری نماز میں سورة فاتحہ پڑھنا مستحب ہے اور سکتا تا میں پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔ (کتاب الفروع ج 1، ص 427، مطبوعہ عالم الکتب بیروت، 1405 ھ)
علامہ ابن قدامہ حنبلی متوفی 620 ھ نے لکھا ہے کہ مقتدی پر سورة فاتحہ پڑھنا واجب نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے واذا قرء القران فاستعموا وانصتوا۔ (الاعراف :204) ۔ (الکافی ج 1، ص 246، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1414 ھ)
علاہ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن علی الخرشی المالکی المتوفی 1101 ھ لکھتے ہیں : فرض نماز اور نفل نماز میں امام پر سورة فاتحہ پڑھنا واجب ہے اور مقتدی پر واجب نہیں ہے کیونکہ حدیث میں ہے امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے خواہ نماز سری ہو یا جہری۔ البتہ سری نماز میں امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھنا مستحب ہے۔ (حاشیۃ الخرشی علی مختصر سیدی خلیل ج 1، ص 269، مطبوعہ دار صادر بیروت)
فقہاء احناف کے نزدیک نماز سری ہو یا جہری، امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھنا جائز نہیں ہے
علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی الحنفی المتوفی 587 ھ لکھتے ہیں :
ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : واذا قرء القران فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (الاعراف :204)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو غور سے سننے اور خاموش رہنے کا حکم دیا ہے اور جن نمازوں میں آہستہ قراءت کی جاتی ہے ان میں اگرچہ سننا ممکن نہیں ہے لیکن خاموش رہنا ممکن ہے۔ پس اس سے ظاہر نص کے اعتبار سے ان نمازوں میں خاموش رہنا واجب ہے۔ حضرت ابی بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں نے امام کے پیچھے قراءت کرنے کو ترک کردیا اور ان کے امام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ پس ظاہر ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امر سے قراءت کو ترک کیا تھا اور حدیث مشہور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے امام کو اس لیے امام بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے سو تم اس سے اختلاف نہ کرو جب وہ تکبیر پڑھے تو تم تکبیر پڑھو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو۔ اس حدیث میں امام کی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : 404)
ہمارے نزدیک بغیر قراءت کے کوئی نماز صحیح نہیں ہوتی اور مقتدی کی نماز بغیر قراءت کے نہیں ہے بلکہ یہ نماز قراءت کے ساتھ ہے اور وہ امام کی قراءت ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جس شخص کا امام ہو تو امام کی قراءت اس شخص کی قراءت ہے۔
(یہ حدیث حضرت جابر، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت انس اور حضرت علی ابن ابی طالب (رض) سے مروی ہے۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 850، شرح معانی الآثار ج 1، ص 128، سنن دار قطنی رقم الحدیث : 1250، حلیۃ الاولیاء ج 7، ص 389، رقم الحدیث : 10957، طبع جدید، زوائد البوصیری ج 2، ص 434، رقم الحدیث : 1440 ۔ المعجم الاوسط ج 8، رقم الحدیث : 7575 ۔ مجمع الزوائد ج 2، ص 111، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 2797، مسند احمد ج 3، ص 339، السنن الکبری للبیہقی ج 2، ص 160 ۔ 161 ۔ کامل ابن عدی ج 6، ص 2107 ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 1، ص 377 ۔ کتاب الآثار للامام محمد ص 17 ۔ کتاب الآثار لابی یوس ص 24، رقم الحدیث : 113 ۔ بدائع الصنائع ج 1، ص 524، دار الکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ)
اس حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے لیکن یہ حدیث متعدد اسانید سے مروی ہے اس لیے تعدد اسانید کی وجہ سے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے اور اسی (80) کبار صحابہ سے امام کے پیچھے قراءت کی ممانعت منقول ہے جن میں حضرت علی مرتضی، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر بھی ہیں اور کئی صحابہ سے یہ منقول ہے کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، جبکہ صحیح یہ ہے کہ امام کے پیچھے قراءت کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کے متعلق احادیث
نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے جب یہ سوال کیا جاتا کہ کیا کوئی شخص امام کے پیچھے قراءت کرے تو وہ فرماتے جب تم میں سے کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قراءت اس کے لیے کافی ہے۔ اور جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو قراءت کرے۔ نافع نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر امام کے پیچھے قراءت نہیں کرتے تھے۔ (یہ صحیح حدیث ہے) ۔ (الموطا رقم الحدیث : 193، سنن دار قطنی رقم الحدیث : 1488 ۔ سنن کبری ج 2، ص 161، موطا امام محمد ص 94 ۔ شرح معانی الآثار ص 129)
امام بو جعفر احمد بن محمد طحاوی متوفی 321 ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا قراءت کے لیے خاموش رہو کیونکہ نماز میں صرف ایک شغل ہے اور تمہیں امام کی قراءت کافی ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا جو شخص امام کے پیچھے قراءت کرتا ہے کاش اس کے منہ میں مٹی بھر دی جاتی۔
عبیداللہ بن مقسم نے حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت جابر بن عبداللہ سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ کسی نماز میں بھی امام کے پیچھے قراءت نہ کرو۔
ابوحمزہ نے حضرت ابن عباس سے سوال کیا کہ کیا وہ امام کے پیچھے قراءت کریں، حضرت ابن عباس نے فرمایا نہیں۔ (شرح معانی الآثار ص 129، مطبوعہ مجتبائی پاکستان، لاہور )
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں : حضرت ابن عمر، حضرت جابر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن مسعود سے امام کے پیچھے قراءت کی ممانعت ثابت ہے اور حضرت ابو سعید، حضرت عمر اور حضرت ابن عباس سے بھی روایات وارد ہیں۔ (الدرایہ مع الہدایہ الاولین ص 121، مطبوعہ مکتبہ شرکت علمیہ، ملتان)
جریر از سلیمان از قتادہ از حضرت عبداللہ بن مسعود روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو۔ (امام مسلم نے کہا یہ حدیث صحیح ہے) ۔ (صحیح مسلم صلاۃ :63 (404) 880 ۔ مسند احمد ج 4، ص 396 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 972 ۔ 973)
ان حادیث کے علاوہ ہم متعدد حوالہ جات کے ساتھ یہ بیان کرچکے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کا امام ہو تو امام کی قراءت ہی اس کی قراءت ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 204