أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَوۡ كَانَ عَرَضًا قَرِيۡبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوۡكَ وَلٰـكِنۡۢ بَعُدَتۡ عَلَيۡهِمُ الشُّقَّةُ ‌ ؕ وَسَيَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسۡتَطَعۡنَا لَخَـرَجۡنَا مَعَكُمۡ ۚ يُهۡلِكُوۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ‌ ۚ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ ۞

ترجمہ:

تو (اے رسول مکرم آپ نے جس طرف نکلنے کے لیے کہا تھا) اگر وہ سہل الحصول مال ہوتا اور متوسط سفر ہوتا تو (یہ منافقین) ضرور آپ کے پیچھے چل پڑتے لیکن دور دراز کا سفر ان کو بھاری لگا، اور عنقریب یہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں طاقت ہوتی تو ہم ضرور آپ کے ساتھ روانہ ہوتے وہ اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (اے رسول مکرم ! آپ نے جس طرف نکلنے کے لیے کہا تھا) اگر وہ سہل الحصول مال ہوتا اور متوسط سفر ہوتا تو (یہ منافقین) ضرور آپ کے پیچھے چل پڑتے لیکن دور دراز کا سفر ان کو بھاری لگا، اور عنقریب یہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں طاقت ہوتی تو ہم ضرور آپ کے ساتھ روانہ ہوتے، وہ اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں (التوبہ : ٤٢ )

سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلیل :

یہ آیت ان منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو غزوہ تبوک میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے تھے، اور اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر مسافت قریب ہوتی اور مال غنیمت کے منافع ملنے کا ظن غالب ہوتا تو یہ منافقین ان منافع کے لالچ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ضرور جاتے لیکن ایک تو سفر بہت دور کا تھا، دوسرے ان کے خیال میں رومی بہت طاقتور اور تعداد میں بہت زیادہ تھے اس لیے مسلمانوں کا ان پر غالب آنا اور ان سے مال غنیمت حاصل کرنا بہت مشکل تھا اس وجہ سے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس سفر میں نہیں گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد سے لوٹ کر آئیں گے تو یہ قسمیں کھا کر کہیں گے کہ اگر ہمیں طاقت ہوتی تو ہم ضرور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جاتے اور یہ ابتدائً کہیں گے تاکہ ان کے لیے غزوہ تبوک میں نہ جانے کا عذر ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے کذب اور نفاق کی وجہ سے جو جھوٹی قسمیں کھائی ہیں اس کی وجہ سے یہ اللہ کے عذاب میں ہلاک ہوجائیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کے ذریعہ پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ یہ عنقریب قسمیں کھائیں گے۔ سو یہ غیب کی خبر ہے اور پیش گوئی ہے اور پھر بعد میں انہوں نے قسمیں کھائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی سچی ہوگئی اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے صدق پر دو طرح دلیل ہے : ایک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیب کی خبر دی، دوسرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی سچی ہوئی اور یہ عظیم پیش گوئی ہے، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی پیش گوئی کی جس کا پورا ہونا یا نہ ہونا دشمن کے اختیار میں تھا۔ اگر منافقین بعد میں قسمیں نہ کھاتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی جھوٹی ہوجاتی لیکن منافقین نے قسمیں کھائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی سچی ہوگئی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 42