أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَقَدَّتۡ قَمِيۡصَهٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّاَلۡفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا الۡبَابِ‌ؕ قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَهۡلِكَ سُوۡۤءًا اِلَّاۤ اَنۡ يُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

وہ دونوں دروازے کی طرف دورے۔ اس عورت نے ان کی قمیص پیچھے سے پھاڑ ڈالی اور ان دونوں نے اس عورت کے خاوند کو دروازے کے قریب پایا اس عورت نے کہا اس شخص کی کیا سزا ہونی چاہیے جو آپ کی اہلیہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے۔ سوائے اس کے کہ اس کو قید کیا جائے یا اس کو دردناک عذاب دیا جائے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے، اس عورت نے ان کی قمیص پیچھے سے پھاڑ ڈالی اور ان دونوں نے اس عورت کے خاوند کو دروازے کے قریب پایا، اس عورت نے کہا : اس شخص کی سزا کیا ہونی چاہیے جو آپ کی اہلیہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے سوائے اس کے کہ اس کو قید کیا جائے یا اس کو دردناک عذاب دیا جائے۔ (یوسف : ٢٥) 

عزیز مصرکی بیوی کا حضرت یوسف (علیہ السلام) پر الزام لگانا

یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) اور وہ عورت ہر دو شخص ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے دروازے کی طرف دوڑے، حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ارادہ تھا کہ وہ جلدی سے آگے نکل جائیں تاکہ دروازوں سے باہر جا کر اس عورت کے بچھائے ہوئے بدکاری کے جال سے نکل جائیں اور اس عورت کا ارادہ تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نکلنے نہ دے اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پالیا اور پیچھے سے ان کی قمیص پکڑ کر کھینچی اور زور سے کھینچنے سے قمیص پھٹ گئی کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) بھاگ رہے تھے اور وہ پیچھے سے کھینچ رہی تھی اور اس زورا زوری میں وہ قمیص پیچھے سے پھٹ گئی اور جب وہ دونوں دروازے سے باہر نکلے تو دروازے کے قریب اس کا شوہر کھڑا تھا اس عورت نے اپنا جرم چھپانے کے لیے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) پر جھوٹا الزام لگانے کے لیے بولنے میں پہل کی اور کہنے لگی اس شخص کی کیا سزا ہونی چاہیے جو آپ کی اہلیہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ؟ سوائے اس کے کہ اس کو قید کیا جائے یا اس کو دردناک عذاب دیا جائے یعنی اس کو کوڑے لگائے جائیں۔ عزیز مصر کی بیوی کو حضرت یوسف (علیہ السلام) سے جو شدید محبت تھی اس وجہ سے اس نے پہلے ان کو قید میں ڈالنے کا ذکر پھر اس کے بعد ان کو سزا دینے کا ذکر کیا کیونکہ محب یہ نہیں چاہتا کہ اس کے محبوب کو اذیت پہنچائی جائے اس عورت نے صراحتاً یہ نہیں کہا کہ یوسف (علیہ السلام) کا میرے ساتھ زنا کا ارادہ تھا بلکہ یوں کہا کہ اس نے میرے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا کیونکہ جب اس نے یہ دیکھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی نوجوانی کی عمر، قوت اور زور کے کمال اور شہوت کی انتہاء کے باوجو اپنے آپ کو گناہ میں ملوث ہونے نہیں دیا تو اس کو حیا آئی کہ وہ ان کی طرف صراحتاً زنا کی نسبت کرے اس لیے اس نے کنایہ اور تعریض کے ساتھ کہا کہ اس نے میرے ساتھ برائی کا اردہ کی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو گناہ کی ترغیب دی اور اپنی طرف مائل کرنا اور رجھانا چاہا اور اس کے جواب میں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کو سختی سے منع کیا، ڈانٹا اور مارا تو اس کو اس نے برائی کے ساتھ تعبیر کیا ہو اور اپنے خاوند کے ذہن میں یہ ڈالا ہو کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس سے بدکاری کرنا چاہتے تھے۔ (زاد المیسر و تفسیر کبیر)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف آیت نمبر 25