أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمِنۡهُمُ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ النَّبِىَّ وَيَقُوۡلُوۡنَ هُوَ اُذُنٌ‌ ؕ قُلۡ اُذُنُ خَيۡرٍ لَّـكُمۡ يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَيُؤۡمِنُ لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَرَحۡمَةٌ لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ‌ ؕ وَالَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰهِ لَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اور بعض منافقین نبی کو ایذاء پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کانوں کے کچے ہیں، آپ کہیے کہ وہ تمہاری بھلائی کے لیے ہر ایک کی بات سنتے ہیں وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں اور تم میں سے ایمان والوں کے لیے رحمت ہیں، اور جو لوگ رسول اللہ کو ایذاء پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بعض منافقین نبی کو ایذاء پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کانوں کے کچے ہیں، آپ کہیے کہ وہ تمہاری بھلائی کے لیے ہر ایک کی بات سنتے ہیں وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں اور تم میں سے ایمان والوں کے لیے رحمت ہیں اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبہ : ٦١ )

منافقین کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” کان “ کہنا اور اس پر اللہ کا رد کرنا :

اس آیت میں مذکور ہے کہ منافقین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ اُذُن (کان) ہیں۔ عربی میں اذن (کان) اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ہر اس بات کو سنے جو اس سے کہی جائے اور اس کی تصدیق کرے۔ جیسا کہ جاسوس کو وہ عین (آنکھ) کہتے ہیں۔ کیونی وہ ہر چیز کو بغور دیکھتا ہے۔ گویا کہ وہ سراپا آنکھ ہے۔ اسی طرح جو ہر بات کو سن کر اس کی تصدیق کردیتا ہے گویا کہ وہ سراپا کان ہے۔ علامہ خفاجی حنفی متوفی ١٠٦٩ ھ لکھتے ہیں : اس آیت کے شان نزول میں دو قول ہیں : ایک قول یہ ہے کہ منافقین کی ایک جماعت نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق نامناسب باتیں کہیں۔ پھر انہوں نے یہ کہا کہ ہمیں یہ خوف ہے کہ ہماری باتیں ان تک پہنچ جائیں گی۔ تب جلاس بن سوید نے کہا : ہم جو چاہیں گے کہیں گے۔ پھر اگر ان تک یہ باتیں پہنچ گئیں تو ہم قسم کھا لیں گے اور وہ ہماری بات قبول کرلیں گے کیونکہ وہ تو سراپا کان ہیں۔ اور ایک قول یہ ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ اگر (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ کہتے ہیں وہ برحق ہے تو ہم تو گدھے سے بھی بدتر ہیں۔ یہ سن کر اس کی بیوی کے بیٹے نے کہا : بخدا ! وہ برحق ہیں اور تم گدھے سے بھی بدتر ہو۔ یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچ گئی تب ان میں سے ایک شخص نے کہا : بیشک (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کان ہیں۔ اگ تم ان کے لیے حلف اٹھا لو تو وہ تمہاری تصدیق کردیں گے۔ (عنایت القاضی ج ٤ ص ٥٩١، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٧ ھ) ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا : آپ کہیے کہ وہ تمہاری بھلائی کے لیے ہر ایک کی بات سنتے ہیں۔ لیکن وہ اس طرح نہیں سنتے جس طرح تم ان کے سننے کا بطور مذمت ذکر کرتے ہو۔ بلکہ وہ نیکی کی بات سنتے ہیں اور اس کو قبول کرتے ہیں۔ آپ کے نزدیک جس بات پر دلائل قائم ہوں آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ مومنین کی باتوں کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تصدیق کرتے ہیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے خلوص کا علم ہے۔ اس میں یہ تعریض ہے کہ منافقین برے کان ہیں۔ وہ اللہ کی آیات سنتے ہیں اور ان پر ایمان نہیں لاتے۔ اور مسلمانوں کی باتیں سنتے ہیں اور ان کو قبول نہیں کرتے۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی باتیں ازراہِ شفقت سنتے ہیں۔ لیکن ان کو قبول نہیں کرتے۔ منافقین میں سے جو ایمان کا اظہار کرتا ہے اس کو قبول کرتے ہیں اور اس کا پردہ فاش نہیں کرتے اور اس میں یہ تنبیہہ ہے کہ وہ تمہارے حال سے ناواقفیت کی بناء پر تمہارے قول کو قبول نہیں کرتے۔ بلکہ تم پر شفقت اور رحمت کی وجہ سے تمہاری باتوں کو قبول کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا : اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے خیر اور رحمت ہیں۔ اور وہ بہت خبیث اور گمراہ ہیں۔ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احسان کا بدلہ برائی سے دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور شفقت ان کی بات سنی اور انہوں نے کہا کہ یہ کانوں کے کچے ہیں۔ اس لیے وہ عذاب شدید کے مستحق ہوگئے۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچانا درحقیقت اللہ کو ایذاء پہنچانا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 61