أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كَيۡفَ وَاِنۡ يَّظۡهَرُوۡا عَلَيۡكُمۡ لَا يَرۡقُبُوۡا فِيۡكُمۡ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً‌ ؕ يُرۡضُوۡنَـكُمۡ بِاَفۡوَاهِهِمۡ وَتَاۡبٰى قُلُوۡبُهُمۡ‌ۚ وَاَكۡثَرُهُمۡ فٰسِقُوۡنَ‌ۚ ۞

ترجمہ:

ان کے عہد کا کیسے اعتبار ہوسکتا ہے، جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ جب وہ تم پر غالب ہوں تو وہ نہ تمہاری رشتہ داری کا لحاظ کریں گے اور نہ تم سے کیے ہوئے عہد کا پاس کریں گے وہ تمہیں صرف اپنی زبانی باتوں سے خوش کرتے ہیں اور ان کے دل اس کے خلاف ہیں، اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان کے عہد کا کیسے اعتبار ہوسکتا ہے، جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ جب وہ تم پر غالب ہوں تو وہ نہ تمہاری رشتہ داری کا لحاظ کریں گے اور نہ تم سے کیے ہوئے عہد کا پاس کریں گے وہ تمہیں صرف اپنی زبانی باتوں سے خوش کرتے ہیں، اور ان کے دل اس کے خلاف ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں انہوں نے تھوڑی قیمت کے عوض اللہ کی آیتوں کو فروخت کردیا، پھر اللہ کے راستہ سے روکا بیشک وہ بہت برے کام کرتے تھے وہ نہ کسی مومن کی رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہیں نہ اس کے کسی عہد کا پاس کرتے ہیں اور یہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں (التوبہ : ١٠۔ ٨)

مشکل اور اہم الفاظ کے معانی :

وان یظھروا علیکم :

ظہر کا معنی ہے جسم کی پشت، جس سے قوت حاصل ہو اس کے لیے بھی ظہر کا استعارہ کیا جاتا ہے۔ ظھر علیہ کا معنی ہے اس پر غالب ہوا۔ (المفردات ج ٢ ص ٤١٣) وان یظھروا علیکم کا معنی ہے اگر وہ تم پر فتح اور غلبہ حاصل کریں۔ لیظھرہ علی الدین کلہ۔ (التوبہ : ٣٣) تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے، ظہر کا معنی کسی چیز کو ظاہر کرنا بھی ہے، اس میں نکتہ یہ ہے کہ جس شخص کو دوسرے پر غلبہ حاصل ہوتا ہے اس کو ایک کمال حاصل ہوتا ہے اور جس کے پاس کوئی کمال ہو وہ اس کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اور جو شخص مغلوب ہو اس کو نقص حاصل ہوتا ہے، اور نقص کو انسان چھپانا چاہتا ہے اس لیے ظہور، غلبہ اور کامیابی سے کنایہ ہوگا۔

لایرقبوا فیکم :

رقب کا معنی گردن ہے، پھر رقبہ کو غلام سے کنایہ کیا گیا، رقیب کا معنی محافظ ہے قرآن مجید میں ہے : الالدیہ رقیب عتید۔ (ق : ١٨) مگر اس کے پاس اس کا محافظ (نگہبان) لکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے، مرقب اس بلند جگہ کو کہتے ہیں جس پر کھڑ اہو کر نگہبان کسی کو جھانک کر دیکھتا ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٢٦٥) اس لیے رقوب کا معنی انتظار کرنا بھی ہے۔ وارتقبوا انی معکم قریب۔ (ھود : ٩٣) اور انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والا ہوں، اس آیت میں اس کا معنی حفاظت کرنا ہے یعنی وہ تمہارے قرابت کی حفاظت کریں گے اور نہ تمہارے عہد کی حفاظت کریں گے۔ ا

لًّا : الّ کا معنی ہے صاف شفاف اور چمک دار چیز، جب گھوڑا تیز دوڑے یا بجلی چمکے تو الّ کہا جاتا ہے، قسم کھا کر عہد کیا جائے یا قرابت کو بھی اِلّ کہا جاتا ہے اور چونکہ عہد بھی غدر سے صاف اور چمکدار ہوتا ہے اس لیے اس کو بھی اِلّ کہتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ الّ اور ایل اللہ تعالیٰ کے اسماء ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٢٥ ) ۔

ذمہ : ذمہ کا معنی ہے عہد، یعنی ہر وہ کام جو کسی شخص کو لازم ہو اور اس کے ترک کرنے کی وجہ سے اس کی مذمت کا سامنا ہو اس کو ذمہ کہتے ہیں۔ یرضونکم بافواھھم و تابی قلوبھم : یعنی وہ اپنی زبانوں سے میٹھی باتیں کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں اس کے خلاف ہوتا ہے، کیونکہ ان کے دلوں میں صرف شر اور فساد ہوتا ہے اگر ان کو موقع ملے تو وہ مسلمانوں کو زک پہنچانے میں کوئی کمی نہ کریں۔

بعض سوالوں کے جوابات :

اللہ تعالیٰ نے التوبہ : ٨ کے آخر میں فرمایا ہے : اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں، اس پر یہ اعتراض ہے کہ ان لوگوں سے مراد ہیں مشرک اور کافر اور شرک اور کفر فسق سے بہت بڑا گناہ ہے تو مشرکین کی مذمت میں فسق کی صفت ذکر کرنا کیسے مناسب ہو گ، اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مشرکین اور کفار اپنے دین کے قواعد کے لحاظ سے نیک ہوتے ہیں مثلاً وہ امانت دار ہوں، سچ بولتے ہوں اور عہد پورا کرتے ہوں، اور بعض مشرکین اپنے دین کے قواعد کے اعتبار سے بھی بدکار اور اخبث ہوتے ہیں۔ مثلاً وہ جھوٹ بولتے ہوں اور عہد شکنی کرتے ہوں، سو یہ مشرکین شرک کرنے کے علاوہ اپنے دین کے قواعد کے اعتبار سے بھی فاسق ہیں۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں، تو کیا تمام مشرک فاسق نہیں ہیں۔ اس کا جواب بھی پہلے اعتراض کے جواب سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ مشرکین میں سے بعض لوگ اپنے دین کے قواعد کے اعتبار سے نیک ہوتے ہیں۔ مثلاً امانت دار ہوں، سچے ہوں اور عہد پورا کرنے والے ہوں لیکن مشرکین میں سے اکثر فاسق ہوتے ہیں جو جھوٹے، خائن اور عہد شکن ہوتے ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 8