أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُوۡا يٰلُوۡطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنۡ يَّصِلُوۡۤا اِلَيۡكَ‌ فَاَسۡرِ بِاَهۡلِكَ بِقِطۡعٍ مِّنَ الَّيۡلِ وَلَا يَلۡتَفِتۡ مِنۡكُمۡ اَحَدٌ اِلَّا امۡرَاَتَكَ‌ؕ اِنَّهٗ مُصِيۡبُهَا مَاۤ اَصَابَهُمۡ‌ؕ اِنَّ مَوۡعِدَهُمُ الصُّبۡحُ‌ؕ اَلَيۡسَ الصُّبۡحُ بِقَرِيۡبٍ ۞

ترجمہ:

فرشتوں نے کہا اے لوط ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے ہیں یہ آپ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے آپ رات کے ایک حصہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ یہاں سے روانہ ہوجائیں اور آپ میں سے کوئی شخص مڑ کر نہ دیکھے، البتہ اپنی بیوی کو ساتھ نہ لیں بیشک اس کو (بھی) وہی (عذاب) پہنچنے والا ہے جو انہیں پہنچے گا۔ بیشک صبح کو ان کی وعید کا وقت کیا۔ کیا صبح قریب نہیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فرشتوں نے کہا اے لوط ! ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے ہیں یہ آپ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے آپ رات کے ایک حصہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ یہاں سے روانہ ہوجائیں اور آپ میں سے کوئی شخص مڑ کر نہ دیکھے، البتہ اپنی بیوی کو ساتھ نہ لیں بیشک اس کو (بھی) وہی (عذاب) پہنچنے والا ہے جو انہیں پہنچے گا بیشک صبح کو ان کی وعید کا وقت ہے کیا صبح قریب نہیں۔ (ھود : ٨١) 

حضرت لوط (علیہ السلام) کا نجات پانا اور بدمعاش کافروں کا بھاگنا

جب لوط (علیہ السلام) نے یہ کہا تھا : کاش مجھ میں تم سے مقابلہ کی قوت ہوتی ! یا میں کسی مضبوط قبیلہ کی پناہ میں ہوتا ! تو اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان بدمعاشوں اور اوباش لوگوں کی یورش کی وجہ سے حضرت لوط (علیہ السلام) کو بہت رنج اور افسوس تھا کہ انہیں اپنے مہمانوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا جب فرشتوں نے ان کا یہ حال دیکھا تو ان کو متعدد بشارتیں دیں :

(١) وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں۔

(٢) کفار اپنی خواہش پوری نہیں کرسکتے۔

(٣) اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کر دے گا۔

(٤) اللہ عزوجل حضرت لوط کو اور ان کے اہل کو اس عذاب سے نجات دے گا۔

علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں : حضرت لوط (علیہ السلام) پر ان کی قوم غالب آنے لگی وہ لوگ دروازہ توڑنے کی کوشش کر رہے تھے اور حضرت لوط دروازہ کو بند رکھنے کی کوشش کر رہے تھے، اس وقت ان سے فرشتوں نے کہا : آپ دروازہ سے ہٹ جائیں، حضرت لوط ہٹ گئے اور دروازہ کھل گیا۔ پھر حضرت جبریل نے اپنا پر مارا تو وہ سب اندھے ہوگئے اور الٹے پائوں بچائو بچائو چیختے ہوئے بھاگے، جیسا کہ 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولقد راودوہ عن ضیفہ فطمسنا اعینھم فذو قوا عذابی ونذر۔ (القمر : ٣٧) اور انہوں نے لوط کے مہمانوں کے ساتھ برے کام کا ارادہ کیا تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مٹا دیا، سو اب میرے عذاب اور میری وعید کا مزہ چکھو۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٩، ص ٧٠، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور بعض دیگر صحابہ سے ایک طویل حدیث روایت کی ہے اس کے آخر میں ہے جب حضرت لوط نے کہا : کاش مجھ میں تم سے مقابلہ کی قوت ہوتی ! یا میں کسی مضبوط قبیلہ کی پناہ میں ہوتا تو حضرت جبریل نے اپنے پر پھیلائے اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور وہ بچائو بچائو کہتے ہوئے الٹے پیر بھاگے، انہوں نے کہا کہ لوط کے گھر میں روئے زمین کا سب سے بڑا جادوگر ہے۔ فرشتوں نے کہا اے لوط ! ہم آپ کے رب کے فرستادہ ہیں، یہ لوگ ہرگز آپ تک نہیں پہنچ سکتے، آپ اپنے اہل کے ساتھ رات کے ایک حصہ میں روانہ ہوجائیں اور آپ میں سے کوئی شخص مڑ کر نہ دیکھے، البتہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ نہ لیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو شام کی طرف لے گیا۔ حضرت لوط نے کہا ان کو اسی وقت ہلاک کردو۔ فرشتوں نے کہا، ہمیں صبح کے وقت انہیں ہلاک کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیا صبح قریب نہیں پھر رات کے پچھلے پہر حضرت لوط اور ان کے اہل روانہ ہوچکے تھے اور ان کی قوم کو سنگسار کر کے ہلاک کردیا گیا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : انا ارسلان علیہھم حاصبا الا ال لوط نجینھم بسحر (القمر : ٣٤) بیشک ہم نے ان پر سنگ باری کا عذاب بھیجا ماسوا آل لوط کے ہم نے رات کے پچھلے پہر ان کو نجات دی۔ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے اور امام بخاری اور امام مسلم نے اس کو روایت نہیں کیا۔ (المستدرک ج ٢، ص ٥٦٣، مطبوعہ دار الباز مکہ مکرمہ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 81