أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَا كَانَ هٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ يُّفۡتَـرٰى مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلٰـكِنۡ تَصۡدِيۡقَ الَّذِىۡ بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَتَفۡصِيۡلَ الۡكِتٰبِ لَا رَيۡبَ فِيۡهِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور قرآن ایسی چیز نہیں کہ اللہ کی وحی کے بغیر اس کو گھڑ لیا جائے لیکن یہ موجودہ (آسمانی) کتابوں کی تصدیق ہے، اور الکتاب کی تفصیل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رب العلمین کی جانب سے ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور قرآن ایسی چیز نہیں کہ اللہ کی وحی کے بغیر اس کو گھڑ لیا جائے لیکن یہ موجودہ (آسمانی) کتابوں کی تصدیق ہے، اور الکتاب کی تفصیل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رب العلمین کی جانب سے ہے کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ رسول نے اس کتاب کو خود گھڑ لیا ہے ؟ آپ کہیے کہ پھر اس کی مثل تم کوئی ایک سورت (بنا کر) لے آئو اور اللہ کے سوا جن کو تم بلا سکتے ہو ان کو (بھی) بلا لو اگر تم سچے ہو بلکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا انہیں پوری طرح علم نہیں ہوسکا تھا۔ اور ابھی تک اس کے جھٹلانے کا انجام نہیں آیا، اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا، پھر دیکھ لو ظالموں کا کیسا انجام ہوا اور ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اس پر ایمان لائیں گے اور ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اس پر ایمان نہیں لائیں گے، اور آپ کا رب فساد کرنے والوں کو خوب جاننے والا ہے۔ (یونس : ٤٠۔ ٣٧)

سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلائل :

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے توحید پر دلائل قائم کیے تھے اور شرک کا بطلان ظاہر فرمایا تھا اور ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلائل قائم کیے ہیں اور آپ کی نبوت پر جو ان کے شبہات تھے ان کا ازالہ فرمایا ہے۔ ان کا ایک شبہ یہ تھا کہ اس قرآن کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے از خود تصنیف کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کا اس طرح ازالہ فرمایا کہ یہ قرآن ایسی چیز نہیں ہے کہ اللہ کی وحی کے بغیر اس کو گھڑ لیا جائے، لیکن یہ موجودہ (آسمانی) کتابوں کی تصدیق ہے، اور اس کی حسب ذیل تقاریر ہیں :

(١) سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک امی شخص تھے، آپ نے حصول تعلیم کے لیے کسی شہر کا سفر نہیں کیا تھا، اور مکہ علماء کا شہر نہیں تھا اور نہ اس میں علم کی کتابیں تھیں، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قرآن پیش کیا جس میں پہلی امتوں اور ان کے نبیوں کی خبریں ہیں، لوگ آپ کے شدید دشمن تھے، اگر قرآن مجید کی دی ہوئی خبریں تورات اور انجیل کے موافق نہ ہوتیں تو وہ قرآن مجید پر زبردست اعتراض کرتے اور کہتے کہ آپ نے گزشتہ امتوں کے جو اواقعات بیان کیے ہیں وہ سابقہ آسمانی کتابوں کے مطابق نہیں ہیں اور جب کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا حالانکہ وہ قرآن کریم کے بہت بڑے مخالف تھے اور اس کو باطل ثابت کرنے کے در پے تھے تو معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی دی ہوئی خبریں تورات اور انجیل کے مطابق ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انبیاء سابقین اور ان کی امتوں کے احوال اور واقعات کی جو خبریں دی تھیں وہ اللہ عزو جل کی وحی سے دی تھیں لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور آپ کا بنایا ہوا نہیں ہے۔

تورات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد پر خوشخبری :

(٢) سابقہ کتابوں میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی خبر دی گئی تھی، آپ کی شریعت اور آپ کے اصحاب کے متعلق تفصیل سے بتایا گیا تھا، تورات میں ہے : اور اس نے کہا خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا، فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے دہنے ہاتھ ایک آتشیں شریعت ان کے لیے تھی۔ (کتاب مقدس، استثناء باب : ٣٣، آیت : ٢ ص ١٩٢، مطبوعہ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی، انارکلی لاہور، ١٩٢٧)

اور تورات کے عربی ایڈیشن میں یہ آیت اس طرح لکھی ہوئی ہے : اتنی من ربوات القدس۔ دس ہزار قدسیوں سے آیا۔ (مطبوعہ دارالکتاب المقدس فی العالم العربی، ص ٣٣٤، ١٩٨٠)

تورات کی یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس طرح منطبق ہوتی ہے کہ آپ دس ہزار اصحاب کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تھے، یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ آیت آپ کی نبوت پر دلیل ہے تو انہوں نے اس آیت کو بدل دیا چناچہ تورات کے موجودہ ایڈیشنوں میں انہوں نے دس ہزار کی بجائے لاکھوں لکھ دیا۔ 

قرآن مجید کی پیش گوئیاں جو مستقبل میں پوری ہوئیں :

(٣) سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید میں بہت سی ایسی غیب کی خبریں دیں جو مستقبل میں پوری ہونے والی تھیں اور پھر آپ کی دی ہوئی خبروں کے مطابق ایسا ہی ہوگیا اور آپ کی پیش گوئیوں کا صادق ہونا آپ کی نبوت کے برحق ہونے کی واضح دلیل ہے، اس نوع کی چند آیتیں حسب ذیل ہیں : الٓمٓ ١ غلبت الروم فیٓ ادنی الارض وھم من م بعد غلبھم سیغلبون فی بضع سنین الف، لام، میم، اہل روم (اہل فارس سے) قریب کی زمین میں مغلوب ہوگئے اور وہ چند سالوں میں اپنے مغلوب ہونے کے بعد غالب ہوجائیں گے۔ اس زمانہ کی دو بڑی سلطنتیں فارس (ایران) اور روم میں عرصہ دراز سے کشمکش اور جنگ چلی آرہی تھی، مکہ والوں میں بھی ان کی جنگ کے متعلق خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔ اہل فارس مجوسی اور آتش پرست تھے، اور اہل روم نصاری اور اہل کتاب تھے۔ مشرکین مکہ بت پرست ہونے کی وجہ سے ذہنی طور پر اہل فارس کے قریب تھے اور مسلمان ذہنی طور پر اہل روم کے زیادہ قریب تھے۔ ایرانیوں کی فتح کی خبر سے مشرکین خوش ہوتے تھے اور رومیوں کی فتح کی خبر سے مسلمان خوش ہوتے تھے۔ اعلان نبوت کے پانچ سال بعد ایرانیوں نے رومیوں کو ایک مہلک اور فیصلہ کن شکست دی اور بہت سے علاقے روم کے قبضہ سے نکل گئے حتی کہ بیت المقدس سے عیسائیوں کی سب سے بڑی مقدس صلیب بھی ایرانی لے گئے۔ اس خبر سے مشرکین بہت خوش ہوئے اور مسلمان مغموم ہوئے، اسوقت قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئیں اور قرآن کریم نے ایرانیوں کے خلاف رومیوں کی فتح کی پیش گوئی کی جب کہ عام اسباب ظاہری ایرانیوں کے حق میں اور رومیوں کے خلاف تھے اور پھر چھ سال کے بعد یہ پیش گوئی پوری ہوگئی اور رومی ایرانیوں پر غالب آگئے۔ قرآن مجید کی اس عظیم الشان اور محیر العقول پیش گوئی کی صداقت کا مشاہدہ کر کے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٩٤، ملحضًا)

اسی طرح قرآن مجید میں ہے : لقد صدق اللہ رسولہ الرء یا بالحقط لتدخلن المسجد الحرام ان شآء اللہ امنین محلقین رئوسکم ومقصرین لا تخافون۔ (الفتح : ٢٧) بیشک اللہ نے اپنے رسول کا خواب حق کے ساتھ سچا کر دکھایا، کہ ( اے مسلمانو ! ) تم انشاء اللہ ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے اس حال میں کہ تم بےخوف ہو گے، سروں کے بال منڈاتے ہوئے اور کترواتے ہوئے بغیر کسی ڈر کے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھا تھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اور سر منڈا کر اور بال کتروا کر حلال ہو رہے ہیں، اتفاق سے آپ نے اسی سال عمرہ کا قصد کرلیا۔ صحابہ نے عموماً یہ سمجھ لیا کہ ہم اسی سال مکہ پہنچیں گے اور عمرہ ادا کریں گے۔ مشرکین نے آپ کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیا اور بالآخر ان سے اس شرط پر صلح ہوگئی کہ اس سال واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آ کر عمرہ کرلیں۔ حضرت عمر کے استفسار پر آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ہم اسی سال عمرہ کرلیں گے، تم انشاء اللہ امن کے ساتھ مکہ پہنچ کر عمرہ کرو گے سو اگلے سال ایسا ہی ہوا۔ وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ص ولیمکنن لہم دینہم الذی ارتضی لہم و لیبدلنہم من م بعد خوفھم امنًا (النور : ٥٥) اللہ نے تم من سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو ضرور زمین میں حکومت عطا فرمائے گا، جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو حکومت عطا فرمائی تھی، اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ضرور راسخ کر دے گا جس کو اس نے ان کے لیے پسند کرلیا ہے اور اس کے بعد ان کے خوف کو ضرور امن سے بدل دے گا۔ نیک مسلمانوں کے حق میں قرآن مجید کی یہ پیش گوئی اس وقت پوری ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے خلفاء راشدین کو حکومت عطا فرمائی، حضرت عثمان (رض) کے دور خلافت میں زمین کے مشارق اور مغارب سے خراج اکٹھا کر کے مدینہ منورہ لایا جاتا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس پیش گوئی کا صدق ظاہر ہوگیا : بیشک اللہ نے میرے لیے تمام روئے زمین کو سمیٹ دیا اور میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا اور جتنی زمین میرے لیے سمیٹی گئی تھی عنقریب میری امت کی حکومت وہاں پہنچے گی۔ (ترمذی رقم الحدیث : ٢١٧٦) فرعون کے متعلق فرمایا : فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک ایۃً ۔ (یونس : ٩٢) پس ہم آج تیرے بدن کو نجات دے رہے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے ایک نشانی بن جائے۔ صدیاں گزر گئیں اور قرآن مجید کی یہ پیش گوئی آج تک صادق ہے اور فرعون کا جسم اسی طرح محفوظ ہے۔ 

قرآن مجید کے تفصیل الکتاب ہونے کا معنی :

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ الکتاب کی تفصیل ہے، قرآن مجید بنیادی طور پر ہدایت کی کتاب ہے، اس میں عقائد اور شرائع کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ عقائد میں اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے کا عقیدہ ہے اور اس کے واحد ہونے کا عقیدہ اور اس کی صفات کا عقیدہ ہے۔ ان میں اللہ تعالیٰ کی حیات، علم قدرت، کلام، سمع، بصر، ارادہ اور تکوین کی صفات ہیں۔ قرآن مجید میں ان تمام صفات اور ان کے دلائل کا ذکر ہے، اسی طرح فرشتوں کے متعلق عقائد کا ذکر ہے، اور نبیوں اور رسولوں کا تفصیل سے ذکر ہے، اور یہ کہ اللہ کے حکم سے فرشتے نبیوں پر وحی نازل کرتے ہیں، قیامت کا، حشر و نشر کا، حساب و کتاب اور جنت اور دوزخ کا ذکر ہے، اور شرائع میں عبادت کے تمام طریقوں کا بیان ہے اور اخلاق اور آداب سے متعلق احکام کا بھی ذکر ہے اور قرآن مجدی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور آپ کی احادیث کے حجت ہونے سے متعلق بھی آیات ہیں اور اس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام سنتوں کی اصل بھی قرآن مجید میں ہے اور اجماع اور قیاس کے حجت ہونے کے دلائل بھی قرآن مجید میں ہیں، گویا تمام عقائد اور شرائع کی اصل اور اساس قرآن مجید میں ہے اور ان میں سے بعض قرآن مجید میں تفصیلاً مذکور ہیں اور بعض اجمالاً مذکور ہیں یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر جزی، جزی حکم کی تفصیل قرآن مجید میں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ تمام جزئیات کے اصول اور قواعد اور ان کے دلائل کی تفصیل قرآن مجید میں ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ تمام دنیا کے علوم قرآن مجید میں ہیں، قرآن مجید اصالتاً ہدایت کی کتاب ہے، فلسفہ اور سائنس اور تاریخ اور جغرافیہ کی کتاب نہیں ہے، اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے نازل فرمایا اور اس کی تشریح اور تعبیر کے لیے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا ہے، آپ نے اس کی آیات کی تعلیم دی ہے اور ان کی تفسیر بیان فرمائی ہے اور قرآن مجید کے احکام کا عملی نمونہ پیش فرمایا ہے اور ان تمام چیزوں کا خلاصہ اللہ، اس کے نبی، فرشتوں، کتابوں، تقدیر، قیامت، حشر اور جزا اور سزاء پر ایمان لانا، نیک اعمال کرنا اور بڑے اعمال سے اجتناب کرنا ہے تاکہ انسان کی عاقبت اچھی ہوجائے اور قرآن مجید میں صرف ان ہی چیزوں کی تفصیل ہے اور اس سے یہ مراد لینا صحیح نہیں ہے۔ کہ قرآن مجید میں تمام علوم عقلیہ اور نقلیہ اور تمام حوادث اور کوائف کی تفصیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : آپ کہئے کہ پھر اس کی مثل تم کوئی ایک سورت (بنا کر) لے آئو۔ الآیہ : اس کی مفصل تفسیر البقرہ : ٢٣ میں گزر چکی ہے۔ پھر فرمایا : بلکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا انہیں پوری طرح علم نہیں ہوسکا تھا، اور ابھی تک اس کو جھٹلانے کا انجام سامنے نہیں آیا، اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا پھر دیکھ لو ظالموں کا کیسا انجام ہوا یعنی ان لوگوں نے قرآن مجید کی تکذیب کی نہ اس کو سمجھا نہ جانا، اور اس قرآن میں عقائد اور شرائع کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے اور دین حق کی جو رہنمائی کی گئی ہے نہ اس کو سمجھنے کی کوشش کی، اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ ان کی تکذیب کا نتیجہ ا بھی تک ان کے سامنے نہیں آیا۔ امام ابن جریر نے فرمایا : اس قرآن میں ان کی تکذیب پر جو وعید سنائی گئی ہے ابھی تک اس کا مصداق ان کے پاس نہیں پہنچا، اور اے محمد ! ( (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) جس طرح ان لوگوں نے اللہ کی وعید کی تکذیب کی ہے اس طرح ان سے پہلی امتوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی وعید کی تکذیب کی تھی اور اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور ان پر ایمان نہیں لائے تھے، پس آپ غور کیجئے، کہ ظالموں کا انجام کیسا ہوا ! کیا ہم نے بعض کافروں کو زلزلہ سے ہلاک نہیں کردیا اور بعض کو زمین میں دھنسا نہیں دیا اور بعض کو غرق کردیا، کیا یہ لوگ پہلے کافروں کا انجام دیکھ کر عبرت نہیں پکڑتے اور شرک اور کفر سے توبہ نہیں کرتے !

اس کے بعد فرمایا : اور ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اس پر ایمان لائیں گے اور ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ امام ابن جریر نے فرمایا : یعنی : اے محمد ! ( (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) قریش میں سے بعض وہ ہیں جو اس قرآن پر عنقریب ایمان لے آئیں گے اور بعض وہ ہیں جو اس قرآن پر کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے اور کبھی اس کا اقرار نہیں کریں گے، اور آپ کا رب ان مکذبین کو خوب جاننے والا ہے اور ان کو عنقریب اس کے عذاب کا سامنا ہوگا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 37