أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖۤ اِلَى الَّذِيۡنَ عَاهَدتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے، ان مشرکین سے اعلان برأت (بیزاری) ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا۔

تفسیر:

سورة التوبہ مدنی ہے، اس میں ایک سو انتیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی و نسلم علی رسولہ الکریم سورة التوبہ 

سورۃ التوبہ کے اسماء اور وجہ تسمیہ

اس سورت کا نام البراءۃ ہے، اس کے علاوہ اس کے اور بھی اسماء ہیں۔ التوبہ، املقشقشہ، البحوث، المبعشرہ، المنقرۃ، المثیرۃ، الحافرۃ، المخزیہ، الفاضحہ، المنکلہ، المشروۃ، المدمدۃ اور سورة العذاب۔ (انوار التنزیل و اسرار التاویل ج ٣ ص ١٢٦، مع الکاز رونی، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٦ ھ) اس سورت کا نام التوبہ اس لیے ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا ہے، خصوصاً حضرت کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع (رض) ۔ ان تین صحابہ کی توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا ہے۔ آیت وعلی الثلثۃ الذین خلفوا حتی اذا ضاقت علیہم الارض بمارحبت وضاقت علیہم انفسہم وظنوا ان لا ملجا من اللہ الا الیہ ثم تاب علیہم لیتوبوا ان اللہ ہو التواب الرحیم (التوبہ : ١١٨) اور ان تین شخصوں (کی توبہ قبول فرمائی) جن کو مؤخر کیا گیا تھا، حتیٰ کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوئی اور خود وہ بھی اپنے آپ سے تنگ آگئے اور ان کو یقین ہوگیا کہ اللہ کے سوا ان کی کوئی جائے پناہ نہیں ہے، پھر ان کی (بھی) توبہ قبول فرمائی تاکہ وہ (ہمیشہ) تائب رہیں، بیشک اللہ ہی بہت توبہ قبول کرنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ اور اس سورت کا نام البراءۃ ہے کیونکہ البراءۃ کا معنی کسی سے بری اور بیزار ہونا ہے اور اس سورت کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین سے بری اور بیزار ہیں۔ آیت براءۃ من اللہ ورسولہ الی الذین عاہدتم من المشرکین (التوبہ : ١) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین کی طرف بیزاری کا اعلان ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا۔ اور اس سورت کا نام المقشقشہ ہے کیونکہ قشقشہ کا لغوی معنی ہے کسی شخص کو خارش اور چیچک کی بیماری سے نجات اور شفا دینا اور یہاں اس سے مراد ہے مسلمانوں کو منافقین سے نجات دینا، کیونکہ اس سورت میں منافقین کی سزا کے متعلق ایک آیت نازل ہوئی جس کے نتیجہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھتیس منافقوں کو نام لے لے کر مسجد نبوی سے نکال دیا۔ آیت و ممن حولکم من الاعراب منفقون و من اہل المدینۃ مردو اعلی النفاق لا تعلمہم نحن نعلمہم سنعذبہم مرتین ثم یردون الی عذاب عظیم (التوبہ : ١٠١) اور تمہارے گرد بعض دیہاتی منافق ہیں اور مدینہ والوں میں سے بعض لوگ نفاق کے خوگر اور عادی ہیں، آپ انہیں (از خود) نہیں جانتے، انہیں ہم جانتے ہیں، عنقریب ہم انہیں وہ عذاب دیں گے، پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی ١٣٦٩ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اخروی عذاب عظیم سے قبل منافقین کم از کم دو بار ضرور عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے، ایک عذاب قبر، دوسرا وہ عذاب جو اسی دنیاوی زندگی میں پہنچ کر رہے گا، مثلاً (حضرت) ابن عباس کی ایک روایت کے موافق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمعہ کے روز منبر پر کھرے ہو کر تقریباً چھتیس آدمیوں کو نام بنام پکار کر فرمایا : اخرج فانک منافق یعنی تو منافق ہے مسجد سے نکل جا۔ یہ رسوائی ایک قسم عذاب کی تھی۔ اور اس کا نام البحوث ہے کیونکہ اس میں منافقین کے احوال سے بحث کی گئی ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام المنقرۃ ہے کیونکہ تتقیر کا معنی لغت میں بحث اور تفتیش ہے اور اس کا نام المبعثرۃ اور المثیرۃ ہے، کیونکہ ان کا لغت میں معنی کسی مخفی چیز کو ظاہر کرنا ہے اور اس سورت میں ان کے مخفی نفاق کو ظاہر کیا گیا ہے اور الحافرہ کا مجازی معنی بحث ہے اور اس سورت کا نام المخزیہ اور الفاضحہ ہے، کیونکہ ان کا معنی رسوا کرنا ہے اور جب ان کے نفاق کا پردہ چاک کیا گیا تو وہ رسوا ہوگئے اور المنکلۃ، المشروۃ اور المدمدۃ کا معنی ہے ہلاک کرنے والی اور چونکہ منافقین رسوائی کے عذاب سے ہلاک ہوگئے تھے اور اس سورت میں ان کے اس عذاب کا ذکر ہے اس لیے اس سورت کے یہ اسماء ہیں اور اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورة العذاب بھی ہے۔ (عنایتہ القاضی ج ٤ ص ٢٩٦۔ ٢٩٥، موضحا، مطبوعہ دار صادر بیروت) 

سورۃ التوبہ کے اسماء

کے متعلق احادیث حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ بیان فرماتے ہیں : امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : منافق سورة ھود، سورة براء ۃ، یٰسین، الد خان اور عم یتساء لون کو حفظ نہیں کرسکتا۔ امام ابو عبید، امام سعید بن منصور، امام ابو الشیخ اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابو عطیہ الہمدانی سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے لکھا کہ سورة براءۃ کو سیکھو اور اپنی خواتین کو سورة النور سکھائو۔ امام ابن ابی شیبہ، امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں، امام حاکم نے اور امام ابن مردویہ نے حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا جس سورت کو تم سورة توبہ کہتے ہو اس کا نام سورة العذاب ہے۔ امام ابوعبید، امام ابن المنذر، امام ابو الشیخ اور امام ابن مردویہ نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا سورة التوبہ ؟ انہوں نے کہا توبہ ! بلکہ یہ الفاضحہ ہے۔ امام ابو الشیخ اور امام ابن مردویہ، زید بن اسلم (رض) سے روایت کرتے ہیں، ایک شخص نے حضرت عبداللہ سے کہا سورة توبہ ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا سورة توبہ کون سی سورت ہے ؟ انہوں نے کہا سورة البراء ۃ، حضرت ابن عمر نے فرمایا : کیا لوگوں کو یہی کچھ سکھایا گیا ہے، ہم اس سورت کو المقشقشہ کہتے تھے۔ امام ابو الشیخ نے عبداللہ بن عبید بن عمیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ سورة البراءۃ کو سورة المنقرہ کہا جاتا تھا، کیونکہ اس میں مشرکین کے دلوں کی باتوں سے بحث کی گئی ہے۔ امام ابن مردویہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ وہ سورة توبہ کو سورة العذاب کہتے تھے۔ امام ابن المنذر امام محمد بن اسحاق (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ سورة البراءۃ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں المعبرۃ کہا جاتا تھا، کیونکہ اس نے لوگوں کی پوشیدہ باتوں کو منکشف کردیا تھا۔ (الدر المنشور ج ٤ ص ١٢١۔ ١٢٠، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ) 

سورۃ التوبہ اور سورة الانفال کی باہمی مناسبت

سورة التوبہ اور سورة الانفال میں قومی مشابہت ہے کیونکہ ان دونوں سورتوں میں اسلامی ملک کے داخلی اور خارجی احکام بیان کیے گئے ہیں اور صلح اور جنگ کے اصول اور قواعد بیان کیے گئے ہیں اور مومنین صادقین اور کفار اور منافقین کے احوال بیان کیے گئے ہیں اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں اور مواثیق کا بیان کیا گیا ہے، البتہ سورة الانفال میں غیر مسلموں کے ساتھ کیے ہوئے معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور سورة التوبہ میں کفار کی طرف سے عہد شکنی کی ابتدا کی صورت میں ان معاہدوں کو تورنے کا حکم دیا ہے بلکہ اس سورت کی ابتدا ہی اس حکم سے ہوتی ہے اور ان دونوں سورتوں میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ مشرکین کو مسجد حرام میں آنے سے روکا جائے اور ان دونوں سورتوں میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور مشرکین اور اہل کتاب سے جہاد اور قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور منافقین کی سازشوں سے خبردار فرمایا ہے اسی قوی مشاہبت کی وجہ سے سورة التوبہ سورة الانفال کے تتمہ کے حکم میں ہے لیکن درحقیقت یہ دونوں مستقل الگ الگ سورتیں ہیں اور سورة التوبہ، سورة الانفال کا جز نہیں ہے، کیونکہ سورة التوبہ کے بہ کثرت اسماء ہیں جو اس سورت کو سورة الانفال سے ممیز اور ممتاز کرتے ہیں اور عہد صحابہ سے آج تک تمام مسلمان اس سورت کو سورت الانفال سے الگ شمار کرتے آئے ہیں۔ 

یزید فارسی بیان کرتے ہیں کہ ہم سے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا میں نے حضرت عثمان (رض) عنہٗ سے پوچھا : سورة الانفال مثانی سے ہے، اور سورة البراء ۃ مئین سے ہے، پھر اس کا کیا سبب ہے کہ آپ نے ان دونوں سورتوں کو ملا کر درج کیا ہے، اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی ؟ اور آپ نے اس سورت کو السبع الطوال میں درج کیا ہے، اس کا باعث کیا ہے ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک زمانہ تک لمبی لمبی سورتیں نازل ہوتی رہیں، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھنے والوں کو بلا کر فرماتے، اس آیت کو فلاں فلاں سورت میں رکھو، اور مدینہ کے ابتدائی ایام میں سورت الانفال نازل ہوئی تھی، اور سورة البراءۃ قرآن کے آخر میں نازل ہوئی تھی، اور اس کا قصہ، الانفال کے قصہ کے مشابہ تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں بیان فرمایا کہ یہ الانفال کا حصہ ہے، سو ہم نے یہ گمان کیا کہ یہ اس کا حصہ ہے، سو اس وجہ سے میں نے ان دونوں سورتوں کو ملا کر لکھا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہیں لکھا۔ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو روایت نہیں کیا۔ (المستدرک ج ٤ ص ٢٢١، حافظ ذہبی نے لکھا ہے یہ حدیث صحیح ہے، تلخیص المستدرک ج ٢ ص ٢٢١، مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٧٨٦، سنن الترمذی رقم الحدیث، ٣٠٩٧، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٠٠٧) فائدہ : سورة فاتحہ کے بعد پہلی سات سورتیں جن میں ایک سو یا اس سے زیادہ آیتیں ہیں ان کو السبع الطوال کہا جاتا ہے، وہ یہ ہیں : البقرہ، آل عمران، النساء، المائدۃ، الانعام، الاعراف اور الانفال، اور جن سورتوں میں ایک سو آیتیں ہیں، ان کو ذوات المئین کہتے ہیں، اور جن میں اس سے کم آیتیں ہوں ان کو مثانی کہتے ہیں اور ان کے بعد مفصل ہیں، سورة الحجرات سے قصار مفصل ہیں۔ اور مختارج ١ ص ٣٦٣، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٠٧ ھ)

سورۃ التوبہ کا زمانہ نزول

حضرت براء بن عازب (رض) عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورة البرائۃ مکمل نازل ہوئی اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آخری آیت نازل ہوئی وہ سورة النساء کی یہ آیت ہے : یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ، (النساء : ١٧٦) … (مسند احمد ج ٤ ص ٢٩٨، مطبوعہ دارالفکر بیروت، طبع قدیم) امام ابوالسعادات لامبارک بن محمد الشیانی المعروف بابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ نے بخاری، مسلم اور ترمذی کے حوالہ سے یہ حدیث ذکر کی ہے : حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں آخری سورت جو مکمل نازل ہوئی وہ سورة التوبہ ہے اور جو آخری آیت نازل ہوئی وہ آیت الکلالہ ہے۔ (جامع الاصول ج ١١ رقم الحدیث : ٨٨٦١، تاہم صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں کاملہ یا تامہ کا لفظ نہیں ہے، دیکھئے صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٧٤٤، ٤٦٥٤، ٤٦٠٥ اور صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦١٨، اور سنن ترمذی میں یہ روایت نہیں ہے، یہ پورا متن مسند احمد میں ہے، حافظ سیوطی نے مصنف ابن ابی شیبہ کا حوالہ بھی دیا ہے (الدر المنثورج ٤ ص ١١٩) اور اس میں صرف یہ مذکور ہے کہ قرآن مجید کی آخری آیت یستفتونک … ہے) ۔ ہجرت کے بعد اوائل مدینہ میں الانفال نازل ہوئی اور سورة البراءۃ یا التوبہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے، یہ سورة نو ہجری میں نازل ہوئی ہے، جس سال غزوہ تبوک ہوا، اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخری غزوہ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت گرمی اور مسلمانوں کی بہت تنگی اور عسرت میں غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تھے، اس وقت کھجوریں پک چکی تھیں، اس میں مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش تھی، اور اسی غزوہ سے منافقوں کے نفاق کا پردہ چاک ہوگیا تھا۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوات میں سے آخری غزوہ تھا۔ اس سورت کا ابتدائی حصہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوا جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مکہ روانہ کیا تاکہ وہ ایام حج میں مشرکین سے کیے ہوئے معاہدہ کو فسخ کرنے کا اعلان کردیں۔ یہ سورت نزول کے اعتبار سے بالاتفاق آخری سورت ہے۔ حضرت جابر (رض) کے قول کے مطابق یہ سورت سورة الفتح کے بعد نازل ہوئی ہے، اور بہ اعتبار نزول کے اس کا نمبر ١١٤ ہے۔ روایت ہے کہ یہ سورت اوائل شوال ٩ ہجری میں نازل ہوئی، ایک قول یہ ہے کہ یہ ذوالقعد ٩ ہجری میں نازل ہوئی، اس سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو امیر حج بنا کر روانہ کرچکے تھے اور جمہور کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ سورت الانعام کی طرح مکمل یکبارگی نازل ہوئی ہے، اور بعض مفسرین نے یہ ذکر کیا ہے کہ اس سورت کی بعض آیات مختلف اوقات میں نازل ہوئی ہیں اور مکمل یکبارگی نازل ہونے کی یہ توجیہہ ہے کہ اس سورت کے نزول کے دوران کوئی اور سورت درمیان میں نازل نہیں ہوئی ہے۔ اس پر روایات متفق ہیں کہ جب رمضان نو ہجری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک سے لوٹے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارادہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سال ذوالحجہ کے مہینہ میں حج کرلیں، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج میں مشرکین کے ساتھ اختلاط کو ناپسند کیا، کیونکہ وہ اپنے تلبیہ میں اپنے بنائے ہوئے خدا کے شرکاء کا بھی ذکر کرتے تھے، ان کا تلبیہ یہ تھا لبیک لاشریک لک الاشریکا ہولک تملکہ وماملک ” میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں البتہ تیرا وہ شریک ہے جس کا تو مالک ہے اور اس کے مملوک کا بھی تو مالک ہے “ اور وہ بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے تھے، اور اس وقت تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشرکین سے کیا ہوا معاہدہ قائم تھا اور مقام رسالت اس کے خلاف ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفریہ کلمات سنیں اور غیر شرعی امور دیکھیں اور ان کو تبدیل نہ کریں کیونکہ برائی کو اپنی قوت سے مٹا دینا ہی ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے۔

سورۃ التوبہ کے نزول کا پیش منظر و پس منظر

٦ ھ کو نبی ص نے حدیبیہ میں مشرکین کے ساتھ صلح اور امان کا دس سال تک کا معاہدہ کیا تھا، بنو خزاعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں داخل تھے اور بنو بکر مشرکین قریش کے عہد میں داخل تھے، پھر اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے قریش نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی۔ امام عبدالملک بن ہشام متوفی ٢١٨ ھ لکھتے ہیں : امام ابن اسحاق نے کہا غزوہ موتہ کی طرف لشکر بھیجنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمادی الآخرۃ اور رجب تک قیام فرمایا، پھر ٨ ھ میں بنو بکر نے بنو خزاعہ کے ایک شخص کو قتل کرکے اس کا مال لوٹ لیا، اور قریش نے بھی رات کو چھپ کر بنو بکر کے ساتھ مل کر قتال کیا، حتیٰ کہ بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور ان کا مال لوٹ لیا، اور انہوں نے اس معاہدہ کو توڑ دیاجو ان کے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان تھا تب عمرو بن سالم الخزاعی اور بنو کعب کا ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مدینہ میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمرو بن سالم تمہاری امدا کردی گئی ہے۔ (دلائل النبوۃ ج ٥ ص ٧، السنن الکبریٰ ج ٩ ص ٣٤) قریش نے پھر معاہدہ کی تجدید کے لیے ابوسفیان کو مدینہ بھیجا لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ کی تجدید نہیں کی) ۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام مع الروض الانف ج ٤ ص ١٤٩۔ ١٤١، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیس سے زیادہ راتوں تک طائف کا محاصرہ کیا اور ان سے بہت شدید قتال کیا، تیروں اور منجنیق سے ان پر حملہ کیا اور طائف کو فتح کرلیا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٩ ھ میں غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخری غزوہ تھا اور سورة التوبہ کی اکثر آیات اسی غزوہ میں نازل ہوئی ہیں۔ تبوک ایک مشہور مقام ہے جو مدینہ اور دمشق کے درمیان ہے اور مدینہ سے چودہ منزل پر ہے۔ غزوہ موتہ کے بعد سے رومی، مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کا پروگرام بنا رہے تھے اور قیصر روم نے غسانیوں کو اس مہم پر روانہ کیا تھا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رومیوں کے عزائم کا علم ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے از خود ان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور تیس ہزار مسلمانوں کی فوج لے کر تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ تبوک پہنچ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیس دن قیام کیا، ایلہ (خلیج عقبہ کے پاس ایک مقام) کا سردار جس کا نام یوحنا تھا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے جذیہ دینا منظور کرلیا۔ جرباء اور اذرح کے عیسائی سردار بھی حاضر ہوئے اور انہوں نے جزیہ ادا کرنا منظور کرلیا، اسی طرح ایک عرب سردار جو رومیوں کے زیر اثر تھا اس نے بھی اطاعت قبول کی، اس کا نام اکیدر تھا۔ جب تبوک کے گرد تمام عیسائی ریاستوں کے سرداروں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت قبول کرلی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہیبت سے قیصر روم اور اس کے گماشتوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہیں ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاتحانہ شان کے ساتھ مدینہ منورہ میں پہنچے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شاندار استقبال کیا گیا۔ غزوہ تبوک کی پوری تفصیل ہم انشاء اللہ اس سے متعلق آیتوں کی تفسیر میں بیان کریں گے۔ غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا ارادہ کیا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیال فرمایا کہ اپنی عادت کے مطابق ان دنوں میں مشرکین بھی حج کے لیے آئیں گے اور برہنہ طواف کریں گے اور تلبیہ میں شرکیہ کلمات پڑھیں گے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ حج کرنے کو ناپسند فرمایا، اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو مسلمانوں کا امیر بناکر بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں کو مناسک حج کی تعلیم دیں اور یہ اعلان کردیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا اور چونکہ عرب معاہدہ کے فسخ میں اصل شخص کی بات کا اعتبار کرتے تھے یا اس کے قریبی رشتہ دار کی، اس لیے حضرت ابوبکر (رض) کے پیچھے حضرت علی (رض) کو بھیجا تاکہ وہ یہ اعلان کردیں کہ اب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکوں سے بری ہیں اور حدیبیہ کا معاہدہ اب ختم ہوچکا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ١٢٨۔ ١٢٥، ملخصاً ، السیرۃ النبویہ لابن ہشام مع الروض الانف ج ٤ ص ٣٢٠۔ ٢٩١ ملخصاً ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے اور حضرت ابوبکر (رض) کو اس میں بھیجا۔ ہم منیٰ میں یہ اعلان کرنے والے تھے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا، اور نہ کوئی برہنہ بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ حمید بن عبدالرحمن نے کہا، پھر بعد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بھیجا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ براءت کا اعلان کردیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا، پھر حضرت علی (رض) نے ہمارے ساتھ قربانی کے دن منیٰ والوں میں اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک طواف کرے گا نہ برہنہ طواف کرے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٣٢٩، مطبوعہ المکتبہ العصریہ بیروت، ١٤١٨ ھ، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٤٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٩٤٦) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو براءت کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا، پھر ان کو بلایا اور فرمایا یہ اعلان صرف اسی شخص کو کرنا چاہیے جو میرے اہل سے ہو، پھر حضرت علی (رض) کو بلایا اور ان کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٣٠١، اس کی سند میں حماد بن سلمہ ہیں، بڑھاپے میں ان کا حافظہ خراب ہوگیا تھا، اسی وجہ سے امام بخاری نے ان کو ترک کردیا تھا، تقریب التہذیب ج ١ ص ٢٣٨، تہذیب التہذیب ج ٤ ص ١١، تہذیب الکمال : ١٤٨٢، لہٰذا یہ حدیث ضعیف ہے) ۔ حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو (امیر حج بنا کر) بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ ان کلمات کا اعلان کریں، پھر ان کے پیچھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بھیجا، حضرت ابوبکر (رض) ابھی راستے ہی میں تھے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی قصواء کی آواز سنی۔ حضرت ابوبکر گھبرا کر باہر آئے، انہوں نے یہ گمان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے، دیکھا تو وہ حضرت علی (رض) تھے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکتوب دیا، جس میں حضرت علی (رض) کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ان کلمات کے ساتھ اعلان کریں، پھر وہ دونوں گئے اور ان دونوں نے حج دیا، پھر حضرت علی (رض) نے ایام تشریق میں یہ اعلان کیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذمہ ہر مشرک سے بری ہوچکا ہے، اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا، اور نہ کوئی بیت اللہ میں برہنہ طواف کرے گا، اور مومن کے سوا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ حضرت علی (رض) کھڑے ہو کر یہ اعلان کرتے تھے اور جب وہ تھک جاتے تھے تو حضرت ابوبکر (رض) کھڑے ہو کر یہ اعلان کرتے تھے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٣٠٢، یہ حدیث بھی ضعیف ہے، اس کا ایک راوی سفیان بن حسین ہے، امام محمد بن سعد نے کہا یہ اپنی حدیث میں بہت خطا کرتا تھا، یعقوب بن شیبہ نے کہا یہ صادق ہے مگر اس کی حدیث میں ضعف ہے، تہذیب التہذیب ج ٤ ص ١٠٧، تہذیب الکمال رقم الحدیث : ٢٣٩٩، سفیان بن الحسین نے اس حدیث کو الحکم بن عتیبہ سے روایت کیا ہے، العجلی نے کہا اس میں تشیع تھا، امام ابن حبان نے کہا یہ تدلیس کرتا تھا، تقریب التہذیب ج ١ ص ٢٣٢، رقم : ١٤٥٨، تہذیب التہذیب ج ٢ ص ٤٣٢، تہذیب الکمال رقم : ١٤٣٧)

سورۃ التوبہ کے مسائل اور مطالب

سورة التوبہ میں مشرکین کو مسجدِحرام میں داخل ہونے اور مناسک حج ادا کرنے سے روک دیا گیا ہے، مشرکین کے ان مناصب کو معطل اور فسخ کردیا جن پر وہ زمانہ جاہلیت میں فخر کیا کرتے تھے، مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان حالت جنگ کا اعلان کردیا گیا، اہل کتاب جب تک جزیہ ادا نہ کریں ان سے بھی حالت جنگ کا اعلان کردیا گیا اور یہ کہ وہ مشرکین سے کم برے نہیں ہیں اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں ان کا مال اور ان کی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے، حرمت والے مہینوں کی تعظیم کا بیان کیا، زمانہ جاہلیت میں مشرکین اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے سال کے مہینوں کو جو آگے پیچھے کرتے رہتے تھے اس کو باطل اور منسوخ کرنا، اللہ کی راہ میں قتال کے لیے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طلب کرنے پر مسلمانوں کو جہاد کے لیے روانہ ہونے کی ترغیب دینا، یہ فرمانا کہ اللہ خود اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمانے والا ہے، جنگ حنین میں اللہ کی نصرت کو یاد دلانا، غزوہ تبوک میں لشکر اسلام کے سازوسامان اور رسد کی تیاری کے لیے مسلمانوں کو ترغیب دینا، بلاعذر غزوہ تبوک میں نہ جانے والے منافقوں کی مذمت کرنا، صدقات پر منافقوں کی حرص اور ان کے بخل پر ان کو ملامت کرنا، منافقین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت پہنچائی، پھر جھوٹی قسمیں کھا کر منکر ہوئے، انہوں نے برائی کی ترغیب دی اور نیکی سے روکا اور ضعفاء مسلمین کا مذاق اڑایا، ان کی ان کارستانیوں کا بیان کرنا، اہل کتاب پر جزیہ مقرر کرنا، اور ان کے احبار اور رہبان نے دین میں جو عقائد باطلہ شامل کردیئے تھے ان کی مذمت کرنا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کا حکم دیا ہے، مسلمانوں کو اپنے جہاد میں کافروں سے مدد لینے کی ممانعت کی ہے اور کفار اور منافقین کے لیے استغفار کرنے سے منع فرمایا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے، گزشتہ امتوں کی مثالیں بیان کی ہیں، جن منافقوں نے مسجد ضرار بنائی تھی ان کی بدنیتی کا ذکر فرمایا ہے، مسجد قبا اور مسجد نبوی کی فضیلت بیان کی ہے، اعراب (دیہاتیوں) میں سے نیکوں اور بروں کا ذکر فرمایا ہے، کفار اور منافقین کے مقابلہ میں مسلمانوں کی ان کے برعکس صفات بیان کی ہیں اور مسلمانوں کی نیک صفات کے مقابلہ میں کفار اور منافقین کی بری صفات بیان کی ہیں، اور مسلمانوں کی جزاء اور ان کی سزا کا ذکر فرمایا ہے، نیز حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور مہاجرین اور انصار اور ان کی اتباع بالاحسان کرنے والے مسلمانوں کی فضیلت کا ذکر فرمایا ہے اور اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے، توبہ کرنے اور نیک کام کرنے کی ترغیب دی ہے، اور جہاد کے فرض کفایہ ہونے کے متعلق آیات ہیں، غزوہ حنین میں مسلمانوں کی مایوسی کے بعد ان کی مدد کرنے کی نعمت کو یاد دلایا ہے، غزوہ تبوک اور اس کے لشکر کی اہمیت بیان فرمائی ہے، جن تین مسلمانوں نے بغیر کسی عذر کے غزوہ تبوک میں اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے شرکت نہیں کی تھی، ان کی ندامت اور تنگی کے بعد ان کی توبہ قبول فرمانے کا ذکر فرمایا ہے، اور مسلمانوں پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا جس کی ہر صفت میں ان کے لیے رحمت، خیر اور برکت ہے، زکوٰۃ کی مشروعیت کو بیان فرمایا ہے اور علم دین حاصل کرنے کو فرض کفایہ قرار دیا ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جو علم دین حاصل کرے پرھ اس کی تبلیغ اور نشرواشاعت کرے۔ سورة التوبہ کے اس تعارف کو پیش کرنے کے بعد اب ہم اس کی تفسیر شروع کرتے ہیں، ہم اس سورت کی تفسیر میں کتب حدیث، کتب سیرت اور کتب فقہ سے زیادہ تر مواد پیش کریں گے، ہماری کوشش ہوگی کہ ہمارے قارئین کو زیادہ سے زیادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت تک رسائی ہوجائے، فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق۔

سورۃ التوبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھنے کی توجیہات

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا میں نے حضرت عثمان (رض) سے پوچھا : سورة الانفال مثانی (جس سورت میں ایک سو سے کم آیتیں ہوں) سے ہے اور سورة البراء ۃ مئین (جس سورت میں ایک سو یا اس سے زیادہ آیتیں ہیں) میں درج کیا ہے، اس کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت عثمان (رض) تعالیٰ نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک زمانہ تک لمبی لمبی سورتیں نازل ہوتی رہیں، جب بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی چیز نازل ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی لکھنے والے کو بلاتے اور فرماتے ان آیات کو فلاں فلاں نام کی سورتوں میں لکھ دو ، اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے اس آیت کو فلاں نام کی سورت میں لکھ دو ، اور سورة الانفال مدینہ کے اوائل میں نازل ہوئی تھی، اور سورة البراءۃ قرآن کے آخر میں نازل ہوئی ہے، اور التوبہ کا قصہ الانفال کے قصہ کے مشابہ تھا، پس میں نے گمان کیا کہ سورة البراءۃ الانفال کا جز ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصال فرما گئے اور انہوں نے ہم سے یہ نہیں بیان فرمایا کہ سورة التوبہ سورة الانفال کا جز ہے، پس اس وجہ سے میں نے ان دونوں سورتوں کو ملا کر رکھا، اور میں نے ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر نہیں لکھی اور میں نے اس سورت کو السبع الطوال میں درج کردیا۔ امام ابو عیسیٰ الترمذی متوفی ٢٧٩ ھ نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ہمارے علم کے مطابق حضرت ابن عباس (رض) سے اس حدیث کو صرف یزید فارسی نے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ یزید فارسی یزید بن ہرمز ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث ٣٠٩٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٧٨٦، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٠٠٧، المستدرک ج ٢ ص ٢٢١، حافظ ذہبی نے لکھا ہے یہ حدیث صحیح ہے، تلخیص المستدرک ج ٢ ص ٢٢١) حافظ جمال الدین ابو الحجاج یوسف المزی المتوفی ٧٤٢ ھ لکھتے ہیں : امام عبدالرحمن بن ابی حاتم نے کہا ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ یزید بن ہرمز، یزید فارسی ہے یا نہیں، عبدالرحمن بن مہدی نے کہا یزید فارسی ہی ابن ہرمز ہے، امام احمد بن حنبل (رح) نے بھی اسی طرح کہا ہے، یحییٰ بن سعید القطان نے اس کا انکار کیا ہے کہ یہ دونوں ایک ہیں، انہوں نے کہا یہ شخص امراء کے ساتھ ہوتا تھا، ابو ہلال نے کہا یہ شخص عبید اللہ بن زیاد کا منشی تھا، امام ابن ابی حاتم نے کہا کہ یزید بن ہرمز، یزید فارسی نہیں ہے۔ (تہذیب الکمال ج ٢٠ ص ٣٩٤۔ ٣٩٣، رقم : ٧٦٥٦، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٤ ھ) حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ کی بھی یہی تحقیق ہے کہ یزید فارسی یزید بن ہرمز نہیں ہے۔ (تہذیب التہذیب ج ١١ ص ٣٢١، تقریب التہذیب ج ٢ ص ٣٣٣) اس بحث سے یہ معلوم ہوگیا کہ یہ متعین نہیں ہوسکا کہ اس حدیث کا راوی یزید فارسی ہے یا یزید بن ہرمز۔ سند پر بحث کے علاوہ اس حدیث کا متن بھی مخدوش ہے، امام رازی نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر اس بات کو جائز قرار دیا جائے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں بتایا تھا کہ سورة التوبہ کو سورة الانفال کے بعد رکھاجائے اور بعض سورتوں کی ترتیب وحی کے موافق نہیں کی گئی بلکہ صحابہ (رض) نے اپنے اجتہاد سے ان میں ترتیب قائم کی تھی تو باقی سورتوں میں بھی یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ ان کی ترتیب بھی وحی سے نہ کی گئی ہو، بلکہ ایک سورت کے آیات میں بھی یہ احتمال ہوگا کہ ان آیتوں کی ترتیب بھی صحابہ (رض) نے اپنی رائے سے قائم کی ہو اور اس سے رافضیوں کے اس عقیدہ کو تقویب ہوگی کہ قرآن مجید میں زیادتی اور کمی کا ہونا جائز ہے اور پھر قرآن مجید حجت نہیں رہے گا اس لیے صحیح یہی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی سے مطلع ہو کر خود یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اس سورت کو سورة الانفال کے بعد رکھا جائے اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی سے مطلع ہو کر اس سورت کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہ لکھنے کا حکم فرمایا تھا۔ (تفسیر کبیر ج ٥ ص ٥٢١، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ) سورة التوبہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھنے کی صحیح وجہ تو یہی ہے جو امام رازی نے ذکر فرمائی ہے، اس کے علاوہ علماء کرام نے اور بھی توجیہات کی ہیں جو حسب ذیل ہیں : حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے پوچھا کہ سورة البراءۃ کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں لکھی گئی ؟ انہوں نے فرمایا اس لیے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم امان ہے اور البراء ۃ میں تلوار سے مارنے کی آیتیں ہیں اس میں امان نہیں ہے۔ (المستدرک ج ٢ ص ٣٣١، مطبوعہ دار الباز مکہ المکرمہ) مبرد سے بھی ایسی ہی توجیہ مروی ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم رحمت ہے اور البراءۃ اظہار غضب سے شروع ہوتی ہے، اسی کی مثل سفیان بن عیینہ نے کہا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم رحمت ہے اور رحمت امان ہے اور یہ منافقین اور تلوار کے متعلق نازل ہوئی ہے اور منافقین کے لیے امان نہیں ہے اور صحیح یہ ہے کہ اس سورت سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اس لیے نہیں لکھا گیا کہ اس سورت سے پہلے جبریل بسم اللہ الرحمن الرحیم کو لے کر نازل نہیں ہوئے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٨ ص ٤٠، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ صحاب کرام (رض) کا اس میں اختلاف تھا کہ الانفال اور التوبہ الگ سورتیں ہیں یا دونوں مل کر ایک سورت ہیں، کیونکہ مجموعی طور پر ان کی آیات دو سو چھ (٢٠٦) ہیں اور یہ طوال میں سے ایک ہیں، اور ان دونوں سورتوں میں قتال اور مغازی کا مضمون ہے، اس اختلاف کی بناء پر انہوں نے ان دونوں سورتوں کے درمیان خالی جگہ رکھی تاکہ اس سے ان لوگوں کے قول پر تنبیہہ ہو جو کہتے ہیں کہ یہ دو سورتیں ہیں اور سورة التوبہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی تاکہ ان لوگوں کے قول پر تنبیہہ ہو جو یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں مل کر ایک سورت ہیں، تو انہوں نے ایسا عمل کیا جو صحابہ کرام (رض) کے اس اختلاف اور اشتباہ پر دلالت کرتا ہے، اور ان کا یہ عمل اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ دین کو منضبط کرنے میں اور قرآن مجید کو تغیر اور تحریف سے محفوظ رکھنے میں بہت متشدد تھے، اس سے رافضیوں کا قول باطل ہوجاتا ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سورة التوبہ اور سورة الانفال دونوں مل کر ایک سورت ہیں، ان کے قول کی اس سے تائید ہوتی ہے کہ سورة الانفال کے آخر میں ہے مومن ایک دوسرے کے ولی اور وارث ہیں اور وہ کفار سے بالکل منقطع ہیں۔ سورة التوبہ براءۃ من اللہ ورسولہ سے شروع ہوتی ہے اور التوبہ کی ابتداء الانفال کے آخر کی تاکید ہے کیونکہ برأت کا معنی ہے عصمت اور حفاظت کا منقطع ہونا تو الانفال کا آخر اور التوبہ کا اوّل دونوں کا حاصل مسلمانوں کا مشرکین کی ولایت اور ان کی حفاظت کو منقطع کرنا ہے۔ (غرائب القرآن و رغائب الفرقان ج ٣ ص ٤٢٨، مطبوعہ ١٤١٦ ھ)

سورۃ التوبہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنے میں مذاہب ائمہ

سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : علامہ سخاوی سے جمال القراء میں یہ منقول ہے کہ سورة التوبہ کے اوّل میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ترک کرنا مشہور ہے اور عاصم کی قرأت میں سورة التوبہ کے اوّل میں بسم اللہ الرحمن الرحیم مذکور ہے، اور قیاس کا بھی یہی تقاضا ہے کیونکہ بسم اللہ کو یا تو اس لیے ترک کیا جائے گا کہ اس سورت میں تلوار سے قتل کرنے کے احکام نازل ہوئے ہیں یا اس وجہ سے بسم اللہ کو ترک کیا جائے گا کہ صحابہ کرام (رض) کو یہ یقین نہیں تھا کہ سورة التوبہ مستقل سورت ہے یا سورة الانفال کا جز ہے، اگر پہلی وجہ ہو تو پھر بسم اللہ کو ترک کرنا ان لوگوں کے ساتھ مختص ہوگا جن کو کفار اور منافقین کے قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور ہم تو سورة التوبہ کو تبرکاً پڑھتے ہیں، اور اگر بسم اللہ کو اس وجہ سے ترک کیا گیا ہے کہ یہ سورة الانفال کا جز ہے تو سورتوں کے اجزاء اور بعض آیات کو پڑھنے سے پہلے بھی تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا جائز ہے اور روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مصحف میں سورة التوبہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم مذکور ہے۔ ابن منادر کا موقف ہے کہ سورة التوبہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا چاہیے اور الاقناع میں بھی اس کا جواز لکھا ہوا ہے، اور صحیح یہ ہے کہ سورة التوبہ سے پہلے بسم اللہ کو نہ پڑھنا مستحب ہے کیونکہ حضرت عثمان (رض) کے مصحف میں سورة التوبہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم مذکور نہیں ہے، اور اس کے سوا اور کسی مصحف کی اقتداء نہیں کی جاتی، بعض مشائخ شافعیہ نے یہ کہا ہے کہ سورة التوبہ سے پہلے بسم اللہ کو پڑھنا حرام ہے اور اس کا ترک واجب ہے، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص سورت کے درمیان سے قرأت شروع کرے پھر بھی قرأت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (روح المعانی جز ١٠ ص ٤٢، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت) ۔ میری رائے میں علامہ آلوسی کی یہ دلیل صحیح نہیں ہے اور سورة التوبہ کے اوّل کو سورت کے درمیان سے قرأت پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ سورة التوبہ کے اوّل میں بسم اللہ کو نہ پڑھنا مصحف عثمان (رض) کے مطابق ہے اور ظاہر یہ ہے کہ ان کا یہ عمل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع پر محمول ہے لہٰذا سورة التوبہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہ پڑھنا توقیفی ہے اور اتباع سنت ہے جبکہ کسی سورت کے درمیان سے جب قرأت کی جائے تو وہاں بسم اللہ کو نہ پڑھنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ بسم اللہ کو پڑھنے کی دلیل موجود ہے کیونکہ قرآن مجید خواہ کہیں سے پڑھا جائے ایک مہتم بالشان کام ہے اور ہر مہتم بالشان کام سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہر وہ مہتم بالشان کام جس کو بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے وہ ناتمام رہتا ہے۔ حافظ سیوطی نے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن فضائل اعمال میں احادیث ضعیفہ معتبر ہیں۔ (الجماع الصغیر ج ٢ ص ٢٧٧، رقم : ٦٢٨٤، الجامع الکبیر ج ٦ ص ٤٣٠، رقم : ١٥٧٦١، تاریخ بغداد ج ٥ ص ٧٧، کنز العمال ج ١، رقم الحدیث : ٢٤٩١) حافظ سیوطی نے کہا ہے اس حدیث کو عبدالقادر رہادی نے اپنی اربعین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ فائدہ : جس طرح بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ابتداء کے متعلق حدیث ہے اسی طرح الحمدللہ سے ابتداء کے متعلق بھی حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہر وہ مہتم بالشان کام جس کو الحمدللہ سے شروع نہ کیا جائے وہ ناتمام رہتا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٨٤٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨١٤، مسند احمد ج ٣ رقم الحدیث : ٨٧٢٠، سنن کبریٰ للیہقی ج ٣ ص ٢٠٩) ان دونوں حدیثوں میں اس طرح موافقت کی گئی ہے کہ بسم اللہ سے ابتداء، ابتداء حقیقی پر محمول ہے اور الحمدللہ سے ابتداء، ابتداء اضافی یا ابتداء عرفی پر محمول ہے اور یہی اسلوب قرآن مجید کے مطابق ہے۔ اس لیے ہر اس کام کو جو شرعاً محمود ہو بسم اللہ سے شروع کرنا چاہیے البتہ جو کام شرعاً مذموم ہو اس کی ابتداء بسم اللہ سے کرنا جائز نہیں ہے۔

سورۃ التوبہ کے مدنی ہونے سے بعض آیتوں کا استثناء

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) ، قتادہ اور بہت سے علماء نے یہ کہا ہے کہ سورة التوبہ مدنی سورت ہے، ابن الفرس نے کہا یہ سورت مدنی ہے لیکن اس کی آخری دو آیتیں لقد جاء کم رسول من انفسکم اور فان تولوا فقل حسبی اللہ (التوبہ : ١٢٩۔ ١٢٨) یہ دو آیتیں مکہ میں نازل ہوئی ہیں، لیکن اس پر یہ اشکال ہے کہ حاکم نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے روایت کیا ہے اور امام ابوالشیخ نے اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قرآن مجید کی آخری آیت جو نازل ہوئی ہے وہ لقد جاء کم رسول من انفسکم ہے۔ اور دوسرے علماء نے ان دو آیتوں کا استثناء کیا ہے ماکان للنبی والذین اٰمنوا ان یستغفرو اللمشرکین۔ الایہ (التوبہ : ١١٤۔ ١١٣) کیونکہ یہ دو آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو طالب سے یہ فرمایا تھا : میں تمہارے لیے ضرور اس وقت تک اسغفار کرتا رہوں گا جب تک کہ مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے اور یہ آیتیں ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی تھیں۔ (روح المعانی جز ١٠ ص ٤٠، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت) 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ان مشرکین سے اعلان برأت (بیزار) ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا۔ سو (اے مشرکو ! ) اب تم (صرف) چار ماہ (آزادی سے) چل پھر لو اور یقین رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔ اور سب لوگوں کو اللہ او اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان ہے کہ حج اکبر کے دن، اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بھی) پس اگر تم توبہ کرلو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم اعراض کرتے ہو تو تم یقین رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری دیجئے۔ (التوبہ : ٣۔ ١)

مشکل اور اہم الفاظ کے معانی براء ۃ :

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ نے لکھا ہے براءۃ کا اصل معنی یہ ہے کہ انسان اس چیز سے منفصل ہوجائے جس سے اتصال اس کو ناپسند ہو، اس لیے کہا جاتا ہے کہ میں مرض سے بری ہوگیا اور میں فلاں شخص سے بری ہوں، قرآن مجید میں ہے :

انتم بریئون مما اعمل وانا برءی مما تعملون۔ (یونس : ٤١ )

ترجمہ : تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے اعمال سے بری ہوں۔ (المفردات ج ١ ص ٥٧، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ) مرض سے بری ہونے کا معنی ہے مرض سے نجات پانا، عہد سے بری ہونے کا معنی ہے عہد کو ختم کرنا یا فسخ کرنا، گناہ سے بری ہونے کا معنی ہے گناہ کو ترک کرنا، قرض سے بری ہونے کا معنی ہے قرض کو ساقط کرنا۔

عاہدتم : عہد کا معنی ہے کسی چیز کی بتدریج رعایت اور حفاظت کرنا، وہ پختہ وعدہ جس کی رعایت کرنا لازم ہو اس کو بھی عہد کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے :

واوفوا بالعہد ان العہد کان مسئولا۔ (بنو اسرائیل : ٣٤)

ترجمہ : پختہ وعدہ کو پورا کرو، بیشک پختہ وعدہ کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اللہ سے کیا ہواپختہ وعدہ کبھی ہماری عقلوں میں مقرر ہوتا ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ کتاب اور سنت کے واسطے سیہم سے پختہ وعدہ لیتا ہے، اور کبھی ہم کسی چیز کو از خود اپنے اوپر لازم کرلیتے ہیں اور شریعت نے اس چیز کو ہم پر لازم نہیں کیا تھا، اس کی مثال نذریں ہیں، قرآن مجید میں ہے :

ومنھم من عہد اللہ۔ (التوبہ : ٧٥)

ترجمہ : اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا۔ اصطلاح شروع میں معاہد، ذمی کو کہتے ہیں یعنی مسلمان جس کافر سے جزیہ لے کر اس کے جان و مال کی حفاظت کا ذمہ لیں اور اس کی حفاظت کا عہد کریں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی مسلمان کو کافر کے بدلہ قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ معاہد (ذمی) کو اس کے عہد میں قتل کیا جائے گا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٥٠٦، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٤١٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦٦٠، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٩٩٦، سنن کبریٰ للیہقی ج ٨ ص ٣٠) (المفردات ج ٢ ص ٤٥٥، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ) خلاصہ یہ ہے کہ دو فریق چند شرائط کے ساتھ جس عقد کا التزام کریں اس کو معاہدہ کہتے ہیں، یہاں معاہدین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بغیر کسی مدت کے تعین کے عہد کیا تھا، یا جن لوگوں کا عہد چار ماہ کی مدت سے کم تھا، سو ان دونوں کو چار ماہ مکمل کرنے کی مہلت دی گئی اور جن لوگوں کا عہد چار ماہ سے زیادہ کی مدت کے لیے تھا (حدیبیہ میں مشرکین سے دس سال کی مدت کے لیے معاہدہ کیا گیا تھا) لیکن انہوں نے عہد کی خلاف ورزی کی ان کو بھی صرف چار ماہ کی مہلت دی گئی اور جن لوگوں نے عہد کی پابندی کی، ان کے ساتھ ان آیتوں میں مدت عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فسیحوا فی الارض : ساحۃ کھلی جگہ کو کہتے ہیں، مکان کے صحن کو بھی ساحۃ کہتے ہیں۔ جو پانی کھلی جگہ میں مسلسل بہتا رہتا ہو اس کو سائح کہتے ہیں، جو شخص مسلسل بہتے ہوئے پانی کی طرح آزادی سے چلتا رہتا ہو اس کو بھی سائح کہتے ہیں اور اس کو سیاح بھی کہتے ہیں۔ (المفردات ج ١ ص ٣٢٤، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ) اس سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں سے بغیر تعین مدت کے عہد کیا تھا یا جن سے چار ماہ سے کم مدت کا عہد تھا ان لوگوں کو اس مدت میں امان کے ساتھزمین میں چلنے کی مہلت ہے۔ اس مدت کی ابتداء زہری کے قول کے مطابق شوال ٩ ھ سے ہوئی، کیونکہ سورة التوبہ شوال میں نازل ہوئی تھی، اور پھر چار ماہ کے بعد تمہارے لیے امان نہیں ہوگی۔ سیاحت کے معنی زمین میں آزادی کے ساتھ چلنا ہے۔ الحج الاکبر : حج کا معنی لغت میں زیارت کا قصد کرنا ہے، اور اصطلاح شرع میں بیت اللہ کی زیارت کا قصد کرنا ہے اور ٩ ذوالحج کو احرام باندھے ہوئے میدان عرفات میں وقوف کرنا اور ٩ تاریخ کے بعد طواف زیارت کرنا ہے، یہ حج کے ارکان ہیں، اس کے علاوہ حج کی شرائط، حج کے واجبات، سنن، آداب اور موانع ہیں جن کی تفصیل ہم البقرہ : ٩٦ اور آل عمران : ٩٧، ٩٦ میں بیان کرچکے ہیں۔ علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ نے لکھا ہے کہ حج اکبر سے مراد یوم قربانی اور یوم عرفہ ہے اور روایت ہے کہ عمرہ حج اصغر ہے۔ (المفردات ج ١ ص ١٤١، مجمع بجار الانوار ج ١ ص ٤٤٢، مطبوعہ مدینہ منورہ) اور زبان زد خلائق ہے کہ جس سال نو ذوالحج جمعہ کے دن ہو وہ حج اکبر ہوتا ہے اور اس کا ثواب ستر حجوں کے برابر ہے، اس کی تحقیق ہم انشاء اللہ اس آیت کی تفسیر میں کریں گے۔

آیات سابقہ سے مناسبت سورة الانفال میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا :

واما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیہم علی سوآء ط ان اللہ لا یحب الخائنین۔ (الانفال : ٥٨ )

ترجمہ : اور اگر آپ کسی قوم سے عہد شکنی کرنے کا خطرہ محسوس کریں تو ان کا عہد ان کی طرف برابر سرابر پھینک دیں، بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اور سورة التوبہ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں مشرکین سے مسلمانوں کے کیے ہوئے معاہدہ کو فسخ کرنے کا اعلان فرما دیا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ٦ ھ میں مسلمانوں نے مشرکین سے حدیبیہ میں صلح کی تھی، پھر ٩ ھ میں بنو ضمرہ اور بنو کنانہ کے سوا سب نے عہد شکنی کی، تب مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ مشرکین سے کیے ہوئے معاہدہ سے بری الذمہ ہوجائیں، اور ان کو چار ماہ کی مہلت دی، اس کے بعد یہ حکم دیا گیا کہ اگر مشرکین اسلام قبول کرلیں تو فیہا ورنہ ان کو قتل کردیا جائے، مشرکین اس انتظار میں تھے کہ روم اور ایران کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کیا جائے تو اس دوران مسلمانوں پر حملہ کر کے مسلمانوں کو ہزیمت سے دوچار کردیا جائے، لیکن اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت کے آنے سے پہلے ہی ان کی بساط ان پر الٹ دی اور ان سے اعلان براءت کرکے انہیں اس پر مجبور کردیا کہ یا تو وہ اسلام قبول کرلیں یا مسلمانوں سے لڑ کر فنا کے گھاٹ اتر جائیں، پھر وہ وقت آیا کہ ان کی آنکھوں نے دیکھ لیا کہ اس وقت کی دو بڑی طاقتیں فارس و روم بھی مسلمانوں کی قوت کے سامنے سرنگوں ہوگئیں اور جو یہ چاہتے تھے کہ قیصر و کسریٰ کی یلغار کے سامنے مسلمان تنوں کی طرح بہہ جائیں، انہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کی قوت کے سامنے قیصر و کسریٰ تنکوں کی طرح بہہ گئے اور یوں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حکمت اور تدبیر سے ان کی بازی ان پر الٹ گئی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 1