أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَيَصۡنَعُ الۡفُلۡكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيۡهِ مَلَاٌ مِّنۡ قَوۡمِهٖ سَخِرُوۡا مِنۡهُ‌ؕ قَالَ اِنۡ تَسۡخَرُوۡا مِنَّا فَاِنَّا نَسۡخَرُ مِنۡكُمۡ كَمَا تَسۡخَرُوۡنَؕ ۞

ترجمہ:

اور نوح کشتی بنا رہے تھے اور جب بھی ان کی قوم کے (کافر) سردار ان کے پاس سے گزرتے تو ان کا مذاق اڑاتے، نوح نے کہا اگر تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو تو جس طرح تم (اب) ہمارا مذاق اڑا رہے ہو تو (وقت آنے پر) ہم بھی تمہارا مذاق اڑائیں گے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور نوح کشتی بنا رہے تھے اور جب بھی ان کی قوم کے (کافر) سردار ان کے پاس سے گزرتے تو ان کا مذاق اڑاتے، نوح نے کہا اگر تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو تو جس طرح تم (اب) ہمارا مذاق اڑا رہے ہو تو (وقت آنے پر) ہم بھی تمہارا مذاق اڑائیں گے۔ پھر عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کس پر دائمی عذاب آئے گا۔ (ھود : ٣٩۔ ٣٨)

کشتی بنانے کی کیفیت، اس کی مقدار اور اس کو بنانے کی مدت کی تفصیل

امام عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں : ضحاک نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے رب ! کشتی کی کیا تعریف ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ لکڑی کا ایک گھر ہے جو سطح آب پر چلتا ہے، میں اپنے عبادت گزاروں کو اس میں نجات دوں گا اور اپنی نافرمانی کرنے والوں کو غرق کر دوں گا اور بیشک میں جو چاہوں اس پر قادر ہوں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے میرے رب ! لکڑی کہاں ہے ؟ فرمایا : تم درخت اگائو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بیس سال تک ساگوان کے درخت اگائے، اس عرصہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کو دعوت دینا ترک کردیا اور انہوں نے بھی حضرت نوح (علیہ السلام) کو تنگ کرنا چھوڑ دیا، البتہ ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ جب درخت تیار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ درختوں کو کاٹیں اور سکھائیں، پھر حضرت نوح نے پوچھا : اے میرے رب ! میں یہ گھر کیسے بنائوں ؟ فرمایا : اس کا سرمور کی طرح بنائو اور اس کے اگلے حصہ کو پرندے کے سینہ کی طرح بنائو اور اس کا دھڑ مرغ کے دھڑ کی طرح بنائو اور اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو انہیں کشتی بنانے کی تعلیم کے لیے بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ کشتی بنانے کا عمل جلد مکمل کریں، کیونکہ نافرمانی کرنے والوں پر میرا غضب بہت شدید ہے۔ پھر حضرت نوح نے اجرت پر کچھ لوگوں کو کام پر لگایا اور ان کے بیٹوں میں سے سام، حام اور یافث بھی ان کے ساتھ کشتی بنا رہے تھے۔ انہوں نے وہ کشتی چھ سو ہاتھ لمبی بنائی اور اس کا عرض اور اس کا عمق تینتیس تینتیس ہاتھ تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے زمین سے تارکول نکالا جس کو انہوں نے کشتی پر ملا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس کشتی کی تین منزلیں تھیں، پہلی منزل میں وحشی جانور، درندے اور حشرات الارض تھے، دوسری منزل میں چوپائے اور دوسرے حیوان تھے اور سب سے اوپر تیسری منزل میں حضرت نوح اور ان کے ساتھ ایمان والے تھے۔

حسن سے روایت ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کا طول بارہ سو ہاتھ اور عرض چھ سو ہاتھ تھا۔ قتادہ نے کہا : اس کا طول تین سو ہاتھ اور عرض پانچ سو ہاتھ تھا اور اس کا عمق پانچ سو ہاتھ تھا۔ ابن جریج نے کہا اس کا طول تین سو ہاتھ، اس کا عرض ڈیڑھ سو ہاتھ اور اس کا عمق تیس ہاتھ تھا۔ اس کی بالائی منزل میں پرندے، درمیانی منزل میں حضرت نوح اور ایمان والے تھے اور اس کی نچلی منزل میں درندے تھے۔ (زاد المسیرج ٤ ص ١٠٣۔ ١٠٢، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ)

کشتی بنانے میں کتنا عرصہ لگا ؟

اس میں بھی کئی اقوال ہیں۔ عمرو بن الحارث سے روایت ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے چالیس سال میں کشتی بنائی۔

حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ دو سال میں کشتی بنائی

اور کعب سے روایت ہے کہ چالیس سال میں کشتی بنائی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٩ ص ٢٩، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام فخر الدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : کشتی کے سائز میں جو مختلف اقوال نقل کیے گئے ہیں (اسی طرح اس کو بنانے کی مدت میں) ان کی معرفت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ اسکی معرفت میں کوئی فائدہ ہے اور اس میں غور و فکر کرنا فضول ہے جبکہ ہمارے پاس کوئی قطعی دلیل نہیں ہے جس سے صحیح مقدار یا صحیح مدت معلوم ہو سکے اور جس چیز کا ہمیں علم ہے وہ یہ ہے کہ کشتی میں اتنی گنجائش تھی کہ اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ایمان والے آسکیں اور جن جانوروں کو وہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے وہ بھی اس میں آسکیں، کیونکہ یہ چیز ہمیں قرآن مجید سے معلوم ہے، رہا یہ کہ اس کا سائز کیا تھا اور اس کو بنانے میں کتنی مدت لگی ؟ اس کا قرآن مجید میں ذکر نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٣٤٥، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) 

کشتی بنانے کا مذاق اڑانے کی وجوہ

نوح (علیہ السلام) جب کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم کے کافر سردار ان کو کشتی بناتا دیکھ کر ان کا مذاق اڑاتے تھے۔

امام فخر الدین رازی نے ان کے مذاق اڑانے کی حسب ذیل وجوہ بیان کی ہیں :

(١) وہ یہ کہتے تھے کہ اے نوح ! تم رسالت کا دعویٰ کرتے تھے اور بن گئے بڑھئی۔ (درکھان)

(٢) اگر تم رسالت کے دعویٰ میں سچے ہوتے تو اللہ تعالیٰ تم کو کشتی بنانے کی مشقت میں نہ ڈالتا۔

(٣) اس سے پہلے انہوں نے کشتی نہیں دیکھی تھی نہ ان کو یہ معلوم تھا کہ کشتی کس کام آتی ہے اس لیے وہ اس پر تعجب کرتے تھے اور ہنستے تھے۔

(٤) وہ کشتی بہت بڑی تھی اور جس جگہ وہ کشتی بنا رہے تھے وہ جگہ پانی سے بہت دور تھی اس لیے وہ کہتے تھے یہاں پر پانی نہیں ہے اور اس کشتی کو دریائوں اور سمندر کی طرف لے جانا تمہارے بس میں نہیں ہے، اس لیے ان کے خیال میں اس جگہ کشتی بنانا محض بےعقلی کا کام تھا۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٣٤٥) 

حضرت نوح (علیہ السلام) کے جواباً مذاق اڑانے کا محمل

اس کے بعد فرمایا : نوح نے کہا : اگر تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو تو (وقت آنے پر) ہم بھی تمہارا مذاق اڑائیں گے، اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١) تم ہمارے کشتی بنانے کا مذاق اڑا رہے ہو، ہم تمہارے غرق ہونے کا مذاق اڑائیں گے۔

(٢) تم ہمارا دنیا میں مذاق اڑا رہے ہو ہم تمہارا آخرت میں اڑائیں گے۔

(٣) تم ہمیں جاہل کہتے ہو حالانکہ تم خود اپنے کفر سے، اللہ کی ناراضگی مول لینے سے اور دنیا اور آخرت کے عذاب سے جاہل ہو تو تم مذاق اڑائے جانے کے زیادہ لائق ہو۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ مذاق اڑانا تو انبیاء (علیہم السلام) کی شان کے لائق نہیں ہے اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا مذاق اڑانا دراصل ان کے مذاق اڑانے کا بدلہ اور سزا تھی اور اس پر مذاق اڑانے کا اطلاق صورتاً مماثلت کی وجہ سے کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : جزا سیئۃ سیئۃ مثلہا۔ (الشوریٰ : ٤٠) برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 38