أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَفَمَنۡ هُوَ قَآئِمٌ عَلٰى كُلِّ نَفۡسٍۢ بِمَا كَسَبَتۡ‌ۚ وَجَعَلُوۡالِلّٰهِ شُرَكَآءَ ؕ قُلۡ سَمُّوۡهُمۡ‌ؕ اَمۡ تُنَـبِّـئُــوْنَهٗ بِمَا لَا يَعۡلَمُ فِى الۡاَرۡضِ اَمۡ بِظَاهِرٍ مِّنَ الۡقَوۡلِؕ بَلۡ زُيِّنَ لِلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مَكۡرُهُمۡ وَصُدُّوۡا عَنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنۡ هَادٍ ۞

ترجمہ:

کیا جو ہر شخص کے اعمال کا نگران ہے (وہ بتوں کی مانند ہوسکتا ہے ! ) اور لوگوں نے اس کے باوجود) اللہ کے شریک بنا لیے، آپ کہیے تم ان کے نام تو بتاؤ، یا تم اس کو ایسی چیز کی خبر دے رہے ہو جس کو وہ زمین میں نہیں جانتا یا یو نہی بےسردپات کر رہے ہو، بلکہ کافروں کے لیے ان کا فریب (خوبصورت بنادیا گیا اور ان کو راہ حق سے روک دیا گیا اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا جو ہر شخص کے اعمال کا نگران ہے (وہ بتوں کی مانند ہوسکتا ہے ! ) اور لوگوں نے (اس کے باوجود) اللہ کے شریک بنالیے، آپ کہیے کہ تم ان کے نام تو بتاؤ یا تم اس کو ایسی چیز کی خبر دے رہے ہو جس کو وہ زمین میں نہیں جانتا یا یونہی بےسروپا بات کر رہے ہو، بلکہ کافروں کے لیے ان کا فریب خوبصورت بنادیا گیا، اور ان کو راہ حق سے روک دیا گیا اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ (الرعد :33) 

مشرکین کے خود ساختہ شر کاء کا رد : 

فرمایا کیا جو جفس کے کیے ہوئے کاموں پر قائم ہے، اس قائم سے وہ معنی مراد نہیں ہے جو قاعدہ کی ضد ہوتا ہے یعنی، کھڑاہو جو بیٹھا ہو انہ ہو بلکہ اس سے مراد ہے جو مخلوق کے تمام کاموں کا متولی ہے، ان کو پیدا کرتا ہے، ان کو رزق دیتا ہے، ان کی حفاظر کرتا ہے اور ان کو ان کے کامو کی جزا اور سزا دیتا ہے یعنی وہ تمام ممکنات پر قادر ہے اور تمام معلومات کا عالم ہے، لہذا وہ تمام انسانوں کے احوال کا ناننے والا ہے اور ان کے تمام مطالب کی تکمیل پر قادر ہے، وہ دنیا میں ان کو نفع پہنچانے اور ان سے ضرر کو دور کرنے پر قادر ہے اور آخرت میں اطاعت گزاروں کو ثوب عطاکر نے اور نافرمانی کو عذاب دینے پر قادر ہے اور یہی معنی ہے اس آیت کا کہ کیا جو ہر شخص کے اعمال کا نگران ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کر سوا اور کوئی نہیں ہے، کیا اس کی مثل اور کوئی ہوسکتا ہے اور کیا کہ بت جو کسی کو نقصان پہنچاسکتے ہیں نہ نفع دے سکتے ہیں یہ اس کی مثل ہوسکتے ہیں جو ہر شخص کے اعمال کا نگران ہے اور جو ہر شخص کو نفع اور نقصان پہنچانے پر قادر ہے !

اس کے بعد فرمایا اور لوگوں نے (کے باوجود) اللہ کے شریک بنالیے ! یعنی جس کی یہ صفت ہے کہ جو ہر شخص کے اعمال کا نگران ہے انہوں نے اس کی وحدانیت کو نہیں مانا اور اس کی تعظیم اور تکریم اور اس کی عبادت نہیں کی اور اس کے شریک قرار دے دیئے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے خود ساختہ شرکاء کے متعلق فرمایا ان کے نام تو بتاؤ، یعنی یہ اس قدر حقیر اور نے بےمایہ ہیں کہ یہ اس لائق نہیں کہ ان کا نام لیاجائے یا ان کا کوئی نام رکھاجائے، اور اگر وہ یہ کہیں کہ ان شرکاء کے نام لات، منات، عزای اور ہبل ہیں تو فرمایا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دے رہے ہو جس کو وہ زمین میں نہیں جانتا، اور زمین کی قید اس لیے لگائی ہے کہ مشرکین لات اور منات وغیرہ کو صرف زمین میں خدا کا شریک مانتے تھے اور جس چیز کے زمین میں ہونے کو اللہ تعالیٰ نہ جانتا ہو وہ زمین میں ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ جو چیز بھی زمین میں ہے اس کا اللہ کو علم ہے اور جب اللہ تعالیٰ کو ان کو ہونے کا علم نہیں ہے تو یہ اس کو مستلزم ہے کہ زمین میں ان شرکاء کا کوئی وجود نہیں ہے۔ 

جب اللہ نے کافروں کو گمراہ کردیا پھر ان کی مذمت کیوں کی جاتی ہے ؟

اس کی بعد فرمایا بلکہ کافروں کے لیے ان کا فریب خوب صورت بنادیا گیا، اور ان کو رہ حق سے روک دیا گیا، اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ 

کافروں کے مکروفریب سے مراد ان کا کفر ہے، شیطان نے ان کے لیے ان کے کفر کو مذین کردیا تھا، یا کافر ان کے کے سامنے کفر کی تعریف اور تحسین کرتے تھے، یا وہ خود اپنے کفر کو اچھا اور قابل تعریف جانتے تھے کیونکہ ان کا کفر ان کے باپ دادا کی تقلید پر مبنی تھا، ان کو راہ حق سے روکنے والی ان کی یہی باپ دادا کی تقلید تھی، نیز وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے جیسا بشر گرد انتے تھے اور اپنے جیسے ایک شخص کو اپنا رہنما اور مقتد امان لینا ان کے لیے باعث عار تھا اور ان کا یہی تکبران کو راہ حق روکنے والا تھا، اور چونکہ انہوں نے اپنے لیے گمراہی کا راستہ اختیار کیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان میں گمراہی کو پیدا کردیا اس لیے فرمایا جس کو اللہ تعالیٰ گمرہ کردے اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے، ہماری اس تقریر سے یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کہ جب اللہ نے ہی ان کو گمراہ کردیا پھر ان کی دنیا میں کیوں مذمت کی جارہی ہے اور آخرت میں ان کو کیوں عذاب ہوگا !

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 13 الرعد آیت نمبر 33