أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعۡضَ مَا يُوۡحٰٓى اِلَيۡكَ وَضَآئِقٌ ۢ بِهٖ صَدۡرُكَ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡهِ كَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ‌ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ نَذِيۡرٌ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ وَّكِيۡلٌ ۞

ترجمہ:

کیا آپ وحی کے کسی حصہ کو ترک کرنے والے ہیں اور آپ کا دل صرف اس بات سے تنگ ہونے والا ہے کہ وہ (کافر) یہ کہیں گے کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہ نازل کیا گیا یا آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا ؟ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں ! اور اللہ ہر چیز کا نگہبان ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا آپ وحی کے کسی حصہ کو ترک کرنے والے ہیں اور آپ کا دل صرف اس بات سے تنگ ہونے والا ہے کہ وہ (کافر) یہ کہیں گے کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہ نازل کیا گیا یا آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا ؟ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔ (ھود : ١٢) 

کیا کفار کے طعن وتشنیع کے خوف سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کی تبلیغ میں کمی کرنے والے تھے ؟

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے مزید کفریہ اقوال نقل فرمائے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ ان کے ان کفریہ اقوال سے نبی ٧ کا دل تنگ ہوتا تھا اور آپ کو رنج ہوتا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دل جوئی کی، آپ کو تسلی دی اور آپ کو اپنے الطاف و عنایات اور اپنے افضال اور اکرام سے نوازا۔

قاضی شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر خفاجی متوفی ١٠٦٨ ھ لکھتے ہیں : اس آیت کو لفظ لعل سے شروع فرمایا ہے اور لعل کلام عرب میں توقع کے لیے آتا ہے اور اس آیت کا بطاہر معنی یہ ہے کہ کفار جو آپ پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ کوئی خزانہ کیوں نہ نازل کیا گیا یا آپ کی تصدیق کے لیے آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل ہوا، اس سے یہ توقع ہے کہ آپ وحی کے اس حصہ کو بیان کرنا ترک کردیں گے جس میں کفار کے بتوں کی مذمت کی گئی ہے حالانکہ قرآن مجید کے کچھ حصہ کو بیان نہ کرنا خیانت اور کفر ہے اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب نبوت کے اعتبار سے ممکن نہیں ہے اور جس طرح باقی انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہیں اور ان سے یہ متصور نہیں ہے کہ وہ تقیہ کر کے وحی کے بعض حصہ کو چھپا لیں اور پوری تبلیغ نہ کریں اسی طرح آپ بھی معصوم ہیں بلکہ سید المعصومین ہیں، آپ سے بطریق اولیٰ یہ متصور نہیں ہے پھر آپ سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ آپ اپنا دل تنگ ہونے کی وجہ سے وحی کا کچھ حصہ چھپا لیں گے ! اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں : 

(١) لعل کے لفظ سے جو بات کہی جاتی ہے کبھی اس بات کی متکلم کو توقع ہوتی ہے کبھی مکاطب کو توقع ہوتی ہے اور کبھی ان کے علاوہ کسی اور کو توقع ہوتی ہے اور اس آیت میں یہی آخری صورت مراد ہے یعنی کفار مکہ کو یہ توقع تھی کہ ہرچند کہ آپ قرآن مجید کی تبلیغ کرنے میں اور پوری پوری وحی پہنچانے میں انتہائی کوشش فرما رہے ہیں، لیکن ان کے طعن وتشنیع اور دل آزار باتوں سے تنگ ہو کر آپ وحی کے کچھ حصہ کو بیان نہیں کریں گے۔ 

(٢) کلام عرب میں لعل کا لفظ توقع کے لیے بھی آتا ہے اور تبعید کے لیے بھی آتا ہے اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کفار کی ان دل آزار باتوں سے ہرچند کہ آپ کا دل تنگ ہوتا ہے لیکن آپ اس وجہ سے وحی کی تبلیغ میں کمی نہ کریں۔ 

(٣) علامہ سیمین وغیرہ نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت استفہام انکاری پر محمول ہے اور معنی یہ ہے کہ کیا آپ ان کی دل آزار باتوں سے تنگ ہو کر وحی کے بعض حصہ کی تبلیغ کو ترک کردیں گے ؟ یعنی آپ ایسا نہیں کریں گے، اس کی نظیر حدیث میں ہے : حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری کو بلوایا، سو وہ اس حال میں آیا کہ اس کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لعلنا اعجلناک (کیا ہم نے تم کو عجلت میں ڈال دیا ؟ ) اس نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا : جب تم عجلت میں ہو تو تم پر وضو کرنا لازم ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٨٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٤٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٦٠٦) خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرمایا ہے کہ کفار آپ کی نبوت میں طعن وتشنیع کرتے ہیں اور اس سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے تو کیا آپ اس وجہ سے بعض وحی کو بیان کرنا ترک کردیں گے ؟ یعنی آپ ایسا نہیں کریں گے تو پھر آپ ان کی باتوں کی پرواہ نہ کریں اور بلا خوف و خطر اور بےدھڑک تبلیغ کرتے رہیں۔ (عنایت القاضی ج ٥ ص ١٣٣، ملخصاً و موضحاً ، بیروت ١٤١٧ ھ، روح المعانی ج ٧ ص ٢٨۔ ٢٧، بیروت، ١٤١٧ ھ) 

(٤) امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی اور تنزیل میں خیانت کریں اور وحی کی بعض چیزوں کو ترک کردیں کیونکہ اس طرح پوری شریعت مشکوک ہوجائے گی اور نبوت میں طعن لازم آئے گا کیونکہ رسالت کا معنی ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام بندوں تک پہنچا دیئے جائیں۔ اس لیے اس آیت کا ظاہر معنی مراد نہیں ہے بلکہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ دو خرابیوں میں سے ایک خرابی ضرور لازم آئے گی، اگر آپ پوری پوری وحی کی تبلیغ کریں تو کفار کی طعن تشنیع اور ان کے کے مذاق اڑانے کا خدشہ ہے اور اگر آپ بتوں کی مذمت والی آیتوں و نہ بیان کریں تو کفار تو آپ کا مذاق نہیں اڑائیں گے لیکن وحی میں خیانت لازم آئے گی اور جب دو خرابیوں میں سے کوئی ایک خربای ضرور لازم ہو تو بڑی خرابی کو ترک کر کے چھوٹی خرابی کو برداشت کرلینا چاہیے اور بڑی کر ابی وحی میں خیانت ہے سو آپ اس خرابی کو ترک کردیں اور کفار کے طعن اور تشنیع کی خرابی کو برداشت کرلیں۔ اس اس آیت میں لعلک کا جو لفظ ہے اس سے مراد تبعید ہے یعنی آپ کفار کے طعن وتشنیع کی وجہ سے وحی کے بعض حصہ کو ترک نہ کریں، ہرچند کہ آپ سے وحی کے کسی حصہ کی تبلیغ کو ترک کرنا ممکن نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے تاکید کے طور پر اس طرح فرمایا۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٣٢٤۔ ٣٢٣، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ ملخصاً موضحاً ) اس آیت کی تفسیر کرنا بہت نازک مقام ہے، بہت سے مفسرین اس مقام پر پھسل گئے اور انہوں نے اس آیت کی تفسیر اس طرح کی کہ احترام نبوت ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا۔ شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی ١٣٦٩ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : آپ ان بےہودہ شبہات اور فرمائشوں سے سخت مغموم اور دل گیر ہوتے تھے، ممکن ہے کہ کبھی ایسا خیال بھی دل میں گزرتا ہو کہ ان کے معبودوں کے معاملہ میں اگر خدا کی جانب سے اس قدر سختی اختیار کرنے کا حکم نہ رہے، تردید کی جائے مگر فی الحال قدرے نرمی اور رواداری کے ساتھ تو شاید زیادہ موثر اور مفید ہو یا جو فرمائشیں یہ لوگ کرتے ہیں، ان کی یہ ضد بھی پوری کردی جائے تو کیا عجب ہے مسلمان ہوجائیں۔ (حاشیہ عثمانی بر ترجمہ محمود الحسن ص ٢٩٤، مطبوعہ سعودیہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چاہنا اللہ تعالیٰ کے چاہنے کے تابع تھا اور اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اس کی وحی کے خلاف آپ کے دل میں کبھی کوئی خیال نہیں آسکتا تھا، اس لیے ہمارے نزدیک یہ تفسیر صحیح نہیں ہے۔ 

(٥) اس اعتراض کا ایک اور جواب یہ ہے کہ یہ آیت باب تنزیل سے ہے، یعنی ایک شخص میں کوئی وصف نہ ہو لیکن حال اور مقام کے اعتبار سے یہ وہم کیا جاتا ہو کہ اس شخص میں وہ وصف ہے تو اس شخص کو باوجود اس وصف کے نہ ہونے کے اس شخص کے منزلہ میں نازل کر کے کلام کیا جائے جس شخص میں وہ وصف ہو، پس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کے کسی حصہ کی تبلیغ کو ترک نہیں کیا تھا لیکن اگر آپ کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا تو تنگ دلی اور دل آزاری سے بچنے کے لیے ان آیتوں کی تبلیغ کو ترک کردیتا جن کی وجہ سے کفار طعن اور تشنیع کرتے تھے اس لیے آپ کو اس شخص کے منزلہ میں نازل کر کے فرمایا : شاید آپ وحی کے کسی حصہ کو ترک کرنے والے ہیں۔ اس کی نظیریہ آیت ہے : واصنع الفلک باعیننا ووحینا ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم معرفون۔ (ھود : ٣٧) اور آپ ہماری وحی کے مطابق ہماری نگرانی میں کشتی بنائیے اور ظالموں کے متعلق ہم سے کچھ نہ کہیں وہ ضرور غرق کیے جائیں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ظالم کافروں کی سفارش نہیں کی تھی لیکن اس مقام پر ان کی سفارش کرنے کا وہم ہوسکتا تھا، اس لیے باوجود سفارش نہ کرنے کے ان کو اس شخص کے مرتبہ میں نازل کر کے خطاب کیا گیا جو ان کی سفارش کرتا، سو یہ بھی باب تنزیل سے ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 12