اَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصۡلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرۡعُهَا فِى السَّمَآءِۙ ۞- سورۃ نمبر 14 ابراهيم آیت نمبر 24
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصۡلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرۡعُهَا فِى السَّمَآءِۙ ۞
ترجمہ:
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاکیزہ کلمہ بات کی کیسی مثال بیان فرمائی وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاکیزہ کلمہ بات کی کیسی مثال بیان فرمائے وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ (زمین) میں مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں۔ وہ درخت اپنے رب کے اذن سے ہر وقت پھل دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثال بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ اور ناپاک کلمہ (بات) کی مثال اس ناپاک درخت کی طرح ہے جس کو زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا گیا اس کے لیے بالکل ثبات نہیں۔ (ابراھیم :24، 26)
شجرہ طیبہ سے مراد کھجور کا درخت ہے :
ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مومنین اور کفار کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کلمہ طیبہ سے مراد لا الہ الا اللہ ہے اور شجر طیبہ سے مراد مومن ہے اور مجاہد عکرمہ نے کہا کہ شجرہ سے مراد کھجور کا درخت ہے اور اس آیت کا یہ معنی ہوسکتا ہے کہ مومن کے قلب میں کلمہ کی جڑ ہے اور ایمان ہے، جس طرح کھجور کے درخت کی جڑیں زمین میں پیوست ہوتی ہیں اسی طرح ایمان مومن کے سینہ میں راسخ ہوتا ہے، اور جس طرح کھجور کی شاخیں اوپر کی جانب بلند ہوتی ہیں، اسی طرح مومن کے نیک اعمال کو فرشتے اوپر کی جانب لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جو ان نیک اعمال پر ثواب عطا فرماتا ہے اس کو کھجور کے پھلوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تازہ کھجوروں کا ایک خوشہ لایا گیا تو آپ نے یہ آیت پڑھی : مَثَلا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (٢٤) تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ ( ابراھیم : ٢٥) آپ نے فرمایا یہ کھجور کا درخت ہے پھر آپ نے پڑھا : وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الأرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ ( ابراھیم : ٢٦) آپ نے فرمایا اس سے مراد حنطلہ (اندرائن کڑواپھل) ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3119، مسند ابو یعلی رقم الحدیث :4165، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :475، المستدرک ج 2 ص 352)
نیز حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایمان کی مثال اس درخت کی طرح ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہیں ایمان اس کی جڑیں ہیں نماز اس کی اصل ہے زکوہ اس کی شاخیں ہیں، روزے اس کے پتے ہیں اللہ کی راہ میں تکلیف اٹھانا اس کی روئید گی ہے اچھے اخلاق (بھی) اس کے پتے ہیں اور حرام کاموں سے بچنا اس کے پھل ہیں۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز 9 ص 314، مطبوعہ دارالفکر، 1415 ھ)
حضرت عبداللہ بن عمر وبن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ بےہودہ اور بےحیائی کی باتیں کرنے والے سے بغض رکھتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں محمد کی جان ہے جب تک امین کو خائن نہ قرار دیا جائے اور خائن کو امین نہ سمجھا جائے اور بےہودگی اور بےحیائی کا ظہور نہ ہوجائے اور رشتوں کو قطع نہ کیا جائے اور برے پڑوس نہ ہوں اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں محمد کی جان ہے بیشک مومن کی مثال سونے کے ٹکڑے کی طرح ہے اس کا مالک اس پر پھونک مارے تو اس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا ہے نہ کمی ہوتی ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں محمد کی جان ہے مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہے جس کا پھل پاکیزگی کے ساتھ کھا یا جاتا ہے اور پاکیزگی کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور وہ گرجائے تو ٹوٹتا ہے نہ خراب ہوتا ہے۔ (مسند احمدج 2 ص 119، طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث :6872، عالم الکتب)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہے اگر تم مومن کو اپنا ساتھی بناؤ گے تو وہ تم کو نفع دے گا اور اگر تم اس سے مشورہ کروگے تو وہ تم کو نفع دے گا اور اگر تم اس کے پاس بیٹھوگے تو وہ تم کو نفع دے گا اس کے ہرحال میں نفع ہے اسی طرح کھجور کے درخت کی ہر چیز میں نفع ہے۔ (شعب الایمان رقمالحدیث :9072، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1410 ھ)
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور وہ مسلمان کی مثل ہ ؛ ے مجھے بتاؤ وہ کون سا درخت ہے لوگو جنگل کے درختوں کے متعلق سوچنے لگے حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا میرے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے پس مجھے (بزرگوں کے سامنے لب کشائی کرنے سے) حیا آئی پھر لوگوں نے کہا یارسول اللہ ! ہمیں بتائیے وہ کون سا درخت ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ کھجور کا درخت ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :61، صحیح مسلم رقم الحدیث 2811، السنن الکبرا اللنسائی رقم الحدیث 11261، مسند احمد رقم الحدیث :4599)
کھجور کا درخت اور مومن میں وجوہ مشابہت :
اللہ تعالیٰ نے ایمان کو کھجور کے درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے کیونکہ جس طرح کھجور کے درخت کی جڑیں زمین میں ثابت ہوتی ہیں اسی طرح مومن کے دل میں ثابت ہوتا ہے اور جس طرح کھجور کے پتے آسمان کی جانب ہوتے ہیں اسی طرح مومن کی نیک اعمال کو فرشتے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور جس کھجور کا پھل ہر وقت دستیاب ہوتا ہے، کبھی تازہ اور کبھی خشک چھواروں کی صورت میں، اسی طرح کامل مومن کا ہر عمل موجب ثواب ہوتا ہے اس کا بولنا اس کا خاموش رہنا اس کا چلنا پھرنا اس کا کھانا پینا اور اس کی خالص عبادات میں تقویت تازگی حاصل کرنے کے لیے اس کا سونا غرض یہ کہ ہر وقت ہر عمل موجب ثواب ہوتا ہے پھر جس طرح کھجور کے تنے کے زشہتیر بن جاتے ہیں اس کا پھل تازہ اور خشک ہرحال میں کھا یا جاتا ہے اس کے پتوں کی چٹائیاں، پنکھے، ٹوپیاں اور چنگیریاں بن جاتی ہیں سی طرح مومن کا کوئی عمل ضائع نہیں ہوتا اور اس کا ہرحال موجب ثواب ہے اس کو اگر کوئی نعمت ملے تو وہ اس پر شکر کرتا ہے اور اگر اس پر کوئی مصیبت آئے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے کھجور کے درخت میں ایک ایسا وصف بھی ہے جو اور کسی درخت میں نہیں ہے اور وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت زیادہ محبت کرنا حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فراق سے کھجور کا درخت چخیں مار کر رونے لگا تھا۔ حدیث میں ہے کہ :
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ مسجد (نبوی) کی چھت کھجور کے شہتیر سے بنی ہوئی تھی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خطبہ دیتے تو کھجور کے تنے سے ٹیک لگاکر خطبہ دیتے تھے جب آپ کے لیے منبربنادیا گیا تو آپ اس منبر پر بیٹھ گئے اس وقت ہم نے اس کھجور کے ستون کی اس طرح رونے کا اواز سنی جس طرح بچہ والی اونٹنی بچے کے فراق میں روتی ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کھجور کے ستون پر ہاتھ رکھا تو وہ پر سکون ہوگیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3585، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :495، مسند احمدرقم الحدیث :21295، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :1124)
اسی طرح مومن کا حال یہ ہے کہ وہ سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہے حدیث میں ہے کہ :
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے نزدیک میں اس کے والد۔ اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ صحیح البخاری رقم الحدیث 15، صحیح مسلم رقم الحدیث :44، سنن نسائی رقم الحدیث :5041، مسند احمد رقم الحدیث :12845)
شجر طیبہ سے مراد شجر معرفت ہے :
امام رازی نے فرمایا ہے : شجرہ طیبہ سے مراد شجر معرفت ہے اس کی اصل ثابت ہونے سے مراد یہ ہے کہ مومن کے دل پر اللہ کی تجلیات وارد ہوتی ہے اور آسمان میں اس کی شاخیں ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعظیم کرتا ہے اور اللہ کی مخلوق پر شفقت کرتا ہے ان پر رحم کرتا ہے ان کی خطاؤں سے درگزر کرتا ہے ان سے شر کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان خیر ان تک پہنچانے کی سعی کرتا ہے اور وہ درخت اپنے رب کے اذن سے ہر وقت پھل دیتا ہے اس سے مراد ہے کہ وہ کائنات کی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تلاش کرتا ہے اس کے احکام کو سن کر اس پر عمل کرتا ہے اور ہرحال میں حق بات بیان کرتا ہے اور پھر اس مقام سے ترقی کرتا ہے اور جس چیز کو بھی دیکھتا ہے اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی ذات کی تجلیات کو دیکھتا ہے اور پھر اس مقام سے بھی ترقی کرتا ہے اور پھر اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ کسی نعمت کے ملنے پر اس نعمت کی وجہ سے خوش نہیں ہوتا بلکہ اس وجہ سے خوش ہوتا ہے کہ اس کو یہ نعمت اللہ کی طرف سے ملی ہے ہماری اس تقریر سے یہ معلوم ہوا کہ یہ مثال عالم القدس حضرت الجلا اور کبریائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے مزید ہدایت اور رحمت کا سوال کرتے ہیں بعض علماء نے کہا درخت میں تین چیزیں ہوتی ہیں : اس کی جڑیں اس کاتنا اور اس کی شاخیں اسی طرح ایمان کے بعد ارکان ہیں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالابدان (تفسیر کبیرج 7 ص 90 ۔ 92، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)
ناپاک کلمہ اور ناپاک درخت کا مصداق اور وجہ مشابہت :
اس کے بعد اللہ تعالے نے نے فرمایا : اور ناپاک کلمہ (بات) کی مثال اس ناپاک درخت کی طرح ہے جس کو زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا گیا اور اس کے لیے ثبات نہیں۔
ناپاک کلمہ سے مراد شرک ہے اور ناپاک درخت سرمراد حنظل ہے یعنی اندرائن، یہ بہت کڑوے پھل کا درخت ہے۔ (اسنن الترمذی رقم الحدیث :3119، مسند ابو یعلی رقم الحدیث :4165)
امام عبدالرحمن جوزی متوفی 593 ھ نے لکھا ہے کہ اس ناپاک درخت کی تفسیر میں پانچ اقوال ہیں :
(1) حضرت انس بن مالک (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد حنظلہ ہے اور حضرت انس اور مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔
(2) ابن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ناپاک درخت سے مراد کافر ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کافر کا عمل مقبول نہیں ہوتا اور اس کے اعمال اللہ کی طرف نہیں چڑھتے پس اس کی جڑزمین میں مظبوط ہے نہ آسمان میں اس کی شاخیں ہیں
۔ (3) ضحاک نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد الکثو ثی ہے یہ ایک ایسی گھاس ہے جس کی شاخیں ہوتی ہیں اور جڑیں نہیں ہوتی۔
(4) حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت یہ ہے کہ اس سے مراد لہسن کا پودا ہے۔
(5) ابو انفیسان نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ ایک مثل ہے اور ایسا کوئی درخت پیدا نہیں کیا گیا۔ (زادالمسیر ج 4 ص 361، 360، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، 1407)
کافر اس ناپاک درخت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ کافر کا کوئی نیک عمل اوپر لے جایا جاتا ہے نہ اس کی کوئی نیک اور پاکیزہ بات ہوتی ہے اور نہ اس کے قول کی کوئی صحیح بنیاد ہوتی ہے۔
امام رازی نے شجرہ خبیثہ کی تفسیر میں یہ کہا ہے کبھی کسی درخت کا پھل بہت بدبودار ہوتا ہے اور وہ اس عتبار سے خبیث ہوتا ہے اور کبھی وہ بہت کڑوا اور بد ذائقہ ہوتا ہے وہ اس وجہ سے خبیث ہوتا ہے کبھی اس کی صورت قبیح ہوتی ہے اور کبھی اس کیا تاثیر بہت مضر اور نقصان دہ ہوتی ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 14 ابراهيم آیت نمبر 24