أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَامۡرَاَ تُهٗ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتۡ فَبَشَّرۡنٰهَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَمِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ يَعۡقُوۡبَ ۞

ترجمہ:

ابراہیم کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی پیدائش کی خوش خبری سنائی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ابراہیم کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی پیدائش کی خوش خبری سنائی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔ (ھود : ٧١) 

حضرت سارہ کے ہنسنے کی وجوہ

امام رازی نے لکھا ہے کہ سارہ آزر بن باحورا کی بیٹی تھیں اور یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عم زاد تھیں، یہ پردے کے پیچھے کھری ہوئیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فرشتوں سے باتیں سن رہی تھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ مہمانوں کی خدمت کر رہی تھیں اور حضرت ابراہیم فرشتوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت سارہ کے ہنسنے کی متعدد وجوہ بیان کی گئی ہیں جو حسب ذیل ہیں :

(١) جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا : آپ مت ڈریں، ہمیں قوم لوط کے پاس بھیجا گیا ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خوف زائل ہوگیا اور حضرت ابراہیم کے خوش ہونے سے سارہ بھی خوش ہوگئیں اور ایسے موقع پر آدمی ہنس پڑتا ہے۔

(٢) حضرت سارہ قوم لوط کے عمل سے سخت ناراض اور متنفر تھیں اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ فرشتے ان پر عذاب نازل کرنے کے لیے جارہے ہیں تو وہ ہنس پڑیں۔

(٣) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : اس کھانے کی قیمت اس کے اول میں اللہ کا ذکر اور آخر میں اللہ کا شکر ادا کرنا ہے اور فرشتوں نے کہا کہ ایسے ہی شخص کا یہ حق ہے کہ اس کو اللہ کا خلیل بنایا جائے تو حضرت سارہ یہ سن کر خوشی سے ہنس پڑیں۔

(٤) حضرت سارہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا تھا آپ اپنے بھانجے (حضرت لوط) کو اپنے پاس بلا لیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسا کام کرنے والوں کو ضرور عذاب دیتا ہے اور جب فرشتوں نے یہ بتایا کہ وہ قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں تو انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ان کا مشورہ فرشتوں کی خبر کے موافق تھا اس لیے وہ ہنس پڑیں۔

(٥) جب فرشتوں نے یہ کہا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے اس پر دلیل طلب کی۔ فرشتوں نے دعا کی اور وہ بھنا ہوا بچھرا زندہ ہوگیا اور اچھل کر کھڑا ہوگیا یہ دیکھ کر سارہ ہنس پڑیں۔

(٦) انہیں س پر تعجب ہوا کہ ایک قوم پر عذاب آنے والا ہے اور وہ غفلت میں مبتلا ہے اس لیے ان کو ہنسی آگئی۔

(٧) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے ان کو پہلے مطلقاً بچے کی بشارت دیہو، اس پر ان کو بطور تعجب کے ہنسی آگئی کیونکہ اس وقت ان کی عمر نوے سال سے اوپر تھی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو سال تھی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کو خوشی سے ہنسی آئی ہو اور جب وہ ہنس پڑیں تو اللہ تعالیٰ نے خوش خبری دی کہ وہ بیٹا اسحاق ہے اور اس کے بعد یعقوب پیدا ہوگا۔

(٨) انہیں اس پر تعجب ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس قدر رعب اور دبدبہ کے باوجود صرف تین آدمیوں سے کیسے ڈر گئے، اس لیے ان کو ہنسی آگئی۔ ان میں سے بعض وجوہ کا ذکر امام ابن جریر طبری نے کیا ہے۔ (جامع البیان جز ٩ ص ٩٦۔ ٩٥)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 71