أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِذۡ تَسۡتَغِيۡثُوۡنَ رَبَّكُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَـكُمۡ اَنِّىۡ مُمِدُّكُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰۤئِكَةِ مُرۡدِفِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور (یاد کرو) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول فرما لی کہ میں ایک ہزار لگاتار آنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد فرمانے والا ہوں

تفسیر:

9 ۔ 10:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور (یاد کرو) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول فرما لی کہ میں ایک ہزار لگاتار آنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد فرمانے والا ہوں۔ اور اللہ نے اس کو تمہارے لیے صرف خوشخبری بنایا تاکہ اس کی وجہ سے تمہارے دل مطمئن ہوں اور نصرت صرف اللہ کی جانب سے ہوتی ہے بیشک اللہ بہت غالب بڑی حکمت والا ہے “

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ وہ حق کو ثابت کرے گا اور ناحق کو باطل فرمائے گا اور اس آیت میں یہ فرمایا کہ جو لوگ دین حق پر قائم ہیں جب وہ اللہ تعالیٰ سے کسی مصیبت اور امتحان کے موقع پر فریاد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے۔

غزوہ بدر کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گڑگڑا کر دعا کرنا 

حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کی تعداد کی طرف دیکھا اور اپنے اصحاب کی طرف دیکھا تو وہ تین سو اور کچھ تھے، پھر آپ نے قبلہ کی طرف منہ کرکے دعا کی اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما۔ اے اللہ ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح دعا فرما رہے تھے حتی کہ آپ کی چادر کندھے سے ڈھلک گئی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے آپ کی چادر پکڑ کر آپ کے کندھے پر رکھی اور آپ سے لپٹ گئے۔ اور کہا اے اللہ کے نبی ! آپ پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں آپ نے اللہ عزوجل سے بہت فریاد کرلی ہے عنقریب آپ کا رب آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا فرمائے گا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : اور یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول فرما لی کہ میں ہزار لگاتار آنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد فرمانے والا ہوں۔ (صحیح مسلم الجہاد 58 (1763) 4507 ۔ سنن الترمذی، رقم الحدیث : 30992 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 2690 ۔ صحیح ابن حبان، رقم الحدیث : 4793 ۔ مسند احمد ج 1، ص 208، مسند البزار رقم الحدیث : 196 ۔ سنن کبری للبیہقی، ج 6، ص 321، دلائل النبوۃ للبیہقی، ج 3، ص 51 ۔ 53 ۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ج 10، ص 350، ج 14، ص 365 ۔ 366 ۔ جامع البیان رقم الحدیث : 12224، جز 9، ص 251)

احادیث میں یہی مذکور ہے کہ اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرما رہے تھے، لیکن قرآن مجید میں جمع کا صیغہ ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ صحابہ کرام دعا کر رہے تھے اور بظاہر یہی اقرب ہے کیونکہ صحابہ کرام کو دشمن کی کثرت اور اسلحہ کی فراوانی سے بہت خوف تھا۔ تاہم ان میں یوں تطبیق دی جاسکت ہے کہ بنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرما رہے تھے اور صحابہ اس پر آمین کہہ رہے تھے۔ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اس نے تمہاری دعا قبول فرما لی کہ میں ایک ہزار لگاتار آنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد فرمانے والا ہوں۔ اور اللہ نے اس کو صرف تمہارے لیے خوش خبری بنایا تھا تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوں اور نصرت صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتی ہے۔ جنگ بدر میں فرشتوں نے قتال بھی کیا تھا یا نہیں۔ اس میں متقدمین اور متاخرین کا اختلاف ہے، ہم اس سلسلہ میں فرشتوں کے قتال کے متعلق پہلے احادیث اور آثار بیان کریں گے ھر اس مسلہ میں علماء اسلام کے نظریات بیان کریں گے اور آخر میں اپنا موقف پیش کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق۔ 

جنگ بدر میں قتال ملائکہ کے متعلق احادیث اور آثار 

قرآن مجدی کی مذکور الصدر آیات یہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگ بدر میں فرشتوں کا نزول مسلمانوں کو ثابت قدم رکھنے کے لیے ہوا تھا اور ان کو فتح اور نصرت کی بشارت دینے کے لیے، قرآن مجید میں یہ مذکور نہیں ہے کہ جنگ بدر میں فرشتوں نے قتال بھی کیا تھا، البتہ بعض احادیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتوں نے جنگ بدر میں قتال بھی کیا تھا، ہم پہلے وہ احادیث پیش کریں گے، پھر اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256 ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر کے دن فرمایا یہ جبرئیل ہیں جنہوں نے گھوڑے کے سر کو پکڑا ہوا ہے اور ان پر جنگی ہتھیار ہیں۔ (صحیح بخاری ج 3، ص 570، مطبوعہ نور محمد اصح المطبابع، کراچی، 1381 ھ)

امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی 261 ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن ایک مسلمان ایک مشرک کے یچھے دوڑ رہا تھا، جو اس سے آگے تھا، اتنے میں اس نے اپنے اوپر سے ایک کوڑے کی آواز سنی اور ایک گھوڑ سوار کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا ” اے حیزوم آگے بڑھ ” (حیزوم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام تھا) پھر اچانک اس نے دیکھا کہ وہ مشرک اس کے سامنے چت گرپڑا۔ اس مسلمان نے اس مشرک کی طرف دیکھا تو اس کی ناک پر چوٹ تھی اور اس کا چہرہ پھٹ گیا تھا، جیسے کوڑا لگا ہو، اس کا پورا جسم نیلا پڑگیا تھا، اس انصاری نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا تم نے سچ کہا یہ تیسرے آسمان سے مدد آئی تھی۔ (صحیح مسلم ج 2، ص 93، مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت، کراچی 1375 ھ)

امام محمد بن عمر بن واقد اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں :

معاذ بن رفاعہ بن رافع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ فرشتوں کیع لامت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے عماموں کو اپنے کندھوں کے درمیان لٹکایا ہوا تھا، ان کے عماموں کا رنگ سبز، زرد اور سرخ تھا، اور ان کے گھوڑوں کی پیشانیوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ 

ابو رہم غفاری اپنے ابن عم سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرا عم زاد بدر کے کنوئیں پر کھڑے ہوئے تھے، جب ہم نے دیکھا کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لوگوں کی تعداد کم ہے اور قریش کی تعداد زیادہ ہے تو ہم نے کہا جب دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوگا تو ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب کے لشکر پر حملہ کریں گے، پھر ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب کی بائیں جانب چلے گئے، اور ہم کہہ رہے تھے کہ یہ تو قریش کے لشکر کا چوتھائی ہیں، ج وقت ہم مسلمانوں کے لشکر کی بائیں جانب جا رہے تھے تو ایک بادل نے آ کر ہم کو ڈھانپ لیا، ہم نے اس بادل کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو ہمیں مردوں اور ہتھیاروں کی آوازیں سنائی دیں، اور ہم نے سنا ایک شخص اپنے گھوڑے سے کہہ رہا تھا ” حیزوم آگے بڑھو ” اور ہم نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے ٹھہرو، پیچھے سے آؤ، پھر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں جانب اترے، پھر ان کی طرح ایک اور جماعت آئی اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھی، پھر جب ہم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کی طرف دیکھا تو وہ قریش سے دگنے نظر آئے، ، میرا عم زاد فوت ہوگیا، اور میں نے اسلام قبول کرلیا۔

سائب بن ابی حبیش اسدی، حضرت عمر بن الخطاب کے زمانہ میں بیان کر رہے تھے کہ بہ خدا مجھے کسی انسان نے گرفتار نہیں کیا تھا، ان سے پوچھا پھر کس نے گرفتار کیا تھا ؟ انہوں نے کہا جب قریش نے شکست کھائی تو میں نے بھی ان کے ساتھ شکست کھائی، مجھے سفید رنگ کے ایک طویل القامت شخص نے گرفتار کیا جو آسمان اور زمین کے درمیان ایک چتکبرے گھورے پر سوار ہو کر آ رہا تھا، اس نے مجھے رسیوں سے باندھ دیا، حضرت عبدالرحمن بن عوف آئے تو انہوں نے مجھے بندھا ہوا پایا، حضرت عبدالرحمن لشکر میں اعلان کر رہے تھے کہ اس شخص کو کس نے گرفتار کیا ہے ؟ تو کسی نے بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ اس نے مجھے گرفتار کیا ہے، حتی کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے جایا گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا اے ابن ابی حبیش ! تم کو کس نے گرفتار کیا ہے ؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا اور میں نے جو کچھ دیکھا تھا اس کو بتلانا ناپسند کیا، سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو فرشتوں میں سے ایک کریم فرشتے نے گرفتار کیا ہے، اے ابن عوف ! اپنے قیدی کو لے جاؤ ! تو حضرت عبدالرحمن مجھے لے گئے۔ سائب نے کہا میں نے ایک عرصہ تک اس بات کو مخفی رکھا اور اپنے اسلام قبول کرنے کو موخر کرتا رہا بالآخر میں مسلمان ہوگیا۔ 

حضرت حکیم بن حزام (رض) بیان کرتے ہیں (یہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے) میں نے اس دن دیکھا آسمان ایک سیاہ چادر سے ڈھکا ہوا ہے، اس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آسمان سے کوئی چیز آرہی ہے۔ جس سے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید کی گئی ہے، اور اسی وجہ سے شکست ہوئی اور یہ فرشتے تھے۔

امام واقدی بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ ہورہی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاتھ اٹھائے ہوئے اللہ تعالیٰ سے فتح کی دعائیں کررہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے : ” اے اللہ ! اپنا وعدہ پورا فرما ” اور کہہ رہے تھے : اے اللہ ! اگر آج یہ جماعت مغلوب ہوگئی تو پھر شرک غالب ہوجائے گا اور تیرا دین قائم نہیں ہوسکے گا ” اور حضرت ابوبکر آپ سے کہہ رہے تھے کہ بہ خدا ! اللہ آپ کی مدد فرمائے گا اور آپ کو سرخرو کرے گا، پھر اللہ عزوجل نے دشمن کی جانب ایک ہزار لگاتار فرشتے نازل کیے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! اے ابوبکر ! خوشخبری ہو ! یہ جبرائیل ہیں جو زرد عمامہ باندھے ہوئے ہیں، ان کے دانتوں پر غبار ہے وہ آسمان اور زمین کے درمیان اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے آ رہے ہیں، جب وہ زمین پر اترے تو ایک ساعت کے لیے مجھ سے غائب ہوئے، پھر ظاہر ہوئے اور کہہ رہے تھے کہ جب آپ نے مدد طلب کی تو اللہ کی مدد آگئی۔

امام واقدی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مٹھی میں کنکریاں لیں اور یہ کہہ کر کفار کی طرف پھینکیں کہ ان کے چہرے بگڑ جائیں، اے اللہ ! ان کے دلوں پر رعب طاری کر ! اور ان کے قدم اکھاڑ دے، پھر اللہ کے دشمن شکست کھا گئے اور مسلمان، کافروں کو قتل کررہے تھے اور کفار کو قید کررہے تھے۔ اور مشرکوں کے چہرے اور ان کی آنکھیں خاک میں اٹی ہوئی تھیں اور ان کو پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ خاک کہاں سے آئی اور مومنین اور فرشتے ان کو قتل کررہے تھے۔ (کتاب المغازی، ج 1، ص 75 ۔ 81، مطبوعہ عالم الکتب بیروت، الطبعہ الثلاثہ)

امام بیہقی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت مالک بن ربیعہ (رض) جنگ بدر کے دن حاضر تھے۔ انہوں نے اپنی بینائی چلے جانے کے بعد کہا اگر میں تمہارے ساتھ اس وقت بدر میں ہوتا اور میں بینا بھی ہوتا تو میں تمہیں وہ گھاٹی دکھاتا جہاں سے فرشتے نکلے تھے۔ (دلائل النبوۃ ج 3، ص 81، جامع البیان ج 4، ص 50، سیرت ابن ہشام ج 2، ص 274)

امام ابن جوزی لکھتے ہیں : 

حضرت ابوداود مازنی نے کہا میں جنگ بدر کے دن مشرکین میں سے ایک شخص کا پیچھا کر رہا تھا تاکہ میں اس کو قتل کروں۔ سو میرے تلوار مارنے سے پہلے ہی اس کا سر کٹ کر گرگیا تو میں نے جان لیا کہ میرے علاوہ کسی اور نے اس کو قتل کیا ہے۔ (زاد المسیر ج 1، ص 452 ۔ 453 ۔ سیرت ابن ہشام ج 1، ص 633 ۔ جامع البیان ج 4، ص 50)

امام ابن جریر طبری روایت کرتے ہیں : 

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جنگ بدر کے بعد ابوسفیان مکہ کے لوگوں میں جنگ کے احوال بیان کر رہا تھا۔ اس نے کہا ہم نے زمین اور آسمان کے درمیان سفید رنگ کے سوار دیکھے جو چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے، وہ ہم کو قتل کر رہے تھے اور ہم کو قید کر رہے تھے، ابو رافع نے کہا وہ فرشتے تھے۔ 

مقسم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا جس شخص نے عباس کو گرفتار کیا وہ حضرت ابوالیسر تھے۔ حضرت ابوالیسر دبلے پتلے آدمی تھے اور عباس بہت جسیم تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوالیسر سے پوچھا تم نے عباس پر کیسے قابو پایا ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص نے میری مدد کی تھی میں نے اس کو اس سے پہلے نہ دیکھا تھا نہ اس کے بعد دیکھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک معزز فرشتے نے تمہاری مدد کی تھی۔ 

مقسم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا یوم بدر کے سوا ملائکہ نے کسی دن بھی قتال نہیں کیا، باقی ایام میں وہ عددی قوت اور مدد کے لیے آتے تھے، قتال نہیں کرتے تھے۔ 

حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم جب تک اللہ نے چاہا قریظہ اور نضیر کا محاصرہ کرتے رہے، اور ہم کو فتح حاصل نہیں ہوئی، پھر ہم واپس آگئے، سو جس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر میں اپنا سر دھو رہے تھے، اچانک آپ کے پاس جبرئیل ائے اور کہا اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے اپنا اسلحہ اتار دیا اور فرشتوں نے ابھی اپنے ہتھیار نہیں اتارے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کپڑا منگایا اور اس کو سر پر لپیٹا اور سر نہیں دھویا، پھر آپ نے ہمیں بلایا ہم سب آپ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ حتی کہ ہم قریظہ اور نضیر کے پاس ہپنچے، اس دن اللہ تعالیٰ نے ہماری تین ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد فرمائی، اور اللہ تعالیٰ نے ہمٰں فتح عطا فرمائی اور ہم اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ واپس آئے۔ (جامع البیان، جز 4، ص 50 ۔ 52)

امام محمد بن اسماعیل (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزہ خندق سے واپس آئے تو آپ نے ہتھیار اتار دیے اور غسل فرمایا، آپ کے پاس جبرائیل آئے اور کہا آپ نے ہتھیار اتار دیے بخدا ہم نے ابھی ہتھیار نہیں اتارے آپ ان کی طرف نکلیے آپ نے پوچھا کس طر ؟ جبرائیل نے کہا ادھر اور بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا سو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف روانہ ہوئے۔ 

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں، جبرائیل کے چلنے سے بنو غنم کی گلیوں میں غبا بلند ہو رہا تھا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو قریظہ کی طرف روانہ ہورہے تھے۔ (صحیح بخاری ج 2، ص 590، 591، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی)

فرشتوں کے قتال کے متعلق جس قدر اہم روایات ہم کو دستیاب ہوئیں ہم نے ان سب کو یہاں ذکر کردیا ہے فرشتوں کی آمد کا معاملہ تو کئی غزات میں فرشتے مسلمانوں کی مدد کے لیے نازل ہوئے، لیکن فرشتوں کا نزول ان کے جنگ کرنے کو مستلزم نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کی عددی قوت کو بڑھانے کے لیے، ان کی دلجمعی کے لیے، ان کو مطمئن کرنے کے لیے، جنگ میں ان کو ثابت قدم رکھنے کے لیے، دشمنوں پر رعب طاری کرنے کے لیے اور ان کو فتح اور نصر کی بشارت دینے کے لیے فرشتوں کا نزول ہوا تھا، انہوں نے کفار کے خلاف جنگ میں عملاً حصہ نہیں لیا کیونکہ انسانوں کا فرشتوں سے مقابلہ کرانا اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کی حکمت کے خلاف ہے، مقابلہ ایک جنس کے افراد میں ہوا کرتا ہے، جن روایات میں یہ ذکر ہے کہ فرشتوں نے کفار سے قتال کیا تھا ان میں بعض سنداً ضعیف ہیں اور بعض میں تاویل اور توجیہ ہے۔

جنگ بدر میں قتال ملائکہ کے متعلق مفسرین اسلام کی آراء 

امام ابوجعفر محمد ابن جریر طبری متوفی 310 ھ لکھتے ہیں :

جنگ بدر میں فرشتوں کے نازل کرنے کی آیات ہیں۔ ان کی تفسیر میں صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ خبر دی کہ آپ نے مسلمانوں سے یہ فرمایا کہ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری تین ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کرے، سو اللہ تعالیٰ نے تین ہزار فرشتوں کے ساتھ ان کی مدد کا وعدہ فرما لیا، پھر ان سے پانچ ہزار فرشتوں کی مدد کا وعدہ فرما لیا، بشرطیکہ وہ دشمن کے مقابلہ میں صبر کریں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں اور ان آیتوں میں اس پر دلیل نہیں کہ ان کی تین ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی اور نہ اس پر دلیل ہے کہ ان کی پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی اور نہ اس پر دلیل ہے کہ ان کی مدد نہیں کی گئی تھی، اس لیے فرشتوں کا مدد کرنا اور نہ کرنا دونوں امر جائز ہیں، اور ہمارے پاس کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ تین ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی یا پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی، اور بغیر کسی صحیح حدیث کے ان میں سے کسی چیز کا قول کرنا جائز نہیں ہے، البتہ قرآن مجید میں یہ دلیل ضروری ہے جنگ بدر میں مسلمانوں کی ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی گئی تھی اور وہ یہ آیت ہے : ” اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ : جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سن لی کہ میں تمہاری ایک ہزار لگاتار آنے والے فرشتوں سے مدد کرنے والا ہوں ” (جامع البیان ج 4، ص 53، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت، 1409 ھ)

امام فخر الدین محمد بن ضیاء الدین عمر رازی متوفی 606 ھ لکھتے ہیں : 

اہل تفسیر اور اہل سیرت کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن فرشتوں کو نازل کیا اور انہوں نے کفار سے قتال کیا، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا فرشتوں نے جنگ بدر کے سوا اور کسی دن قتال نہیں کیا اور باقی غزوات میں فرشتے عددی قوت کے اظہار اور اور مدد کے لیے نازل کیے گئے تھے، لیکن انہوں نے عملی طور پر قتال میں کوئی حصہ نہیں لیا، اور یہی جمہور کا قول ہے۔ لیکن ابوبکر اصم نے اس کا بڑی شدت کے ساتھ انکار کیا ہے اور ان کے حسب ذیل دلائل ہیں : 

1 ۔ تمام روئے زمین کو تباہ کرنے کے لیے ایک فرشتہ کافی ہے، حضرت جبرائیل نے انے ایک پر سے قوم لوط کے چار شہروں کی زمین تحت الثری سے لے کر آسمان تک اٹھایا پھر اس کو زمین پر پلٹ کر پھینک دیا اور قوم لوط تباہ ہوگئی تو پھر جنگ بدر کے دن ان کو کافروں سے لڑنے کی کیا حاجت تھی ؟ پھر ان کے ہوتے ہوئے باقی فرشتوں کی کیا ضرورت تھی۔ 

2 ۔ قتل کیے جانے والے تمام بڑے بڑے کافر مشہور تھے اور یہ معلوم تھا کہ فلاں کافر کو فلاں صحابی نے قتل کیا ہے تو پھر فرشتوں نے کس کو قتل کیا تھا۔ 

3 ۔ اگر فرشتے کفار کو انسانی شکل میں نظر آ رہے تھے تو پھر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد تیرہ سو یا تین ہزار یا اس سے زائد ہوجائے گا حالانکہ اس پر اجماع ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کافروں سے کم تھی، اور اگر وہ غیر انسانی شکل میں تھے تو کفار پر سخت رعب طاری ہونا چاہیے تھا حالانکہ یہ منقول نہیں ہے۔ 

امام رازی فرماتے ہیں کہ اس قسم کے شبہات وہی شخص پیش کرسکتا ہے جو قرآن مجید اور نبوت پر ایمان نہ رکھتا ہو لیکن جو قرآن مجید اور احادیث پر ایمان رکھتا ہو اس سے اس قسم کے شبہات بہت بعید ہیں، سو ابوبکر اصم کے لائق نہیں ہے کہ وہ فرشتوں کے قتال کا انکار کرے جب کہ قرآن مجید میں فرشتوں کی مدد کرنے کا ذکر ہے اور فرشتوں کے قتال کرنے کے متعلق جو احادیث ہیں وہ تواتر کے قریب ہیں، حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب قریش جنگ احد سے واپس ہوئے تو وہ آپس میں یہ باتیں کر رہے تھے کہ اس مرتبہ ہم نے وہ چتکبرے گھوڑے اور سفید پوش انسان نہیں دیکھے جن کو ہم نے جنگ بدر میں دیکھا تھا، ابوبکر اصم کے شبہات کا جب ہم اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے مقابلہ میں جائزہ لیتے ہیں تو وہ زائل ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ اپنے کسی کام پر کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔ (تفسیر کبیر ج 3 ص 45، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1398 ھ)

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

حضرت سہل بن حنیف (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے جنگ بدر کے دن دیکھا کہ ہم کسی مشرک پر تلوار مارتے اور ہماری تلوار پہنچنے سے پہلے اس کا سر دھڑ سے الگ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭسَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ : جب آپ کے رب نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو، عنقریب میں کافروں کے دلوں پر رعب طاری کروں گا، تم کافروں کی گردنوں کے اوپر وار کرو اور کافروں کے ہر جوڑ کے اوپر ضرب لگاؤ ” (الانفال :12) ۔ 

حضرت ربیع بن انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن فرشتوں کے ہاتھوں قتل کیے ہوئے کافر الگ پہچانے جاتے تھے، ان کی گردنوں کے اوپر تلوار کے وار تھے اور ان کے ہر جوڑ پر ضرب تھی، اور ہر ضرب ایسی تھی جیسے آگ سے جلی ہوئی ہو، امام بیہقی نے ان تمام کافروں کا ذکر کیا ہے، اور بعض علماء نے کہا ہے کہ فرشتے قتل کرتے تھے اور کافروں میں ان کی ضرب کی علامت صاف ظاہر تھی، کیونکہ جس جگہ وہ ضرب لگاتے تھے وہ جگہ آگ سے جل جاتی تھی۔ حتی کہ ابوجہل نے حضرت ابن مسعود (رض) سے پوچھا کیا تم نے مجھے قتل کیا ہے ؟ مجھے اس شخص نے قتل کیا کہ باوجود میری پوری کوشش کے میرا نیزہ اس کے گھوڑے تک نہیں پہنچ سکا، اور اس قدر زیادہ فرشتے نازل کرنے کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کے دل پر سکون رہیں، اور اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے ان فرشتوں کو مجاہد بنادیا، سو ہر وہ لشکر جو صبر و ضطب سے کام لے اور محض ثواب کی نیت سے لڑے فرشتے آکر اس کے ساتھ قتال کرتے ہیں، حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا کہ جنگ بدر کے سوا اور کسی جنگ میں فرشتوں نے قتال نہیں کیا اور باقی غزوات میں وہ صرف عددی قوت کے اظہار اور مدد کے لیے آتے تھے، اور بعض علماء نے کہا کہ بہ کثرت فرشتوں کو نازل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ دعا کری، تسبیح پڑھیں اور لڑنے والوں کی عددی قوت میں اضافہ کریں، اس قول کی بناء پر فرشتوں نے جنگ بدر میں بھی قتال نہیں کیا وہ صرف دعا کرنے کے لیے اور مسلمانوں کو ثابت قدم رکھنے کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ لیکن پہلی رائے کے قائلین زیادہ ہیں۔ 

قتادہ نے کہا پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ جنگ بدر میں مدد کی گئی تھی۔ حسن نے کہا یہ پانچ ہزار فرشتے قیامت تک مسلمانوں کے مددگار ہیں۔ شعبی نے کہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کو یہ خبر پہنچی کہ کرز بن جابر محاربی مشرکین کی مدد کرنا چاہتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر یہ خبر شاق گزری تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : کیا تمہاری لیے یہ کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تین ہزار نازل کیے ہوئے فرشتوں سے تمہاری مدد فرمائے۔ ہاں کیوں نہیں ! اگر تم ثابت قدم رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو جس آن دشمن تم پر چرھائی کریں گے اسی آن اللہ (تین ہزار کی بجائے) پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے تمہاری مدد فرمائے گا۔ (آل عمران :124 ۔ 125) کرز کو جب مشرکوں کی شکست کی خبر پہنچی تو وہ ان کی مدد کے لیے نہیں آیا اور لوٹ گیا، اور اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کی مدد کے لیے پانچ ہزار فرشتے نہیں بھیجے اور ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ ان کی مدد کی گئی تھی، ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے جنگ بدر کے دن یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت پر ثابت قدم رہیں اور اس کی نافرمانی کرنے سے ڈریں اور بچیں تو اللہ تعالیٰ ان کی تمام جنگوں میں مدد فرمائے گا اور مسلمان جنگ خندق کے سوا اور کسی جنگ میں ثابت قدم نہیں رہے اور صرف اسی جنگ میں نافرمانی سے ڈرے تو جب انہوں نے قریظہ کا محاصرہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی (انزال) ملائکہ سے مدد فرائی۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت جنگ احد کے متعلق ہے اگر وہ اس میں ثابت قدم رہتے اور نافرمانی نہ کرتے تو پانچ ہزار فرشتوں سے ان کی مدد کی جاتی۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے یہ حدیث ثابت ہے کہ میں جنگ بدر کے دن دو سفید پوش آدمیوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں اور بائیں بہت شدت سے قتال کرتے ہوئے دیکھا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد ان آدمیوں کو نہیں دیکھا تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ وعدہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہو اور عام صحابہ کی فرشتوں کے قتال سے مدد نہ کی گئی ہو۔ (الجامع لاحکام القرآن، ج 4، ص 194 ۔ 195، مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران)

مفتی محمد عبدہ لکھتے ہیں :

فرشتوں کی مدد معنوی تھی جس سے مسلمان ثابت قدم رہے اور ان کے ارادے پختہ ہوئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اللہ نے ان (فرشتوں کے نازل کرنے) کو محض تمہیں خوشخبری دینے کے لیے کیا ہے اور تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن رہیں اور (درحقیقت) مدد تو صرف اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جو بہت غالب اور بڑی حکمت والا ہے۔ (آل عمران :126) یعنی تاکہ کفار کے لشکر کی کثرت کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں گھبراہٹ پیدا نہ ہو، سو تمہاری تسکین کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل کیے، اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو تم سے فرشتوں کی مدد کا وعدہ کیا ہے وہ محض تمہیں خوشخبری دینے اور تمہاری تسکین کے لیے ہے، کیونکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو مسلمانوں سے وعدہ فرمایا ہے اس کو نقل فرمایا ہے، اور فرشتوں کی مدد کا محمل یہ ہے کہ اس سے دشمن کے دل میں رعب واقع ہوگا اور خوف پیدا ہوگا اور مسلمان جنگ میں ثابت قدم رہیں گے اور فرشتے ان کو جنگ کے متعلق عمدہ تدبیریں القاء کریں گے۔ چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی کے قریب ترین راستے میں اتر گئے تھے اور آپ نے اس راستہ کو دشمن سے مخفی رکھا اور آپ نے بہت مناسب جگہ لشکر کو ٹھہرایا اور لشکر کی پشت پہاڑ کی طرف رکھی اور تیر اندازوں کو پیچھے کھڑا کیا، اگر ان تدبیروں میں سے کوئی تدبیر بھی بروئے کار نہ لائی جاتی تو مشکل پیش آتی۔ 

بعض سیرت کی کتابوں میں مذکورہ ہے کہ فرشتوں نے جنگ احد میں لڑائی میں حصہ لیا، امام ابن حجر نے اس کی نفی کی ہے اور حضرت ابن عباس نے یہ روایت نقل کی ہے کہ فرشتوں نے صرف جنگ بدر میں قتال کیا ہے اور کسی جنگ میں قتال نہیں کیا، ابوبکر اصم نے اس کا بہت شدت سے انکار کیا ہے اور لکھا ہے کہ ایک فرشتہ ہی تمام روئے زمین کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے، اتنے فرشتے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی، نیز ہر کافر کے متعلق معلوم ہے کہ اس کو فلاں صحابی نے قتل کیا ہے پھر فرشتوں نے کس کو قتل کیا تھا، نیز اگر فرشتے انسانی شکلوں میں دکھائی دے رہے تھے تو مسلمانوں کی تعداد کافروں سے بہت زیادہ ہوگئی تھی، حالانکہ قرآن مجید میں ہے : ” ویقللکم فی اعینہم : اور اللہ تم کو ان کی نگاہوں میں کم دکھا رہا تھا ” (الانفال :44)

اور اگر فرشتے انسانی شکلوں میں نظر آ رہے تھے تو لازم آئے گا کہ بغیر کسی فاعل کے سر کٹ کٹ کر گر رہے ہوں، پیٹ چاک ہو رہے ہوں اور اعضاء کٹ کٹ کر گر رہے ہوں اور یہ بہت عظیم معجزہ تھا اور اس کو تواتر سے نقل ہونا چاہیے تھا۔

امام رازی نے جو ابوبکر اصم کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابوبکر اصم کا یہ قول قرآن مجید کے خلاف ہے تو قرآن مجید میں کہیں یہ نص صریح نہیں ہے کہ فرشوں نے بالفعل قتال کیا ہے، البتہ سورة انفال میں غزوہ بدر کے سیاق میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کرے گا، اور اس مدد کا یہ معنی ہے کہ فرشتے مسلمانوں کو جنگ میں ثابت قدم رکھیں گے اور ان کی نیت درست رکھیں گے کیونکہ فرشتوں انسانوں میں الہام وغیرہ کے ساتھ تاثیر کرتے ہیں، اور اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے کہ اور اللہ نے اس (نزول ملائکہ) کو محض تمہیں خوشخبری دینے کے لیے کیا ہے اور تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن رہیں۔ (آل عمران :126 ۔ الانفال :10)

باقی رہا یہ کہ اس میں کیا حکمت تھی کہ جنگ بدر کے دن فرشتوں کی مدد آئی اور جنگ احد کے دن نہیں آئی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے احوال ان دنوں میں مختلف تھے، جنگ بدر کے دن مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی اور کسی پر نظر نہیں تھی اور انہوں نے اس جنگ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت کی، اور جنگ احد میں سب مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت نہیں کی بلکہ بعض مسلمان آپ کی مقرر کی ہوئی جگہ سے ہٹ گئے تھے۔ (المنار ج 4، ص 112 ۔ 115، ملخصاً مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

قاضی ابوالخیر عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی 685 ھ لکھتے ہیں۔ 

فرشتوں کے قتال کرنے میں اختلاف ہے اور بعض احادیث فرشتوں کے قتال کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ (انوار التنزیل ص 235، مطبوعہ دار فراس للنشر والتوزیع، مصر)

علامہ احمد شہاب الدین خفاجی حنفی متوفی 1069 ھ لکھتے ہیں : 

اس میں اختلاف ہے کہ فرشتوں نے کفار کے خلاف قتال کیا تھا یا قتال نہیں کیا تھا، بلکہ فرشتوں کا نازل ہونا صرف مسلمانوں کی تقویت کے لیے تھا اور ان کے دشمنوں کو کمزور کرنے کے لیے تھا، اس کی تفصیل ” کشاف ” میں ہے۔ (عنایہ القاضی، ج 4، ص 256، مطبوعہ دار صادر، بیروت، 383)

علامہ جار اللہ محمود بن عمرو زمخشری متوفی 528 ھ لکھتے ہیں : 

اللہ تعالیٰ کا غزوہ بدر میں فرشتوں کو بھیجنا صرف تمہیں مدد کی بشارت دینے کے لیے تھا، جیسے بنی اسرایئل کے لیے سکینہ کو نازل کیا گیا تھا۔ یعنی تم نے اپنے قلت تعداد اور ضعف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا اور فریاد کی تو تمہیں مدد کی بشارت دینے کے لیے فرشتوں کو نازل فرمایا تاکہ تمہیں سکون حاسل ہو اور تمہارے دل مطمئن ہوں اور (حقیقت میں) امداد صرف اللہ کی جانب سے ہے، اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ تم یہ نہ گمان کرو کہ فرشتوں نے مدد کی ہے، کیونکہ تمہاری اور فرشتوں کی مدد کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور فرشتوں کی مدد کرنا اللہ کی طرف سے بطور اسباب ہے اور جس کی اللہ مدد فرمائے وہی منصور ہے۔ (الکشاف ج 2، ص 202، مطبوعہ ایران، 1413 ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی لکھتے ہیں : 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امداد کو محض بشارت اور مسلمانوں کے دلوں کے اطمینان کے لیے نازل کیا ہے، اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ فرشتوں نے قتال نہیں کیا اور یہ بعض علماء کا مذہب ہے، اور بعض احادیث میں اس کی دلیل ہے حضرت ابواسید نے نابینا ہونے کے بعد کہا اگر میں اس وقت بدر میں ہوتا اور بینا ہوتا تو تم کو وہ گھاٹی دکھاتا جس سے فرشتے نکل رہے تھے۔ (روح المعانی ج 9، ص 174، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

قرآن مجید میں صراحۃًیہ مذکور نہیں ہے کہ فرشتوں نے جنگ بدر میں قتال کیا، البتہ سورة انفال کی اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے : ” اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭسَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ : جب آپ کے رب نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، تو تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو، عنقریب میں کافروں کے دلوں میں رعب طاری کروں گا، تم کافروں کی گردنوں کے اوپر وار کرو اور کافروں کے ہر جوڑ کے اوپر ضرب لگاؤ ” (الانفال :12)

علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں : اس آیت سے بظاہر یہی ثابت ہوتا ہے کہ فرشتوں نے بالفعل لڑائی میں حصہ لیا، لیکن جن حضرات نے اس مستبعد جانا ہے ان کا خیال ہے کہ فاضربوا میں خطاب مومنین سے ہے اور انہیں مارنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس آیت کے الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے۔ (ضیاء القرآن، ج 2، ص 134، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)

علامہ ابو محمد ابن عطیہ اندلسی متوفی 546 ھ لکھتے ہیں : 

اس آیت میں یا تو فرشتوں سے خطاب ہے کہ تم کافروں کی گردنوں پر وار کرو اور یا مسلمانوں سے خطاب ہے کہ تم کافروں کو قتل کرو۔ (المحرر الوجیز ج 8، ص 27، مطبوعہ مکتبہ تجاریہ، مکہ مکرمہ) 

علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں : 

اس آیت میں ان علماء کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ فرشتوں نے قتال کیا تھا، اور جو علماء یہ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے قتل نہیں کیا تھا وہ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرشتوں کے قول کی حکایت کی ہے کہ وہ مسلمانوں کو جنگ میں ثابت قدم رکھتے تھے، ان کا حوصلہ بڑھاتے تھے اور فرشتے مومنوں سے یہ کہتے تھے کہ تم کافروں کی گردنوں پر وار کرو اور کافروں کے ہر جوڑ پر ضرب لگاؤ۔ (روح المعانی، ج 9، ص 187، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیرت)

علامہ ابو الحیان اندلسی متوفی 754 ھ لکھتے ہیں : جو معنی واضح ہے وہ یہی ہے کہ اس آیت میں فرشتوں کے ثابت قدم رکھنے کی تفسیر ہے اور فرشتے مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ کافروں کی گردنوں پر وار کرو اور ان کے ہر جوڑ پر ضرب لگاؤ۔ البحر المحیط، ج 5، ص 285، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1412 ھ)

شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی 1369 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : 

روایات میں ہے بدر میں ملائکہ کو لوگ آنکھوں سے دیکھتے تھے اور ان کے مارے ہوئے کفار کو آدمیوں کے قتل کیے ہوئے کفار سے الگ شناخت کرتے تھے۔ (تفسیر بر حاشیہ قرآن، مطبوعہ سعودی عربیہ) 

صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں : 

ابو داود مازنی جو بدر میں حاضر ہوئے تھے فرماتے ہیں کہ میں ایک مشرک کی گردن مارنے کے لیے اس کے درپے ہوا۔ اس کر سر میری تلوار کے پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گرگیا تو میں نے جان لیا کہ اس کو کسی اور نے قتل کیا۔ (تفسیر بر حاشیہ قرآن، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور)

سید ابو الاعلی مودودی متوفی 1399 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : 

جو اصولی باتیں ہم کو قرآن کے ذریعہ سے معلوم ہیں ان کی بناء پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فرشتوں سے قتال میں یہ کام نہیں لیا ہوگا کہ وہ خود حرب و ضرب کا کام کریں، بلکہ شاید اس کی صورت یہ ہوگی کہ کفار پر جو ضرب مسلمان لگائیں وہ فرشتوں کی مدد سے ٹھیک بیٹھے اور کاری لگے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (تفہیم القرآن، ج 2، ص 134، مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن، لاہور)

مفتی محمد شیفع کا کلام اس مسئلہ میں واضح نہیں ہے، انہوں نے دو ٹوک طریقے سے نہ تو فرشتوں کے قتال کا قول کیا ہے اور نہ صراحۃً اس کی نفی کی ہے۔ سورة آل عمران کی تفسیر میں قتال ملائکہ کی بعض روایات نقل کرکے لکھتے ہیں : 

یہ سب مشاہدات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں کہ لائکۃ اللہ نے مسلمانوں کو اپنی نصرت کا یقین دلانے کے لیے کچھ کچھ کام ایسے بھی کیا ہے کہ گویا وہ بھی قتال میں شریک ہیں اور در اصل ان کا کام مسلمانوں کی تسلی اور تقویت قلب تھا۔ فرشتوں کے ذریعہ میدان جنگ فتح کرانا مقصود نہیں تھا، اس کی واضح دلیل یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں جنگ و جہاد کے فرائض انسانوں پر عائد کیے گئے ہیں اور اسی وجہ سے ان کو فضائل و درجات حاصل ہوتے ہیں، اگر اللہ ت عالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ فرشتوں کے لشکر سے ملک فتح کرائے جائیں تو دنیا میں کفر و کافر کا نام ہی نہ رہتا، حکومت و سلطنت کی تو کیا گنجائش تھی، مگر اس کارخانہ قدرت میں اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ہی نہیں۔ (معارف القرآن، ج 4، ص 174، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی، 1397 ھ)

اور سورة انفال کی زیر بحث آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : 

اس میں فرشتوں کو دو کام سپر دکیے گئے ایک یہ کہ مسلمانوں کی ہمت بڑھائیں۔ یہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتے میدان میں آکر ان کی جماعت کو بڑھائیں اور ان کے ساتھ مل کر قتال میں حصہ لیں، اور اس طرح بھی کہ اپنے تصرف سے مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کردیں اور ان میں قوت پیدا کردیں۔ دوسرا کام یہ بھی ان کے سپرد ہوا کہ فرشتے خود بھی قتال میں حصہ لیں اور کفار پر حملہ آور ہوں۔ اس آیت سے ظاہر یہی ہے کہ فرشتوں نے دونوں کام انجام دیے۔ مسلمانوں کے دلوں میں تصرف کرکے ہمت و قوت بڑھائی اور قتال میں بھی حصہ لیا، اور اس کی تائید چند روایات حدیث سے بی ہوتی ہے جو تفسیر در منثور اور مظہری میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور قتال ملائکہ کی عینی شہادتیں صحابہ کرام سے نقل کی ہیں۔ (معارف القرآن، ج 4، ص 197، مطبوعہ ادارۃ الامعارف، کراچی، 1397 ھ)

شیخ امین احسن اصلاح متوفی 1417 ھ لکھتے ہیں :

اس زمانہ کے بعض کم سوادوں نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا کہ فرشتوں کی فوج اتارنے کا وعدہ محض مسلمانوں کو ذرا بڑھاوا دینے کے لیے تھا تاکہ وہ ہمت کرکے کفار سے بھڑ جائیں۔ ان کے خیال میں قرآن نے جنگ کے بعد خود یہ راز کھول دیا کہ یہ بات محض تمہاری تسلی کے لیے کہہ دی گئی تھی اس کی حقیقت کچھ نہیں تھی، گویا نعوذ باللہ پہلے تو اللہ میاں نے مسلمانوں کو چکمہ دیا اور خود ہی اپنا بھانڈا پھوڑ دیا کہ اب کے تو میں نے تمہیں چکمہ دے کر لڑا دیا آئندہ میرے بھرے میں نہ آنا، فرشتوں ورشتوں کی بات محض ایک بھڑ ہی تھی، شاید یہ حضرات اللہ میاں کو اپنے برابر بھی عقلمند نہیں سمجھتے۔ (تدبر قرآن، ج 3، ص 444 ۔ 445، مطبوعہ فاران فاؤنڈیشن، 1419 ھ)

یہ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کو اللہ میاں کہنا جائز نہیں اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی انہوں نے جس غیر سنجیدہ انداز سے تعبیر کی ہے وہ قابل صد افسوس اور مذمت ہے۔ 

شیعہ مفسر شیخ فتح اللہ کاشانی لکھتے ہیں : 

روایت ہے کہ جنگ بدر کے دن جبرائیل پانچ سو فرشتوں کے ساتھ اور میکائیل پانچ سو فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے، جبرائیل دائیں جانب تھے اور میکائیل بائیں جانب تھے، انہوں نے سفید لباس پہنا ہوا تھا اور عمامہ کا شملہ کندھوں کے درمیان ڈالا ہوا تھا، انہوں مشرکوں کے ساتھ جنگ کی اور ان کو مغلوب کیا، اور ماضی اور مستقبل میں سے جنگ بدر کے سوا اور کسی دن میں فرشتوں کو جہاد کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ حضرت رسالت پناہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلند مرتبہ کی وجہ سے ان کو صرف جنگ بدر کے دن جہاد کا حکم دیا گیا تھا، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مشرک کے ساتھ جنگ کرتا تو اس مشرک کے سر کے اوپر سے تازیانہ کی آواز آتی اور جب مسلمان شخص نظر اوپر اٹھاتا تو وہ مشرک زمین پر پڑا ہوتا اور اس کے سر کے اوپر تازیانہ کا نشان ظاہر ہوتا اور وہ شخص کسی اور کو نہ دیکھتا، اور جب اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعہ کی خبر سنائی تو آپ نے فرمایا یہ فرشتے تھے جن کو حق تعالیٰ نے تمہاری مدد کے لیے بھیجا تھا، اور حضرت امیر المومنین صلوات اللہ علیہ نے فرمایا ہمارے شہید اور قریش کے مقتولین میں یہ فرق تھا کہ ہمارے شہداء پر زخموں کے نشانات تھے اور قریش کے مقتولین پر زخموں کے نشانت نہیں تھے۔ (منہج الصاقین، ج 4، ص 168، مطبوعہ خیابان ناصر خسرو ایران)

آیۃ اللہ مکارم شیرازی لکھتے ہیں : 

مفسرین کا اس میں اختلاف ہے، بعض اس کے معتقد ہیں کہ فرشتے اپنے مخصوص اسلحہ کے ساتھ نازل ہوئے تھے اور انہوں نے دشمنوں پر حملہ کیا اور ان کی ایک جماعت کو خاک پر گرا دیا، اور اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ روایات کو بھی نقل کیا ہے، اور مفسرین کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ فرشتے صرف مسلمانوں کو ثابت قدم رکھنے، ان کے دلوں کو تقویت دینے اور ان کو فتح کی خوشخبری دینے کے لیے نازل ہوئے تھے۔ اور یہی قول حقیقت سے قریب تر ہے اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں : 

1 ۔ آل عمران : 126 اور الانفال : 10 میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ فرشتوں کا نزول صرف مسلمانوں کو ثابت قدم رکھنے اور ان کو فتح کی بشارت دینے کے لیے ہوا تھا۔ 

2 ۔ اگر کفار کو فرشتوں نے قتل کیا تھا تو مجاہدین بدر کی کی کیا فضیلت رہ جاتی ہے ؟ 

3 ۔ جنگ بدر میں ستر کافر قتل ہوئے تھے، جن میں سے کچھ کو حضرت علی (علیہ السلام) نے قتل کیا تھا اور باقی کو دوسرے مجاہدین نے، اور تاریخ میں یہ محفوظ ہے کہ کس کافر کو کس مسلمان نے قتل کیا تھا تو پھر فرشتوں نے کس کو قتل کیا تھا۔ (تفسیر نمونہ، ج 7، ص 104 ۔ 105، مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ، ایران، 1369 ھ)

غزوہ بدر میں فرشوں کے قتال کے متعلق امام رازی کا تبدیل شدہ نظریہ 

آل عمران : 125 ۔ 127 کی جو امام فخر الدی رازی نے تفسیر کی ہے اس کو ہم پہلے نقل کرچکے ہیں۔ الانفال : 10 کی تفسیر میں امام رازی نے اس سے مختلف تقریر کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ جنگ بدر میں فرشتوں کا نزول صرف مسلمانوں کی تقویت اور ان کو فتح اور نصرت کی بشارت دینے کے لیے تھا۔ چناچہ وہ لکھتے ہیں :

اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ آیا جنگ بدر میں فرشتوں نے قتال کیا تھا یا نہیں ؟ علماء کی ایک جماعت نے کہا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) پانچ سو فرشتوں کے ساتھ لشکر اسلام کی دائیں جانب تھے۔ اور حضرت میکائیل پانچ سو فرشتوں کے ساتھ لشکر اسلام کی بائیں جانب تھے اور اس لشکر میں حضرت علی بن ابی طالب (رض) بھی تھے۔ اور فرشتے مردوں کی صورت میں سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے اور انہوں نے کفار سے قتال کیا تھا، ایک قول یہ ہے کہ ان فرشتوں نے غزوہ بدر میں قتال کیا تھا اور غزوہ احزاب اور غزوہ حنین میں قتال نہیں کیا تھا۔ اور روایت ہے کہ ابوجہل نے حضرت ابن مسعود (رض) سے کہا تھا وہ آواز کہاں سے آتی تھی جس کو ہم سنتے تھے اور بولنے والا نظر نہیں آتا تھا، حضرت ابن مسعود نے کہا وہ فرشتے تھے، تب ابوجہل نے کہا تو پھر انہوں نے ہم کو شکست دی ہے تم نے نہیں دی، اور روایت ہے کہ ایک مسلمان ایک مشرک کا پیچھا کر رہا تھا اچانک اس نے اپنے اوپر سے ایک کوڑا مارنے والے کی آواز سنی، اس نے اس مشرک کی طرف دیکھا تو وہ نیچے گرا پڑا تھا اور اس کا چہرہ شق ہوگیا تھا، اس انصاری نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم نے سچ کہا یہ آسمان سے مدد آئی تھی۔ علماء کی دوسری جماعت نے یہ کہا کہ فرشتوں نے قتال بالکل نہیں کیا، وہ صرف مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بڑھانے کے لیے آئے تھے اور مسلمانوں کو ثابت قدم رکھنے کے لیے، ورنہ پوری دنیا کو ہلاک کرنے کے لیے صرف ایک فرشتہ ہی کافی ہے، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنے بازو کے ایک پر سے قوم لوط کے تمام شہروں کو تباہ اور برباد کردیا تھا اور قوم ثمود کے شہروں کو اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کو صرف ایک چیخ سے ہلاک کردیا تھا۔ غزوہ بدر میں فرشتوں کی امداد کی کیفیت سورة آل عمران میں بہت تفصیل سے ذکر کی گئی ہے۔ غزوہ بدر میں فرشتے قتال کے لیے نازل نہیں ہوئے تھے اس قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” وما جعلہ اللہ الا بشری ولتمئن بہ قلوبکم : اور فرشتوں کو نازل فرمانا صرف تمہیں بشارت دینے کے لیے تھے اور اس لیے کہ تمہارے دل مطمئن رہیں ” (الانفال :10) ۔

فرا نے یہ کہا کہ ” وما جعلہ ” کی ضمیر لگاتار فرشتوں کی طرف لوٹتی ہے، یعنی لگاتار فرشتوں کو بھیجنا صرف تمہیں بشارت دینے کے لیے تھا اور زجاج نے بھی یہی کہا ہے کہ لگاتار فرشتوں کو بھیجنا صرف بشارت دینے کے لیے تھا۔ اور یہ تفسیر اولیٰ ہے کیونکہ فرشتوں کی امداد بشارت سے حاصل ہوگئی تھی، حضرت ابن عباس رضٰ اللہ عنہ نے کہ غزوہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چھپر کے نیچے بیٹھے ہوئے دعا کر رہے تھے اور آپ کی دائیں جانب حضرت ابوبکر رضٰ اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے درمیان کوئی تیسرا نہیں تھا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اونگھ آگئی، پھر آپ نے حضرت ابوبکر کے زانو پر ہاتھ مارا اور فرمایا اللہ کی مدد کی بشارت لو، میں نے خواب میں دیکھا کہ جبرئیل گھوڑے پر سوار آ رہے ہیں۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ فرشتوں کو نازل کرنے سے صرف خوشخبری دینا مقصو تھا۔ اور یہ اس بات کی نفی کرتی ہے کہ فرشتوں نے قتال کیا تھا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ” مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے ” (الانفال :10) اور اس سے اس امر پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ ہرچند کہ فرشتے مومنین کی موافقت میں نازل ہوئے تھے، لیکن مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ اس پر اعتماد نہ کریں، بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ اللہ کی اعانت اور امداد، اس کی ہدایت اور اس کے کافی ہونے پر اعتماد کریں۔ کیونکہ اللہ ہی عزیز اور غالب ہے جس پر کوئی غلبہ نہیں پاسکتا اور وہی ایسا قاہر ہے جس پر کوئی قہر نہیں کرسکتا، اور وہی حکیم ہے اور وہ اپنی حکمت سے جانتا ہے کہ کس جگہ نصرت کرنی چاہیے سو وہ اس جگہ نصرت فرماتا ہے۔ (تفسیر کبیر، ج 5، ص 460، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1415 ھ)

غزوہ بدر میں فرشتوں کے قتال کے متعلق مصنف کی تحقیق 

خلاصہ یہ کہ قرآن مجید کی صریح آیات اور بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ بدر میں فرشتے صرف مسلمانوں کو بشارت دینے اور ان کو تقویت دینے کے لیے نازل ہوتے تھے، اور انہوں نے خود جنگ نہیں کی۔ اس کے برخلاف بعض دیگر احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے خود جنگ کی تھی، لیکن یہ احادیث چونکہ قرآن مجید کی ان صریح آیات سے معارض ہیں اس لیے ان کو ترک کردیا جائے گا، نیز اگر فرشتوں نے یہ لڑائی لڑی ہوتی تو پھر کوئی صحابی بھی اس جنگ میں زخمی یا شہید نہ ہوتا، حالانکہ چودہ صحابی شہید ہوئے، اور متعدد زخمی ہوئے، نیز اگر یہ فرشتوں کا کارنامہ تھا تو اصحاب بدر کا کوئی کمال نہ ہوا اور ان کی اس قدر فضیلت نہ ہوئی اور پھر ہزاروں فرشتوں کی کیا ضرورت تھی ؟ تمام کافروں کو قتل کرنے کے لیے تو ایک فرشتہ ہی کافی تھا۔ علاوہ ازیں یہ کہ مجاہدین صحابہ میں سے ہر ایک کے متلعق معلوم اور ثابت ہے کہ فلاں صحابی نے فلاں کافر کو قتل کیا اور فلاں صحابی نے فلاں کار کو قتل کیا، پھر فرشتوں نے کس کو قتل کیا ؟ نیز قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” فلم تقتلوھم ولکن اللہ قلہم وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی : تو (اے مسلمانو) تم نے ان کافروں کو (حقیقۃً ) قتل نہیں کیا، لیکن ان کو اللہ نے (حقیقتاً قتل کیا ہے، اور (اے محبوب) آپ نے (حقیقتاً خاک) نہیں پھینکی، جس وقت (بظاہر) آپ نے (خاک) پھینکی توھی، وہ (خاک) اللہ نے پھینکی) ” (الانفال :17)

بظاہر اصحاب بدر نے کافروں کو قتل کیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تم نے ان کو حقیقتاً قتل نہیں کیا اللہ نے ان کو قتل کیا ہے، اگر فرشتوں نے بظاہر قتل کیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تم نے ان کو حقیقتاً قتل نہیں کی یا اللہ نے ان کو قتل کیا ہے، اگر فرشتوں نے بظاہر قتل کیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا : اے مسلمانو ! تم نے کافروں کو حقیقۃً قتل نہیں کیا، ان کو تو درحقیقت فرشتوں نے قتل کیا ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف قتل کی نسبت ظاہراً کی نہ حقیقۃً تو معلوم ہوا کہ بدر کے کافروں کو قتل کرنے میں فرشتوں کا کوئی دخل نہیں ہے نہ ظاہراً نہ حقیقتاً اور بدر میں فرشتوں کا نزول صرف مسلمانوں کے اطمینان اور ان کو بشارت دینے کے لیے تھا، جو فرشتے بدر میں اترے انہیں دوسرے فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی، اسلیے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض فرشتوں کو عزت اور فضیلت دینے کے لیے بدر میں فرشتوں کو اتارا ہوا۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256 ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت معاذ بن رفاعہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں (ان کے والد اہل بدر میں سے تھے) کہ حضرت جبرائیل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ اہل بدر کو کون سا درجہ دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ مسلمانوں میں سب سے افضل ہیں یا اس طرح کوئی اور بات فرمائی۔ حضرت جبرائیل نے کہا ہم بھی اسی طرح فرشتوں میں بدری فرشتوں کو سب سے افضل قرار دیتے ہیں۔ (صیح بخاری، ج 2، ص 529، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراچی، 1381 ھ)

اس حدیث میں یہ معلوم ہوا کہ فرشتوں کو نازل کرنے کی حکمت یہ تھی کہ اس جنگ میں ان کو مسلمانوں کی معیت کا شرف اور مرتبہ دیا جائے۔ 

میں نے اس مسئلہ میں بہت چھان بین کی ہے اور امہات کتب حدیث میں مجھ کو فرشتوں کے قتال کے متعلق حس قدر احادیث ملیں میں نے ان سب کا ذکر کیا، لیکن میں نے دیکھا یہ احادیث باہم متعارض اور مضطرب ہیں، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے صرف جنگ بدر میں قتال کیا اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے جنگ احزاب میں بھی قتال کیا، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان بلکہ کافر بھی فرشتوں کو دیکھ رہے تھے، اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کو قتال کرتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا، البتہ بغیر کسی فاعل کے کافروں کے سر کٹ کٹ کر گر رہے تھے، اس کے بر خلاف قرآن مید میں یہ ذکر نہیں ہے کہ فرشتوں نے قتال کیا تاھ بلکہ ظاہر قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے قتال کیا تھا اور فرشتے صرف مسلمانوں کی دل جمعی کے لیے نازل ہوئے تھے، میرے نزدیک احادیث صحیحہ اور آثار صحیحہ حجت ہیں لیکن قرآن مجید بہ ہر نوح احادیث پر مقدم ہے۔ نیز قواعد اسلام اور اصول اور دریات کا بھی یہی تقاضا ہے کہ یہ جنگ صرف مسلمانوں نے لڑی تھی۔ میں نے اس مسئلہ میں دیگر فقہاء اسلام کی آراء کا بھی ذکر کیا ہے۔ بہر حال میرے قلب و ضمیر کے مطابق حق یہی ہے اور اگر حق دوسری جانب ہے تو یہ میری فکر کی غلطی ہے اور میں اس سے تائب ہوں۔

آل عمران : 124 ۔ 127 کی تفسیر میں بھی میں نے یہی تقریر کی ہے للیکن اس کی اہمیت اور افادہ کے پیش نظر میں نے چند مزید حوالہ جات کا اضافہ کرکے اس تقریر کو دوبارہ ذکر کردیا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 9