أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَوۡ يُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسۡتِعۡجَالَهُمۡ بِالۡخَيۡرِ لَـقُضِىَ اِلَيۡهِمۡ اَجَلُهُمۡ‌ؕ فَنَذَرُ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور اگر اللہ لوگوں (کی بداعمالیوں کی سزا میں ان) کو نقصان پہنچانے میں بھی اتنی جلدی کرتا جتنی جلدی وہ (دنیا کے) نفع کی طلب میں کرتے ہیں تو انہیں (کب کی) موت آچکی ہوتی (لیکن) جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں ڈھیل دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر اللہ لوگوں (کی بداعمالیوں کی سزا میں ان) کو نقصان پہنچانے میں بھی اتنی جلدی کرتا جتنی جلد وہ (دنیا کے) نفع طلب کرنے میں کرتے ہیں تو انہیں (کب کی) موت آچکی ہوتی (لیکن) جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں ڈھیل دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں (یونس : ١١)

اپنے آپ کو، اپنی اولاد کو اور اپنے اموال کو بد دعا دینے کی ممانعت :

اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس شبہ کا جواب دیا تھا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی بنانے کی کیا خصوصیت تھی، اس کے بعد درمیان میں مومنوں کا ذکر فرمایا اور اب اس آیت میں پھر مشرکین کے دوسرے شبہ کا جواب دیا ہے، وہ یہ کہتے تھے کہ اگر (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دعوی نبوت میں سچے ہیں اور ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کی مخالفت کی وجہ سے ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ! اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اگر تمہارے مطالبہ کی وجہ سے تم پر جلد عذاب بھیج دیا جاتا تو اب تک تمہارا کام تمام ہوچکا ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ تم کو اس لیے ڈھیل دیتا ہے کہ تم اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہو۔ (اللباب ج ١٠ ص ٢٧٥، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ)

مجاہد نے یہ کہا ہے کہ اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی اولاد پر غضبناک ہو تو ان کے خلاف یہ دعا نہ کرے کہ اے اللہ ! ان کو برکت نہ دے اور اے اللہ ان پر لعنت فرما ورنہ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کرلی تو وہ ان کو ہلاک کر دے گا۔ (جامع البیان جز ١١ ص ١٢٢، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٠٢٥٥)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بواط کی جنگ میں گئئے۔ آپ مجدی بن عمرو جہنی کو ڈھونڈ رہے تھے، ایک اونٹ پر ہم پانچ، چھ اور سات آدمی بار باری بیٹھتے تھے، ایک انصاری اونٹ پر بیٹھنے لگا اس نے اونٹ کو بٹھایا پھر اس پر سوار ہوا پھر اس کو چلانے لگا۔ اونٹ نے اس کے ساتھ کچھ سرکشی کی، اس نے اونٹ کو کہا شاء اللہ تجھ پر لعنت کرے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اونٹ پر لعنت کرنے والا کون شخص ہے ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! یہ میں ہوں ! آپ نے فرمایا اس اونٹ سے اتر جائو، ہمارے ساتھ کسی ملعون جانور کو نہ رکھو، اپنے آپ کو بد دعا نہ دو ، نہ اپنی اولاد کو بد دعا دو اور نہ اپنے اموال کو بد دعا دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وہ ساعت ہو جس میں اللہ کسی عطا کا سوال کیا جائے تو وہ دعا مستجاب ہوتی ہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٠٠٩)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 11