أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُكُمۡ وَاَوۡلَادُكُمۡ فِتۡنَةٌ  ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنۡدَهٗۤ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ۞

ترجمہ:

اور یقین رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہیں اور بے اللہ ہی کے پاس اجر عظیم ہے ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور یقین رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہیں اور بے اللہ ہی کے پاس اجر عظیم ہے “

مال اور اولاد کے فتنہ ہونے کا معنی 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ بتلا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال و دولت کی جن نعمتوں سے نوازا ہے، اور جو اولاد تمہیں عطا کی ہے وہ تمہارے لیے امتحان اور آزمائش ہیں تاکہ اس آزمائش کے ذریعہ اللہ تعالیٰ یہ ظاہر فرمائے کہ تم مال اور اولاد میں اللہ کے حقوق کس طرح ادا کرتے ہو اور مال اور اولاد کی محبت تمہیں اللہ کے احکام پر عمل کرنے سے مانع ہوتی ہے یا نہیں اور تم یہ یقین رکھو کہ اپنے مال اور اولاد میں تم اللہ کے احکام کے مطابق جو عمل کرتے ہو اس کا اجر وثواب اللہ ہی کے پاس ہے سو تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو تاکہ آخرت میں تمہیں اجر جزیل مل جائے۔ 

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا تم میں سے ہر شخص فتنہ میں مبتلا ہے پس تم گمراہ کرنے والے فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرو۔ (جامع البیان جز 9، رقم الحدیث : 12370، ص 295، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)

مال اور اولاد کے فتنہ ہونے کے فتنہ ہونے کے متعلق قرآن مجید کی آیات 

ااولاد، رشتہ داروں اور مال و متاع کی محبت اگر اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت سے مانع ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا : قل ان کان اباء کم وابناء کم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال ن اقترفتموھا و تجارۃ تخشون کسادھا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ و جہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرہ واللہ لا یہدی القوم الفاسقین : آپ کہیے کہ اگر تمہارے باپ دادا، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور تمہاری وہ تجارت جس کے نقصان کا تمہیں خطرہ ہے اور تمہارے پسندیدہ مکان، تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں تو انتظام کرو حتی کہ اللہ اپنا حکم نافذ کردے، اور اللہ فاسق لوگوں کو منزل مقصود پر نہیں پہنچاتا۔

نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

یا ایہا الذین امنوا لا تلہکم اموالکم ولا اولادکم عن ذکر اللہ ومن یفعل ذلک فاولئک ھم الخسرون : اے ایمان والو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جس نے ایسا کیا تو وہی درحقیقت نقصان اٹھانے والے ہیں۔

مال اور اولاد کے فتنہ ہونے کے متعلق احادیث :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال کے فتنہ کے متعلق فرمایا :

حضرت عمرو بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو بحرین جزیہ لینے کے لیے بھیجا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل بحرین سے صلح کرلی تھی اور حضرت علاء بن حضرمی کو ان کا عامل مقرر کردیا تھا۔ پھر حضرت ابوعبیدہ بحرین سے مال لے کر آئے، انصار کو جب ان کے آنے کی خبر پہنچی تو وہ سب فجر کی نماز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھانے کے بعد ان کی طرف مڑ کر بیٹھ گئے وہ سب آپ کے سامنے پیش ہوگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب انہیں دیکھا تو آپ مسکرائے، پھر آپ نے فرمایا میرا گمان یہ ہے کہ تم سب کو یہ خبر پہنچ گئی ہے کہ ابوعبیدہ کہ ابوعبیدہ بحرین سے کچھ مال لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا تمہیں مبارک ہو اور اس چیز کی امید رکھو جس سے تم خوش ہوگے، پس اللہ کی قسم ! مجھے تم پر فقر کا خوف نہیں ہے لیکن مجھے یہ خوف ہے کہ دنیا تم پر اس طرح وسیع کردی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر دنیا وسیع کردی گئی تھی، پھر تم دنیا میں اس طرح رغبت کروگے جس طرح انہوں نے دنیا میں رغبت کی تھی، جس طرح وہ ہلاک ہوگئے تھے، تم بھی اسی طرح ہلاک ہوجاؤ گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3158، صحیح مسلم الزہد 6 (2961) 7291 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2469 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الھدیث : 3997 ۔ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 8766 ۔ مسند احمد ج 4، ص 227 ۔ 137)

اور اولاد کے فتنہ ہونے کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے : 

حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے۔ اچانک حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) آگئے انہوں نے سرخ قمیصیں پہنی ہوئی تھی وہ چلتے ہوئے لڑ کھڑا رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے اترے، ان کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا دیا اور پھر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سچ ارشاد فرمایا ہے تمہارے اموال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہیں۔ (الانفال :28) ۔ میں نے ان دونوں بچوں کو چلتے ہوئے لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو پھر میں صبر نہ کرسکا حتی کہ میں نے اپنے خطاب کو منقطع کیا اور ان بچوں کو اٹھایا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3781 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 1109 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 1412 ۔ مشکوۃ، رقم الحدیث : 6168)

اولاد کی محبت میں انسان اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوجائے یا کسی عبادت کو ترک کردے یا ان کی محبت میں کوئی ناجائز کام کرے تو یہ ممنوع ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رحمت اور رقت کے غلبہ سے اپنے ان نواسوں کو جو دوران خطبہ، خطبہ منقطع کرکے اٹھایا تو یہ کسی قسم کا ممنوع کام نہیں تھا بلکہ آپ کا ہر کام وحی الٰہی کی اتباع میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت حسنین کریمین کا جو مرتبہ اور مقام ہے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو ان کا بلند درجہ ہے اس کو ظاہر کرنے کے لیے آپ نے ان کو دوران خطبہ اٹھر کر اپنے پاس بٹھایا اور اپنے اس عمل سے آپ نے یہ مسئلہ بتلایا کہ کم سن بچوں پر شفقت کرنی چاہیے اور اگر دوران وعظ کسی واعظ اور خطیب کو ایسی صورت حال سے سابقہ پڑجائے تو اس کا اپنے بچوں کو دوران وعظ اٹھا لینا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ آپ کی سنت بھی ہے اور آپ کا بچوں کے اٹھانے پر یہ آیت پڑھنا کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہیں یہ آپ کی تواضع اور آپ کا انکسار ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 28