رمضان المبارک کی عظمت و حرمت اور فضیلت

تحریر: محمد ضیاءالحق قادری
اللہ سبحانہ تعالٰی نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو معظم و محتشم بنایا اور اس کی فطرت سلیمہ میں نیکی اور بدی بھلائی اور برائی، فرمانبرداری،نافرمانی، سرکشی خوبی و خامی،دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں یکساں طور پر رکھ دی ہیں اسی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ کسی بھی انسان سے اچھائی اور برائی دونوں ہی صادر ہو سکتی ہیں۔ایک انسان سے اعمال حسنہ بھی ممکن ہیں اور اعمال سیہ بھی اس کے باوجود کوئی سیات و معصیات سے اجتناب کرکے اپنی زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کو حسنات وطاعات سے مزین اور آراستہ اور پیراستہ کرلے تو یہ اس کی کامیابی اور خالق و مخلوق کے نزدیک معظم و مکرم ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے ۔اور یھی تقوی و پرہیز گاری ہے جو روزہ کا مقصد اصلی ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا
يا ايها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين الذين من قبلكم لعلكم تتقون (سورة البقرة ١٨٣)
 ترجمہ اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے (کنز الایمان )
اياما معدودت فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من ايام اخر و على الذين يطيقونه فدية طعام مسكين فمن تطوع خيرا فهو خير له و ان تصوموا خير لكم ان كنتم تعلمون..(سورة البقرة ١٨٤) 
ترجمہ گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنھیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو  (کنز الایمان )
تقوی کا معنی ہے نفس کو برائیوں سے روکنا اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ روزہ ہے۔جیسا کہ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سلطان مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ عزوجل کے رسول  مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجئے جس سے حق تعالٰی مجھے نفع دیں ۔کریم آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا عليكم بالصوم فإنه لا مثل له (سنن نسائی جلد اول صفحہ 140)
ترجمہ  روزہ رکھا کرو اس کے مثل کوئی عمل نہیں ۔
اب رمضان المبارک کی آمد آمد ہے گویا یہ مہینہ نیکوں اور طاعات کے لیے موسم بھار کی طرح ہے اسی لیے رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے عظمتوں و فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے اس ماہ مبارک میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو اپنی رضا، محبت و الفتوں سے نوازتا ہے۔اس ماہ مبارک میں جب روزہ دار کوئی عمل صالح کرتا ہے ۔تو اس کے عمل خیر کی بدولت اس کے اجر و ثواب کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور اس کی برکت سے پچھلی زندگی کے تمام صغائر گناہ معاف ہو جاتا ہے اور جب رات کو قیام  (تراویح )تو اس سے بھی ماضی کے گناہ معاف ہو جاتا ہے ۔اس ماہ مبارک میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے ۔
اس ماہ مبارک کی ایک رات جسے شب قدر کھا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے ۔رمضان المبارک کا روزہ فرض اور تراویح کو سنت موکدہ بنایا ہے ۔رمضان المبارک صبر کا مہینہ ہے اور صبر کی جزا جنت ہے یہ ہمدردی اور اخوت و محبت خیر خواہی کا مہینہ ہے ۔اس ماہ مبارک میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ۔اس میں روزہ افطار کرنے والے کی مغفرت گناہوں کی بخشش اور جہنم سے نجات کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے چاہے وہ افطار ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ کراے ۔ہاں اگر روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلایا یا پلایا تو اللہ تعالٰی اسے حوض کوثر سے ایسا پانی پیلاے گا ۔جس کے بعد وہ جنت الفردوس میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا۔اس ماہ مبارک کا پھلاعشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے نجات کا ہے جس نے اس ماہ مبارک میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی تو اللہ عزوجل اس کے بدلے میں اس کی مغفرت اور اسے نار جہنم سے نجات کا پروانہ عطاء فرمائے گا ۔پورا سال جنت النعيم کو رمضان المبارک کے لیے سجایا جاتا ہے عام ضابطہ یہ ہے کہ ایک نیکی کا اجر دس سے لے کر سات سو تک دیا جاتا ہے مگر روزہ اس قانون سے مستثنٰی ہے ۔
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے روزہ صرف میرے لیے اس کا اجر صرف میں دونگا۔
روزہ دار کو دو بشارت دی جاتی ہے ایک افطار کے وقت کہ اس کا روزہ مکمل ہوا اور دعائیں مقبول ہوئیں ۔اور اللہ عزوجل کی رحمت عظمی جو رب العزت نے بندوں کو عطاء کیا اس سے روزہ افطار کیا اور دوسری خوشی یہ ہے کہ اس کو اللہ پاک کا قرب حاصل ہو گیا۔روزہ دار کے منہ کی بو اللہ عزوجل کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ خوشبو دار ہے ۔روزہ اور قرآن مجید دونوں بندے کی شفاعت فرمائیں گے ۔اور بندے کے حق میں دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔
اب چند وہ باتیں عرض معروض کی جاتی ہیں جن کا حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خود بھی اہتمام فرماتے اور امت مسلمہ کو بھی اس کی تعلیم فرماتے تھے ۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شعبان کی تاریخوں کی جس قدر نگہداشت فرماتے تھے اتنا دوسرے مہینوں کی نہیں فرماتے تھے ۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم احصوا هلال شعبان لرمضان 
ترجمہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رمضان کے لیے شعبان کے چاند کا حساب رکھو (ترمذی شریف )
2عن انس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تسحروا فان في السحور بركة  
ترجمہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سحری کھاؤ کہ سحری میں برکت ہے  (مسلم و بخاری شریف )
3عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يزال الدين ظاهرا مااجل الناس الفطر لأن اليهود والنصارى يوخرون 
ترجمہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دین غالب رہے گا جب تک لوگ جلدی افطار کرتے رہیں کیونکہ یہود و نصری دیر سے افطار کرتے ہیں ۔(ابو داؤد شریف )
عن سهل قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر 
 ترجمہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگ بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار جلدی کرتے رہیں گے ۔
(بخاری شریف )
عن معاذ بن زهرة قال ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا افطر قال اللهم لك صمت وعلى رزقك افطرت 
ترجمہ روایت ہے حضرت معاذ بن زہرہ سے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب افطارتے تو فرماتے الہی میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق پر افطار کیا  
(ابو داؤد شریف مرسلا)
رمضان المبارک میں ذکر و اذکار کثرت سے نوافل ادا کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ مبارک میں سائل نہ مراد نہیں ہوتا۔
روزہ دار کی روزانہ ایک دعا بارگاہ مولی عزوجل میں قبول ہوتی ہے ۔
رمضان المبارک میں روزانہ بہت سے لوگ کو دوزخ سے نجات کا پروانہ عطاء کیا جاتا ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رمضان المبارک کے اخیر عشر میں خود بھی شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل وعیال کو بیدار کرتے ۔
عن عايشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تحروا ليلة القدر في الوتر من العشر انا واخر من رمضان 
ترجمہ روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرماتی ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی طاق تاریخوں میں ڈھونڈ (بخاری شریف )
جب ليلة القدر  آتی ہے تو جبریل علیہ السلام فرشتوں کی معیت میں نازل ہوتے ہیں اور ہر بندہ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ عزوجل کا ذکر کر رہا ہو  (اس میں تلاوت قرآن مجید ۔تسبیح و تہلیل اور نوافل سب ذکر و اذکار جمیلہ شامل ہیں الغرض کسی طریقے سے ذکر و عبادت میں مشغول ہو )اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں ۔
*ليلة القدر کی دعا مع ترجمہ   اللهم انك عفو تحب العفو فاعف عني 
الہی تو معاف فرمانے والا ہے معافی پسند کرتا ہے مجھے معافی دے دے ۔
کسی نے بغیر عذر شرعی اور بیماری کے رمضان المبارک کا ایک روزہ ترک کر دیا خواہ وہ ساری زندگی روزہ رکھتا رہے وہ اس کی تلافی نہیں کر سکتا۔
رمضان المبارک میں یہ اوراد وظائف کثرت سے کی جائے اور وہ عمل جس سے رب العزت کی خوشنودی حاصل ہو کلمہ طیبہ  لا الله الا الله محمد رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم کی کثرت 
استغفار کی کثرت 
اور سبحانہ تعالٰی سے جنت طلب کی دعا کہ جائے اور جہنم سے نجات طلب کی جائے۔
ترویج کے بارے میں سلطان مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد عالی شان ہے کہ جس نے ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کا روزہ رکھا اس کے پھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کیا ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے اس کے پھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔
اعتکاف کے بارے میں آپ کریم آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان المبارک میں آخری دس دن کا اعتکاف کیا اس کو دو حج اور دو عمرے کا ثواب ملے گا ۔
دوسری حدیث طیبہ میں ہے کہ جس نے اللہ تعالٰی اس کے دوزخ کے درمیان ایسی تین خندقیں بنادے گا کہ ہر خندق کا فاصلہ مشرق و مغرب سے زیادہ ہوگا۔
رمضان المبارک میں قرآن مجید کا دور اور جود و سخاوت کی جائے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے اور رمضان المبارک میں آپ کی سخاوت بھت بڑھ جاتی تھی حضرت جبریل امین علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات میں آکر کریم آقا علیہ السلام سے قرآن مجید کا دور کیاکرتے تھے ۔(بخاری شریف )
روزہ کی حالت میں بیہودہ باتوں مثلا غیبت بھتان گالی گلوج لعن طعن ۔غلط بیانی ۔تمام جرائم سے پرہیز کرے ورنہ سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔اگر کوئی دوسرا آکر ناشائستہ کلمات کرے تو اسے جواب دے دے کہ میں روزہسے ہوں۔کیونکہ روزہ ڈھال ہے جب تک کوئی اس کو پھاڑے نہیں اور یہ ڈھال جھوٹ اور غیبت سے پھٹ جاتی ہے ۔
یہ عظمت اور برکت والا مہینہ گویا ایمان اور اعمال کو جلا بخشنے کے لیے اتا ہے 
رمضان عربی کا لفظ ہے جس کا اردو میں معنی ہی شدت حرارت کے ہیں یعنی اس ماہ مبارک میں اللہ عزوجل روزہ کی برکت اور اپنی اپنی رحمت خاصہ کے ذریعہ اہل ایمان کے گناہوں کو جلا دینے اور ان کی بخشش فرما دیتا ہے ۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل شهر رمضان فتحت أبواب السماء و في رواية فتحت أبواب الجنة و غلفت أبواب جهنم و سلسات الشياطين و في رواية فتحت أبواب الرحمة 
ترجمہ روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رمضان المبارک آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں 
(مسلم بخاری شریف )
شهر رمضان الذين انزل فيه القرآن هدي للناس و بينت من الهدى و الفرقان فمن شهد منكم الشهر فليصمه و من كان مريضا أو على سفر فعدة من ايام اخر يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر ولتكملوا العدة ولتكبروا الله على ما هديكم و لعلكم تشكرون
(سورة البقرة ١٨٥) ترجمہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پاے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو 
(کنز الایمان )
قرآن مجید بتمامہ رمضان المبارک کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتا فوقتا حسب اقتضاے حکمت جتنا جتنا منظور الہی ہوا جبریل امین لاتے رہے یہ نزول تئیس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔
ليلة القدر خير من الف شهر°تنزل الملكية و الروح فيها باذن ربهم من كل امر°سلام هي حتى مطلع الفجر°(القدر)
ترجمہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ○اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے ○وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک 
(کنز الایمان )
اس لئے ہمارے اکابرین علمائے کرام نے رمضان المبارک میں روزہ و تراویح کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کو سب سے بہتر عبادت قرار دیا۔اور رمضان المبارک کی ہر رات ایک منادی اعلان کرتا ہے ۔
یا باغي الخير أقبل و يا باغي الشر اقصر 
ترجمه اے خير کے طلب کرنے والے متوجہ ہو اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے برائی سے باز رہ۔
یعنی خیر کے متلاشی اللہ تعالٰی کی رضا والے کاموں میں مشغول ہو اور اس کی نافرمانی اور گناہوں سے باز آجا یہی وجہ ہے کہ اس کا اثر اور ظہور ہر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے کہ رمضان المبارک میں اہل ایمان کا عموما رجحان اور میلان نیکوں اور عبادات کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے۔
رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس میں ایک انسان کوشش کرے تو ایک رمضان سارے گناہ بخشوانے کے لیے کافی ہیں جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور یہ یقین کرکے رکھے کہ اللہ عزوجل کے تمام وعدے سچے ہیں اور وہ تمام اعمال حسنہ کا بہترین بدلہ عطاء فرمائے گا ۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی شان ہے کہ جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے رمضان میں قیام کرے گا اس کے پچھلے اور اگلے سبق (صغائر )گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔
دین متین کے جتنے بھی ارکان ہیں وہ طاقت پیدا کرتے ہیں ۔یعنی ایک عبادت دوسری عبادت کے لیے معین و مددگار اور تقویت کا باعث ہوتی ہے ۔اسی طرح ماہ صیام کا روزہ سال کے پورے گیارہ مہینے کی عبادت کے لیے طاقت پیدا کرتا ہے ۔روزہ کی وجہ سے دوسری عبادات کی ادائیگی کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے اور قوت و توانائی ملتی ہے ۔اگر فرض روزہ کے تمام تقاضوں کا لحاظ رکھا گیا تو اس کا اثر پورے گیارہ مہینوں پر پڑے گا اور روزہ دار کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی ہوگی۔
روزہ جن چیزوں سے معمور کیا گیا ہے اس کا لحاظ رکھا جائے روزہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ عزوجل کی طرف متوجہ ہوا جائے ۔روزہ کے ساتھ ۔تراویح ۔اشراق ۔چاشت چاشت ۔صلاة الحاجة. صلاة التسبيح. تلاوت قرآن صدقہ و خیرات عشرہ اخیرہ کے اعتکاف کی کوشش شب قدر کی تلاش اور دعاؤں کی کثرت کا معمول بنایا جائے اور جتنا ہو سکے ان پر عمل پیرا ہوا جائے ۔اس ماہ مبارکہ میں غریبوں۔ یتیموں بیواؤں۔ مفلسوں ۔نادروں کے ساتھ اخوت و محبت ہمدردی کا معاملہ کیا جائے اور ان پر سخاوت کی جائے ۔یہ اس لئے ایک تو ان کا حق ہے اور دوسرا اس لئے کہ صدقہ و خیرات کرنے سے ممکن ہے اللہ تعالٰی کے کسی بندے کادل خوش ہو جائے تو اللہ پاک اس کو قبول فرمائے اور ہمارا مقصد پورا ہو جائے ۔یا ہو سکتا ہے ہماری عبادت ہماری تلاوت میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا اس قابل نہ ہوں کہ وہ قبولیت کے مقام پر فائز ہو سکے تو اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی اسے قبول فرما لے ۔اس لئے اس ماہ مبارکہ میں ہمیں پوری طرح خیرات و صدقات کی طرف سعی بہبود کرنا چاہیے ۔اس کی عظمتوں و برکتوں تقاضا یہ ہے ۔کہ اس کی حرمت کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے ۔کہ رمضان المبارک اللہ پاک کا شاہی مہمان ہے جو ہمارے پاس بوجھ بن کر نہیں بلکہ رحمتوں و برکتوں کا خزانہ لے کر آیا ہے اس لئے اس کے  منافی کوئی عمل نہ کریں جس سے اس کے تقدس کی حرمت پامال نہ ہونے پائے ۔اللہ عزوجل ہم سب کو رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہماری جمیع عبادات کو قبول فرمائے اور آخرت میں حضور علیہ السلام کی شفاعت کے صدقے جنت الفردوس نصیب فرمائے آمین یا رب العالمین