أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُـوۡۤا اَجِئۡتَـنَا لِتَلۡفِتَـنَا عَمَّا وَجَدۡنَا عَلَيۡهِ اٰبَآءَنَا وَتَكُوۡنَ لَكُمَا الۡكِبۡرِيَآءُ فِى الۡاَرۡضِؕ وَمَا نَحۡنُ لَـكُمَا بِمُؤۡمِنِيۡنَ ۞

ترجمہ:

انہوں نے کہا کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ تم ہمیں اس (دین) سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں تم ہی دونوں کے لیے بڑائی ہوجائے اور ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہوں نے کہا کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ تم ہمیں اس (دین) سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں تم ہی دونوں کے لیے بڑائی ہوجائے اور ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں فرعون نے حکم دیا کہ ہر ماہر جادوگر کو ہمارے پاس لے آئو پس جب وہ جادوگر آگئے موسیٰ نے ان سے کہا تم ڈالو جو کچھ تم ڈالنے والے ہو پھر جب انہوں نے ڈال دیا تو موسیٰ نے کہا تم جو کچھ لائے ہو وہ جادو ہے بیشک عنقریب اللہ اس کو نیست و نابود کر دے گا، بیشک اللہ فساد کرنے والوں کے کام کی اصلاح نہیں فرماتا اور اللہ اپنے کلما سے حق کا حق ہونا ثابت فرما دے گا خواہ مجرموں کو ناگواری کیوں نہ ہو (یونس : ٨٢۔ ٧٨)

قوم فرعون کے بیان کردہ دو عذر :

اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت اور پیغام کو قبول نہ کرنے کے دو سبب بیان کیے :

ایک یہ کہ ہم اس دین کو ترک نہیں کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو عمل کرتے ہوئے پایا، انہوں نے دلائل ظاہرہ کے مقابلہ میں اندھی تقلید کو ترجیح دی اور اس پر اصرار کیا اور

دوسرا سبب یہ بیان کیا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ملک مصر میں اپنی بڑائی، اپنا تسلط اور اپنا اقتدار چاہتے ہیں کیونکہ جب مصر کے رہنے والے ان کے معجزات کو دیکھ کر ان پر ایمان لے آئیں گے تو پھر سب ان ہی کے مطیع اور فرماں بردار ہوں گے۔ انہوں نے پہلے اندھی تقلید سے استدلال کیا اور اس کے بعد اس سے کہ مصر کی حکومت کو وہ اپنے ہاتھوں سے کھونا نہیں چاہتے اور پھر صراحتاً کہہ دیا کہ ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اس کے بعد فرعون کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کا جادو کے زور سے معارضہ کرنے کا ارادہ کیا تاکہ لوگوں پر یہ ظاہر کردیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو معجزہ پیش کیا تھا وہ دراصل جادو کی قسم سے ہے پھر فرعون نے جادوگروں کو جمع کیا تو ان سے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم پیش کرو جو کچھ تم پیش کرنا چاہتے ہو !

جادو کا حکم دینے کی توجیہ :

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ معجزہ کا جادو سے مقابلہ کرنا کفر ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو کفر کا حکم کس طرح دیا ؟ جبکہ کفر کا حکم دینا بھی کفر ہے ! اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو لاٹھیاں اور رسیاں پھینکنے کا اس لیے حکم دیا تھا کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے جو کچھ جادوگروں نے پیش کیا ہے وہ عمل فاسد اور سعی باطل ہے اور جادوگروں کا یہ عمل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کے اظہار کا ذریعہ بنا، خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فی نفسہ جادوگروں کا عمل مطلوب نہیں تھا بلکہ ان کا عمل اس لیے مطلوب تھا کہ وہ ان کے عمل کی ناکامی اور نامرادی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کے اظہار اور سرفرازی کا سبب بنے۔ جب جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈال دیں تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : تم نے جو بھی عمل کیا وہ محض باطل جادو ہے اور یہ اس لیے فرمایا کہ جادوگروں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا آپ نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ جادو ہے، اس لیے اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ جادو ہے اور وہ محض ملمع کاری ہے جس کا بطلان ابھی ظاہر ہوجائے گا پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اپنے کلمات سے حق کا حق ہونا ثابت کر دے گا، اللہ تعالیٰ نے باقی سورتوں میں یہ بیان کردیا ہے کہ اس نے جادو کو کس طرح باطل فرمایا کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اژدہا بن کر ان تمام لاٹھیوں اور رسیوں کو کھا گیا تھا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس آیت نمبر 78