أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

حَتّٰۤى اِذَا اسۡتَيۡـئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ قَدۡ كُذِبُوۡا جَآءَهُمۡ نَصۡرُنَا ۙ فَـنُجِّىَ مَنۡ نَّشَآءُ ‌ؕ وَلَا يُرَدُّ بَاۡسُنَا عَنِ الۡقَوۡمِ الۡمُجۡرِمِيۡنَ ۞

ترجمہ:

حتی کہ جب رسول ناامید ہونے لگے اور لوگوں نے گمان کیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو رسولوں کے پاس ہماری مدد آگئی سو جس کو ہم نے چاہا وہ بچا لیا گیا اور مجرموں کی قوم سے ہمارا عذاب دور نہیں کیا جاتا۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حتی کہ جب رسول ناامید ہونے لگے اور لوگوں نے گمان کیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو رسولوں کے پاس ہماری مدد آگئی سو جس کو ہم نے چاہا وہ بچا لیا گیا اور مجرموں کی قوم سے ہمارا عذاب دور نہیں کیا جاتا۔ (یوسف : ١١٠)

وظنوا انھم قد کذبوا کی توجیہات :

اس آیت میں لفظ کذبوا کی قرات دو طرح سے منقول ہے۔ ایک وجہ ہے کذبوا ذال پر تشدید کے بغیر اور دوسری وجہ ہے کذبوا ذال پر تشدید کے ساتھ۔ عاصم، حمزہ اور کسائی کی پہلی قرات ہے اور باقی قراء کی دوسری قرات ہے۔

اگر یہ لفظ بغیر تشدید کے پڑھا جائے تو اس کا نائب فاعل رسولوں کی امتیں ہیں، اور اس صورت میں اس کے دو محمل ہیں :

١۔ جب رسول اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے اور قوم نے یہ گمان کرلیا کہ رسولوں نے ان سے جو مدد اور کامیابی کا وعدہ کیا تھا وہ انہوں نے ان سے جھوٹ بولا تھا تو اچانک ہماری مدد آپہنچی۔ یہ تفسیر مسلم نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٥٢١٩) امام ابن جریر نے اسی روایت کو اختیار کیا ہے اور ہم نے بھی اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ اور ہمارے شیخ علامہ سید احمد سعید کا ظمی متوفی ١٤٠٦ ھ کا ترجمہ بھی اسی روایت پر مبنی ہے۔

٢۔ رسولوں نے مایوس ہو کر یہ گمان کرلیا کہ ان سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ جھوٹا تھا تو ہماری مدد آپہنچی۔ ابن ابی ملکیہ نے اس تفسیر کو حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ رسل بشر تھے اور ضعیف تھے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٥٢٢٧) ابن جریج نے کہا : میں بھی اسی طرح کہتا ہوں جس طرح حضرت ابن عباس نے کہا اور حضرت ابن عباس نے یہ آیت پڑھی :

حتی یقول الرسول والذین امنوا معہ متی نصر اللہ الا ان نصر اللہ قریب۔ (البقرہ : ٢١٤) حتی کہ رسول اور ایمان والوں نے کہا اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ سنو اللہ کی مدد قریب ہے۔

ابن جریج نے کہا : ابن ابی ملیکہ نے بتایا کہ حضرت ابن عباس کا مذہب یہ تھا کہ رسول کمزور تھے، انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٥٢٢٨ )

اس روایت کی توجیہ عنقریب آئے گی۔

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں :

مفسرین نے کہا ہے کہ ان کا یہ گمان ضعف بشریت کی وجہ سے تھا، مگر یہ بہت بعید ہے کیونکہ عام مومن کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ یہ گمان کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے جھوٹا وعدہ کیا ہے، بلکہ اس گمان کی وجہ سے وہ ایمان سے خارج ہوجائے گا تو رسولوں کے حق میں یہ کس طرح جائز ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسا گمان کریں۔

خلاصہ یہ ہے کہ امام رازی نے اس روایت کو رد کردیا ہے، اس کے بعد امام رازی لکھتے ہیں :

اگر اس آیت میں کذبوا تشدید کے ساتھ ہو اور ظن بمعنی یقین ہو تو اس آیت کا معنی ہوگا کہ رسولوں نے یہ یقین کرلیا کہ ان کی امتوں نے ان کی تکذیب کردی ہے اور اب وہ ایمان نہیں لائیں گے، تب انہوں نے ان کے خلاف دعا ضرر کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسا عذاب نازل کیا جس نے ان کو ملیا میٹ کردیا۔

اور اگر اس آیت میں ظن بمعنی گمان ہو تو اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب رسول اپنی قوموں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ ان پر ایمان لاچکے ہیں وہ اب ان کی تکذیب کریں گے کہ رسولوں نے کافروں پر جس عذاب کا وعدہ کیا تھا وہ عذاب اب تک نہیں آیا، اور جب رسولوں نے اپنی امتوں کے متعلق یہ گمان کیا تو کافروں پر عذاب آگیا اور اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو اور مومنوں کو اس عذاب سے بچا لیا اور حضرت ام المومنین نے اس آیت کی جو تاویل کی ہے وہ بہت عمدہ تاویل ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٥٢١، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام رازی نے حضرت عائشہ کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت ام المومنین عائشہ سے عرہ نے سوال کیا کہ یوسف : ١١٠ میں لفظ کذبوا تشدید کے ساتھ ہے یا بغیر تشدید کے، حضرت عائشہ نے فرمایا : بلکہ ان کی قوم نے ان کی تکذیب کی تھی (یعنی یہ لفظ تشدید کے ساتھ ہے) پس میں نے کہا : اللہ کی قسم ! ان کو یہ یقین تھا کہ ان کی قوم نے ان کی تکزیب کی ہے اور ایہ ان کا گمان نہیں تھا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا : اے عروہ ! انہیں اس کا یقین تھا، عروہ نے کہا : شاید یہ لفظ بغیر تشدید کے ہو (یعنی انبیاء (علیہم السلام) نے یہ گمان کیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا) حضرت عائشہ نے فرمایا : معاذ اللہ ! رسول اپنے رب کے ساتھ یہ گمان نہیں کرسکتے اور رہی یہ آیت تو یہ رسولوں کے پیروکار تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور انہوں نے رسولوں کی تصدیق کی تھی اور جب ان تک اللہ کی مدد پہنچنے میں دیر ہوگئی، حتی کہ رسولوں کی امتوں میں سے جن لوگوں نے ان کی تصدیق کی تھی وہ اللہ کی مدد آنے سے مایوس ہوگئے اور رسولوں نے یہ گمان کرلیا کہ اب ان کے پیروکار بھی ان کی تکذیب کریں گے تو اللہ کی مدد آگئی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٨٩)

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کی چار توجیہات پیش کی گئی ہیں : کذبوا بغیر تشدید کے جو پڑھا گیا ہے اس کی دو توجہیات ہیں : پہلی توجیہ یہ کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں نے یہ گمان کیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا، یہ صحیح توجیہ ہے اور دوسری توجیہ کا خلاصہ ہے کہ رسولوں نے یہ گمان کیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا، یہ باطل توجیہ ہے۔ حضرت ام المومنین نے اس کو رد کردیا ہے اور امام رازی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔ اور اگر کذبوا کو تشدید کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کی بھی دو توجیہات ہیں : پہلی توجیہ کا حاصل یہ ہے کہ رسولوں نے یہ یقین کرلیا کہ ان کی امتوں نے ان کی تکزیب کردی ہے، اور دوسری توجیہ یہ ہے کہ رسولوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ ان پر ایمان لاچکے ہیں وہ اب ان کی تکذیب کریں گے۔ یہ حضرت ام المومنین کی توجیہ ہے اور یہ سب سے بہترین توجیہ ہے۔

اس آیت کے ترجمہ میں بعض مترجمین کی لغزش :

شیخ محمود حسن متوفی ١٣٣٩ ھ نے اس آیت کے ترجمہ میں ہے :

یہاں تک کہ جب ناامید ہونے لگے رسول اور خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا پہنچی ان کو ہماری مدد پھر بچا دیا ہم نے جن کو چاہا۔

اور شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٤ ھ نے اس آیت کے ترجمہ میں لکھا ہے :

یہاں تک کہ پیغمبر مایوس ہوگئے اور ان کو گمان غالب ہوگیا کہ ہمارے فہم نے غلطی کی، ان کو ہماری مدد پہنچی پھر ہم نے جس کو چاہا وہ بچا لیا گیا۔

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ نے بھی انہی ترجموں کو مقرر رکھا ہے۔ (معارف القرآن ج ٥ ص ١٦١ )

واضح رہے کہ یہ ترجمے اس روایت پر مبنی ہیں جس کو حضرت عائشہ نے رد کردیا ہے اور امام رازی نے اس کو روایت کو باطل قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ کوئی عام مسلمان بھی یہ گمان نہیں کرسکتا کہ اللہ نے اس سے جھوٹ بولا تھا چہ جائیکہ رسول یہ گمان کریں اور حضرت ابن عباس کی طرف جو یہ روایت منسوب کی ہے اس کی توجیہ یہ ہے کہ اس میں مجاز بالحذف ہے یعنی رسولوں کے پیروکاروں نے یہ گمان کیا تھا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا اور اس روایت کے ظاہر سے حضرت ابن عباس کی تنزیہ کرنا واجب ہے۔ (فتح الباری ج ٨ ص ٣٦٨، ٣٦٩ )

امام رازی کے علاوہ دیگر مفسرین نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے، ہم چندمفسرین کے حوالے پیش کر رہے ہیں :

امام عبدالرحمن محمد بن علی جوزی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت کا معنی ہے : ہم نے آپ سے پہلے صرف مردوں کو رسول بنایا، انہوں نے اپنی قوم کو تبلیغ کی، سو انہوں نے ان رسولوں کی تکذیب کی، تو انہوں نے صبر کیا وہ بڑے عرصہ تک قوم کو دعوت دیتے رہے اور قوم ان کو جھٹلاتی رہی حتی کہ جب رسول مایوس ہوگئے، حضرت ابن عباس نے کہا : وہ اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے، ایک قرات کذبوا میں تشدید کی ہے اور معنی یہ کہ ہے رسولوں نے یقین کرلیا کہ ان کی قوم نے ان کی تکذیب کی ہے اور دوسری قرات تخفیف کی ہے اور معنی یہ ہے کہ ان کی قوم نے یہ گمان کیا کہ رسولوں نے جو ان سے اللہ تعالیٰ کی مدد کا وعدہ کا تھا وہ جھوٹا نکلا تو پھر ہماری مدد آگئی پس ہم جس کو چاہتے ہیں عذاب سے نجات دیتے ہیں، اور مجرموں کی قوم سے ہمارا عذاب دور نہیں کیا جاتا۔ (زاد المسیر ج ٤ ص ٢٩٦، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ قوم نے یہ گمان کیا کہ رسولوں نے ان کو جو عذاب آنے کی خبر دی تھی وہ جھوٹ تھا، اور ایک قول یہ ہے کہ ان کی امتوں نے یہ گمان کیا کہ رسولوں نے جو ان سے اللہ کی مدد آنے کا وعدہ کیا تھا وہ جھوٹ تھا، اور حضرت ابن عباس سے ایک روایت یہ ہے کہ رسولوں نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے جو وعدہ کیا تھا اس نے اس کے خلاف کیا اور ایک قول یہ ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ رسولوں کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اللہ کے متعلق ایسا گمان کریں گے اور اگر وہ ایسا گمان کرتے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے مستحق نہ ہوتے۔ حضرت عائشہ کی حدیث کو بخاری میں ہے اس میں بھی اسی کی تائید ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٩، ص ٢٤١، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ ابو الحیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں :

ابو علی نے کہا : جس شخص نے اس آیت کا یہ معنی کیا کہ رسولوں نے یہ گمان کیا کہ اللہ نے ان کی زبانوں سے ان کی امتوں کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اس میں انہوں نے جھوٹ بولا تھا، اور جس شخص نے یہ کہا ہے اس نے بہت بڑی جسارت کی ہے، انبیاء (علیہم السلام) کی طرف اس طرح کے گمان کی نسبت کرنا جائز ہے اور نہ اللہ کے نیک بندوں کی طرف، اسی طرح جس نے یہ گمان کیا کہ حضرت ابن عباس کا یہ مذہب کہ رسول کمزور تھے اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ ان کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کے خلاف کیا گیا ہے، یہ بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ رسولوں کی قوموں نے یہ گمان کیا کہ ان کے ساتھ جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا۔ (البحر المحیط : ج ٦ ص ٣٣٦، ملخصا مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٢ ھ)

حافظ عمر بن اسماعیل بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :

قریش کے ایک نوجوان نے سعید بن جبیر سے سوال کیا مجھے بتایئے اس آیت کا کیا معنی ہے میں جب اس آیت کو پڑھتا ہوں تو میں یہ تمنا کرتا ہوں کہ کاش میں نے اس آیت کو نہ پڑھتا ہوتا : حتی اذا استیئس الرسل وظنوا انھم قد کذبوا۔ سعید بن جبیر نے کہا : ہاں جب رسول اپنی قوموں سے مایوس ہوگئے کہ وہ ان کی تصدیق کریں گے اور ان کی قوموں نے یہ گمان کیا کہ انہوں نے ان سے جھوٹ بولا تھا، پھر امام ابن جریر نے ایک اور سند سے روایت کیا ہے کہ مسلم بن یسار نھے سعید بن جبیر سے سوال کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا، تو انہوں نے کھڑے ہو کر سعید کو گلے لگایا اور کہا : اللہ آپ کی پریشانیوں کو دور کرے جس طرح آپ نے میری پریشانیوں کو دور کیا ہے اور امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اپنی قوموں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے اور عذاب آنے میں تاخیر کی وجہ سے ان کی قوم نے یہ گمان کیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود دونوں سے اسی طرح روایت ہے اور حضرت ابن عباس کے دوسرے قول کو امام ابن جریر نے بالکل کمزورقرار دیا ہے اور اس کو مسترد کردیا ہے اور اسکا انکار کردیا اور اس کو قبول نہیں کیا اور اس سے راضی نہیں ہوئے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٢، ص ٥٥٠، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

بعض لوگوں نے یہ تاویل کی ہے کہ ان رسولوں نے اپنی قوم پر عذاب آنے کی خبر دی تھی اور ان کے لیے اس کا وقت معین نہیں کیا گیا تھا تو انہوں نے اپنے اجتہاد سے اس کا وقت مقرر کرلیا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے حدیبیہ کے سال کو اپنے اجتہاد کی تغلیط اور تکذیب کی، اس کو اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا : حتی کہ جب رسول مایوس ہوگئے اور انہوں نے (اپنے اجتہاد کی) تکذیب کی، اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا وعدہ عذاب کی تکذیب کی لہذا کوئی خرابی لازم نہیں آتی۔

اس کے بعد علامہ آلوسی اس تاویل کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : کہ رسل (علیہم السلام) کی تعظیم کے زیادہ موافق اور جو چیز ان کی شان کے لائق نہیں ہے اس کو ان سے زیادہ دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی طرف اللہ سے بدگمانی کی نسبت کرنے کے بجائے ان کی قوم کی طرف یہ نسبت کی جائے یعنی ان کی قوم نے یہ گمان کیا تھا کہ رسولوں نے ان سے جھوٹا وعدہ کیا ہے۔ (روح المعانی، جز ١٣، ص ١٠٣، ١٠٤، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

علامہ آلوسی نے یہ غور نہیں کیا کہ اس تاویل میں بڑی خرابی یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے وعدہ عذاب سے مایوس ہوگئے حالانکہ اللہ تعالیٰ سے مایوس ہونا کفر ہے اور جبکہ حضرت ابن عباس کی صحیح روایت کی بنا پر معنی یہ ہوگا کہ کہ رسل عظام اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے اور بڑے عرصہ تک عذاب نہ آنے کی وجہ سے ان کی قوم نے یہ گمان کیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا۔ نیز جس تاویل کی بنا پر انبیاء (علیہم السلام) کی طرف اللہ سے بدگمانی کی نسبت لازم آتی ہے اس کو صرف خلاف اولی کہنا بھی درست نہیں بلکہ اس کو ناجائز کہہ کر مسترد کردینا چاہیے۔ جس طرح امام رازی اور امام ابو الحیان اندلسی نے کیا ہے اور ام المومنین حضرت عائشہ نے جس طرح اس روایت کو مسترد کردیا ہے۔ 

قرآن مجید کی آیات کے ترجمہ میں اس چیز کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو انبیاء (علیہم السلام) کی شان کے ناموافق ہو۔

سید ابو الاعلی مودودی اور شیخ امین احسن اصلاحی عام طور پر اس کا خیال نہیں رکھتے لیکن یہاں ان کا ترجمہ حضرت ابن عباس کی صحیح اور غیر موؤل روایت پر مبنی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف آیت نمبر 110