أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَخۡلُقُوۡنَ شَيۡـئًا وَّهُمۡ يُخۡلَقُوۡنَؕ ۞

ترجمہ:

اور وہ جن غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ جن غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (النحل : 21 ۔ 20)

بتوں کے خدا اور سفارشی ہونے کا ابطال 

سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بکثرت تخلیقات ذکر فرمائی تھیں اور ان تخلیقات سے اپنی الوہیت اور توحید پر استدلال فرمایا تھا، مشرکین مکہ پتھر کی بےجان مورتیوں کی عبادت کرتے تھے اور ان مورتیوں کو اس جہان کا پیدا کرنے، پالنے والا اور خدا مانتے تھے، ان کی عبادت کرتے تھے، اور یہ مانتے تھے کہ وہ اللہ کے سامنے ان کی سفارش کریں گے، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی ان تمام باتوں کا رد فرمایا ہے۔

پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ بت کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں اور خدا مخلوق نہیں ہوتا بلکہ وہ ساری کائنات کا خالق ہوتا ہے، پھر فرمایا : وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں اور خدا زندہ ہوتا ہے مردہ نہیں ہوتا، اس کے بعد فرمایا : اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے، مشرکین یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ بت قیامت کے دن ان کی سفارش کریں گے، اللہ تعالیٰ نے بتایا یہ سفارش کیا کریں گے، یہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ قیامت کب ہوگی، ان کو کب اٹھایا جائے گا، امام رازی اور علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بتوں کو اٹھائے گا، ان کے ساتھ ارواح ہوں گی اور ان کے شیاطین ہوں گے پھر ان سب کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا۔

والذین یدعون من دون اللہ کی وہ تفسیر جو سید مودودی نے کی۔

ہم نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ والذین یدعون من دون اللہ، اور وہ جن غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے، اس سے مراد بت ہیں، تمام قدیم اور مستند مفسرین نے والذین یدعون من دون اللہ کی تفسیر بتوں کے ساتھ کی ہے لیکن اس کے برخلاف سید ابو الاعلی مودودی متوفی 1399 ھ نے اس کی تفسیر انبیاء اور اولیاء کے ساتھ کی ہے اور جو لوگ انبیا اور اولیا کو پکارتے ہیں انہوں نے اس پکارنے کو عبادت قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں :

یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جارہی ہے وہ فرشتے یا جن یا شیاطین یا لکڑی اور پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں بلکہ اصحاب قبور ہیں اس لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں، ان پر اموات غیر احیاء کا اطلاق نہیں ہوسکتا، اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لیے ما یشعرون ایان یبعثون کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کردیتے ہیں۔ اب لا محالہ اس آیت میں الذین یدعون من دون اللہ سے مراد وہ انبیا، اولیا، شہدا، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیت عرب کی تاریخ سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ کون پڑھا لکھا نہیں جانتا ہے کہ عرب کے متعدد قبائل ربیعہ، کلب، تغلب، قضاعہ، کنانہ، حرث، کعب، کندہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے اور یہ دونوں مذاہب بری طرح انبیا، اولیا اور شہدا کی پرستش سے آلودہ تھے، پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے، جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا، بخاری میں ابن عباس کی روایت ہے کہ ود، سواع، یغوث، یعقو، نسر یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے، حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ اساف اور نائلہ دونوں انسان تھے، اسی طرح کی روایات لات، منات اور عزی کے بارے میں بھی موجود ہیں، اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عزی اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا لات کے ہاں اور گرمی عزی کے ہاں بسر کرتے تھے، سبحانہ و تعالیٰ عما یصفون۔ (تفہیم القرآن ج 2 ص 533، مطبوعہ لاہور، 1402 ھ)

سید مودودی کی تفسیر پر بحث و نظر 

سید ابو الاعلی مودودن نے والذین یدعون من دون اللہ کا مصداق انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین کو قرار دیا یہ خالص تفسیر بالرائے ہے، قدیم اور مستند تفاسیر کے خلاف ہے، پہلے ہم مستند تفاسیر کے حوالہ جات کے ساتھ والذین یدعون من دون اللہ کا معنی اور اس کا صحیح مصداق بیان کریں گے، اور احدیث صحیحہ سے انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کی وفات کے بعد ان سے سے مدد طلب کرنے کے جواز بیان کریں گے اور اس سلسلہ میں محققین علماء کرام اور خصوصا سید ابو الاعلی مودودی کے مسلم بزرگوں کی تصریحات نقل کریں گے اور مشکل کشا اور فریاد رس ایسے الفاظ کا ثبوت بھی ان ہی کے مسلم بزرگوں کے حوالوں سے بیان کریں گے، فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق۔

والذین یدعون من دون اللہ میں یدعون کا صحیح ترجمہ عبادت کرنا ہے پکارنا نہیں ہے۔

سید ابو الاعلی مودودی نے اس آیت میں یدعون کا ترجمہ پکارتے ہیں کیا ہے جبکہ ایسے مواقع پر یدعون کا صحیح ترجمہ ہے عبادت کرتے ہیں، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی 1176 ھ اس آیت کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

وآنانکہ مے پر ستند کافراں ایشاں را بجز خدا نے آفریدند چیزے راد خود شان آفریدہ مے شوند۔

اور شیخ اشرف علی تھانوی متوفی 1364 ھ لکھتے ہیں :

اور جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود ہی مخلوق ہیں۔

اور سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ اس آیت میں والذین یدعون من دون اللہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

والالھۃ الذین تعبدونھم ایھا الکفار۔ اور وہ معبود جن کی تم عبادت کرتے ہو اے کفار۔ (روح المعانی جز 14، ص 176، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1417 ھ)

دراصل سید مودودی نے اس آیت میں یدعون کا معنی پکارتے ہیں اس لیے کیا ہے کہ اس آیت کو ان مسلمانوں پر چسپاں کرسکیں جو اپنی مہمات میں انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کو پکارتے ہیں کیونکہ اگر وہ اس آیت کا معنی عبادت کرتے تو پھر وہ اس آیت کو مسلمانوں پر چسپاں نہیں کرسکتے تھے کیونکہ وہ انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کی بہرحال عبادت نہیں کرتے۔ 

والذین یدعون من دون اللہ کا مصداق اصنام اور بت ہیں، انبیاء اور اولیاء نہیں۔

سید ابو الاعلی مودودی نے لکھا ہے کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جارہی ہے وہ لکڑی یا پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں بلکہ اصحاب قبور ہیں، لکڑی اور پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لیے ما یشعرون ایان یبعثون کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کردیتے ہیں، اب لا محالہ اس آیت میں الذین یدعون من دون اللہ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں۔

اب دیکھیے قدیم اور مستند مفسرین نے الذین یدعون من دون اللہ سے مراد کس کو لیا ہے۔

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے : اور تمہارے وہ بت جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، اے لوگو یہ معبود کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے یہ خود پیدا کیے ہوئے ہیںِ پس جو خود بنایا ہوا ہو، اور اپنے لیے بھی کسی نفع اور ضرر کا مالک نہ ہو وہ کیسے معبود ہوسکتا ہے۔ 

اور اموات غیر احیاء وما یشعرون ایان یبعثون کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ یہ بت جن کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کی جاتی ہے مردہ ہیں، ان میں روحیں نہیں ہیں اور یہ اپنی پرستش کرنے والوں کے لیے کسی ضرر اور نفع کے مالک نہیں ہیں۔ (جامع البیان جز 14، ص 125، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

امام عبدالرحمن بن محمد بن ادریس رازی ابن ابی حاتم متوفی 327 ھ لکھتے ہیں :

قتادہ نے کہا یہ بت جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے مردہ ہیں، ان میں روحیں نہیں ہیں، الخ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : 12497، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1417 ھ)

امام عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی 593 ھ لکھتے ہیں :

اموات غیر احیاء اس سے مراد اصنام (بت) ہیں فرا نے کہا اموات کا معنی یہاں پر ہے ان میں روح نہیں ہے۔ اخفش نے کہا غیر احیاء اموات کی تاکید ہے، اور ما یشعرون ایان یبعثون کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس میں دو قول ہیں۔

(1) حضرت ابن عباس نے کہا : اس سے مراد اصنام (بت) ہیں ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ حشر میں اصنام کو بھی اٹھائے گا، ان کے ساتھ روحیں ہوں گی اور ان کے ساتھ ان کے شیاطین ہوں گے، اور وہ کفار کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے، پھر شیاطین کو اور ان بتوں کی عبادت کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا۔

(2) مقاتل نے کہا وما یشعرون سے مراد کفار ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا۔ (زاد المسیر ج 4، ص 437 ۔ 438، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، 1412 ھ)

امام فخرالدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی 606 ھ لکھتے ہیں :

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصنام (بتوں) کی کئی صفات ذکر فرمائی ہیں۔ (1) وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے اور خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ (2) وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ حقیقت میں معبود ہوتے تو زندہ ہوتے مردہ نہ ہوتے حالانکہ ان اصنام (بتوں) کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ (3) وما یشعرون ایان یبعثون، وما یشعرون کی ضمیر اصنام کی طرف لوٹتی ہے یعنی یہ بت نہیں جانتے کہ ان کو کس وقت اٹھایا جائے گا۔ (تفسیر کبیر ج 7، ص 195 ۔ 196 ۔ ملخصا، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

اموات غیر احیا سے مراد اصنام (بت) ہیں، ان میں روحیں نہیں ہیں اور نہ وہ سنتے اور دیکھتے ہیں یعنی وہ جمادات ہیں سو تم کیسے ان کی عبادت کرتے ہو جبکہ تم زندہ ہونے کی بنا پر ان سے افضل ہو۔ وما یشعرون اس کا معنی یہ ہے کہ یہ بت نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا، ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ کافروں کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ عقل اور علم رکھتے ہیں اور اللہ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے تو ان کے عقیدہ کے اعتبار سے ان سے خطاب فرمایا۔ اور ایک تفسیر یہ ہے کہ قیامت کے دن ان بتوں کو اٹھایا جائے گا اور ان کی روحیں ہوں گی اور وہ کافروں کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور دنیا میں یہ بت جماد ہیں، یہ نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا۔ (الجامع الاحکام القرآن جز 10، ص 85 ۔ 86، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی دمشقی متوفی 774 ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ یہ اصنام (بت) جن کی کفار اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

اتعبدون ما تنحتون۔ (الصافات :95) کیا تم ان بتوں کی عبادت کرتے ہو جن کو تم خود تراشتے ہو۔ (تفسیر ابن کثیر ج 2، ص 626، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 14189 ھ)

شیخ محمد بن علی بن محمد شوکانی متوفی 1250 ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے یہ بیان شروع کیا کہ اصنام کسی بھی چیز کو پیدا کرنے سے عاجز ہیں تو وہ عبادت کے کس طرح مستحق ہوسکتے ہیں۔ اموات غیر احیا یعنی یہ اصنام مردہ اجسام ہیں اور وما یشعرون ایان یبعثون کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ان بےجان بتوں کو یہ بتا نہیں ہے کہ جو کفار ان کی عبادت کرتے ہیں ان کو کب اٹھایا جائے گا۔ (فتح القدیر ج 3، ص 215 ۔ 216 ۔ مطبوعہ دار الوفاء بیروت، 1418 ھ)

اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ تمام معتمد اور قدیم مفسرین نے والذین یدعون من دون اللہ کا مصداق بتوں کو قرار دیا ہے اور سید ابو الاعلی مودودی نے جو اس کا مصداق انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین کو قرار دیا ہے یہ ان کی منفرد رائے ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ خوارج بدترین مخلوق ہیں، جو آیات کافروں کے متعلق نازل ہوتی ہیں وہ ان کو مومنین پر چسپاں کرتے ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب استتابۃ المرتدین باب 6 ۔ قتل الخوارج)

اور سید ابو الاعلی مودودی نے جو آیت بتوں کے متعلق نازل ہوئی ہے اس کو انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین پر منطبق کیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

والذین یدعون من دون اللہ سے انبیاء اور اولیاء مراد لینے کے شبہات اور ان کے جوابات۔

سید ابو الاعلی مودودی نے لکھا ہے کہ لکڑی اور پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے۔ ہم متعدد مفسرین کے حوالوں سے لکھ چکے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ بتوں کو قیامت کے دن اٹھایا جائے گا، ان میں روح ڈالی جائے گی اور وہ ان کافروں سے بیزاری کا اظہار کریں گے جو ان کی عبادت کرتے تھے، اور حضرت ابن عباس کی تفسیر سید مودودی کی تفسیر پر بہرحال مقدم ہے، نیز انہوں نے لکھا ہے کہ وما یشعرون ایا یبعثون کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کردیتے ہیں، سید ابو الاعلی مودودی کی یہ دلیل بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ مفسرین نے اس کی دو تفسیریں کی ہیں : ایک یہ ہے کہ وما یشعرون کی ضمیر بتوں کی طرف لوٹتی ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا : بتوں کے لیے ذوی العقول کا صیغہ استعمال فرمایا ہے کیونکہ کفار ان کے لیے علم، عقل اور شفاعت کرنے کا عقیدہ رکھتے تھے اور معنی یہ ہے کہ بتوں کو شعور نہیں ہے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا، اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ وما یشعرون کی ضمیر بتوں کی طرف لوٹتی ہے اور یبعثون کی ضمیر کفار کی طرف لوٹتی ہے اور معنی یہ ہے کہ یہ بت نہیں جانتے کہ کافروں کو کب اٹھایا جائے گا، اس لیے یہ الفاظ خارج از بحث نہیں ہیں۔

نیزمودودی صاحب نے لکھا ہے کہ عرب کے متعدد بقائل ربیعہ، کلب، تغلب وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے، اور یہ دونوں مذاہب بری طرح انبیاء، اولیاء اور شہداء کی پرستش سے آلودہ تھے۔ یہ استدلال بھی باطل ہے کیونکہ جن قبائل کا مودودی صاحب نے ذکر کیا ہے یہ مدینہ اور اس کے مضافات میں تھے اور سورة النحل مکی ہے اور اس میں مکہ کے مشرکین سے خطاب ہے، یہود و نصاری کی اعتقادی خرابیوں پر مدنی سورتوں میں خطاب کیا گیا ہے۔

نیز مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا، بخاری میں ابن عباس کی روایت ہے کہ ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر یہ سب صالحین کے نام ہیں، جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے، یہ استدلال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ مشرکین نے صالحین کی فرضی صورتیں اور مورتیاں بنا لی تھیں، وہ ان صالحین کی پرستش اور عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان فرضی صورتوں اور مورتیوں کی عبادت کرتے تھے اور ان فرضی صورتوں اور بتوں کا ان نیک بندوں سے کوئی تعلق نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود کا یہ قول نقل فرمایا ہے :

اتجادلوننی فی اسماء سمیتموھا انتم واباؤکم ما نزل اللہ بھا من سلطان۔ (الاعراف :71) کیا تم مجھ سے ان ناموں کے متعلق جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی۔

اللات، العزی اور لمنات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم واباؤکم ما انزل اللہ بھا من سلطان ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس۔ (النجم : 23) یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ داد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے متعلق کوئی دلیل نازل نہیں کی وہ صرف گمان کی اور اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں۔

علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

کفار نے جن اصنام کا نام خدا رکھا ہے یہ محض اسماء ہیں ان کا کوئی مسمی نہیں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ما تعبدون من دونہ الا اسماء (یوسف :40) تم اللہ کے سوا جن کی پرستش کرتے ہو وہ صرف اسماء ہیں۔ (روح المعانی جز 27، ص 88، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1417 ھ)

اس لیے مودودی صاحب کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ صالحین کی عبادت کرتے تھے بلکہ وہ خالی ناموں کی عبادت کرتے تھے جن کا کوئی نام والا نہ تھا۔ 

مشرکین صالحین کی عبادت کرتے تھے اس پر مزید استدلال کرتے ہوئے سید مودودی صاحب اس سیاق میں لکھتے ہیں کہ یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے، وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ اساف اور نائلہ دونوں انسان تھے۔

حیرت ہے کہ سید مودودی نے بتوں کو صالحین قرار دینے کے وفور شوق میں اساف اور نائلہ کا بھی ذکر کردیا حالانکہ یہ صالح انسان نہ تھے بلکہ بدکار انسان تھے، اساف اور نائلہ کا ذکر صحیح مسلم کی حدیث 1277 میں ہے، اس کی شرح میں قاضی عیاض بن موسیٰ اندلسی متوفی 544 ھ اور ان کے حوالے سے دیگر شارحین اساف اور نائلہ کے متعق لکھتے ہیں :

مرد کا نام اساف بن نقاد تھا اور عورت کا نام نائلہ بنت ذئب تھا، ان دونوں کا تعلق قبیلہ جرھم سے تھا ان دونوں نے کعبہ کے اندر زنا کیا، اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو مسخ کر کے پتھر بنادیا اور ان دونوں پتھروں کو کعبہ میں نصب کردیا گیا، ایک قول یہ ہے کہ ان کو صفا اور مروہ پر نصب کردیا گیا تاکہ لوگ عبرت پکڑیں اور نصیحت حاصل کریں، پھر قصی نے ان کو وہاں سے نکالا اور ایک پتھر کو کعبہ میں نصب کیا اور ایک کو زمزم کے پاس، ایک قول ہے کہ دونوں کو زمزم کے پاس نصب کیا، اور ان پتھروں کے پاس قربانی کرنے اور ان کی عبادت کا حکم دیا، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو ان پتھروں کو توڑ ڈالا۔ ( اکمال المعلم بفوائد مسلم ج 4، ص 353، المفہم ج 3، ص 385، المسلم مع شرح النواوی ج 5 ص 3479، اکمال المعلم ج 4، ص 338)

ان دلائل سے معلوم ہوگیا کہ مشرکین مکہ انبیء، اولیاء، شہداء اور صالحین کی عبادت نہیں کرتے تھے، وہ صرف ان ناموں کی عبادت کرتے تھے جن کی انہوں نے فرضی مورتیاں بنا رکھی تھیں اور ناموں کا کوئی مسمی نہیں تھا اور وہ ان بدکار انسانوں کی عبادت کرتے تھے جن کو مسخ کر کے اللہ تعالیٰ نے پتھر بنادیا تھا۔

انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین کی حیات کا ثبوت 

سید مودودی لکھتے ہیں : اب لا محالہ اس آیت میں الذین یدعون من دون اللہ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کردیتے ہیں۔

سید مودودی صاحب کا شہداء کو اموات غیر احیاء میں شامل کرنا صراحتا قرآن عظیم کے خلاف ہے، اللہ تعالیٰ شہداء کے متعلق فرماتا ہے :

ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات، بل احیاء ولکن لا تشعرون۔ (البقرہ : 154) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں ان کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تم شعور نہیں رکھتے۔

ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون۔ (آل عمران : 169) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ گمان (بھی) مت کرو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے۔

اور انبیاء (علیہم السلام) بھی اپنی قبروں میں زندہ ہیں کیونکہ جن کی صرف موت فی سبیل اللہ ہے جب وہ زندہ ہیں تو جن کی موت اور حیات دونوں فی سبیل اللہ ہے تو وہ تو بطریق اولی زندہ ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

قل ان صلوتی ونسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔ (الانعام : 162) آپ کہیے کہ میری نماز اور میرا حج و قربانی اور میری زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔

اور خصوصیت کے ساتھ قبر میں انبیاء (علیہم السلام) کی حیات پر یہ حدیث دلیل ہے :

اوس بن اوس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے، اسی دن حضرت آدم کو پیدا کیا، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صورت پھونکا جائے گا، اسی دن لوگ بےہوش ہوں گے، تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے کہا : آپ پر ہمارا درود کیسے پیش کیا جائے گا، حالانکہ آپ کا جسم بوسیدہ پوچکا ہوگا، آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم کو کھانا حرام فرما دیا ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 1047، سنن النسائی رقم الحدیث : 1373، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1085 ۔ 1636)

حافظ ابن کثیر شافعی اور مفتی محمد شفیع دیوبندی نے انبیاء (علیہم السلام) کی حیات کی تصریح کی ہے۔

حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی 774 ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عاصیوں اور گناہ گاروں کو یہ ہدایت دی ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ ہوجائے تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور آپ کے پاس آکر استغفار کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ درخواست کریں کہ آپ بھی ان کے لیے اللہ سے درخواست کریں اور جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربان پائیں گے۔ مفسرین کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ ان میں الشیخ ابو منصور الصباغ بھی ہیں، انہوں نے اپنی کتاب الشامل میں عتبی کی یہ مشہور حکایت لکھی ہے کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی نے آکر کہا : السلام علیک یا رسول اللہ، میں نے اللہ عز وجل کا یہ ارشاد سنا ہے : ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جائوک، الایۃ : اور میں آپ کے پاس آگیا ہوں اور اپنے گناہ پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کی بارگاہ میں آپ سے شفاعت طلب کرنے والا ہوں، پھر اس نے دو شعر پڑھے :

اے وہ جو زمین کے مدفونین میں سب سے بہتر ہیں 

جن کی خوشبو سے زمین اور ٹیلے خوشبودار ہوگئے 

میری جان اس قبر پر فدا ہو جس میں آپ ساکن ہیں 

اسی میں عفو ہے اس میں سخاوت ہے اور لطف و کرم ہے 

پھر وہ اعرابی چلا گیا، عتبی بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر نیند غالب آگئی، میں نے خواب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی اور آپ نے فرمایا اے عتبی ! اس اعرابی کے پاس جاکر اس کو خوشخبردی دو کہ اللہ نے اس کی مغفرت کردی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج 1، ص 589، الجامع الاحکام لقرآن ج 5 ص 265، البحر المحیط ج 3، ص 694، مدارک التنزیل علی ہامش الخازن ج 1 ص 399)

مفتی محمد شفیع متوفی 1396 ھ لکھتے ہیں :

یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور آپ اس کے لیے دعا مغفرت کردیں اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیاوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے اس کے بعد مفتی صاحب نے بھی عتبی کی مذکور الصدر حکایت بیان کی۔ (معارف القرآن ج ٢ ص ٢٦٠۔ ٢٥٩۔ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی)

ان آیات، احادیث اور ایسے علماء کی تصریحات سے، جن کی ثقاہت سید مودودی کے نزدیک بھی مسلم ہے، یہ ثابت ہوگیا کہ انبیا (علیہم السلام) اور شہداء کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں، اور رہے اولیاء کرام اور صالحین سو وہ بھی اپنی قبروں میں برزخی حیات کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کو قبروں میں ثواب ہوتا ہے بلکہ برزخی حیات کے ساتھ تو کفار بھی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور اسی وجہ اسے ان کو قبروں میں عذاب ہوتا ہے، اگر برزخی حیات نہ مانی جائے تو عذاب قبر اور ثواب قبر کا کوئی معنی ہی نہیں ہے، اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ انبیاء، شہداء، اولیاء اور صالحین کو اموات غیر احیا کا مصداق قرار دینا باطل ہے، اموات غیر احیا کا مصداق صرف بت ہیں جن میں حیات کی کوئی رمق نہیں ہے۔ 

غوث اعظم اور غوث الثقلین ایسے القاب کا ثبوت :

سید مودودی نے اپنے زعم میں الذین یدعون من دون اللہ کا مصداق انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین کو ثابت کر کے لکھا ہے کہ جن کو غالی معتقدین داتا، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کردیتے ہیں۔

گویا کسی صالح انسان کو داتا، مشکل کشا اور فریاد رس وغیرہ کہنا اس آیت کی رو سے ممنوع اور ناجائز ہے، ہم ان القاب میں سے صرف فریاد رس کے متعلق گفتگو کر رہے اور فریاد رس کو عربی میں غوش کہتے ہیں اور سید مودودی کے مسلم بزرگوں نے حضرت عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کو غوث اعظم اور غوث الثقلین کہا ہے۔

شیخ اسماعیل دہلوی متوفی ١٢٤٦ ھ لکھتے ہیں :

بے سمجھ طالب جب معرفت ذات کے مقام پر پہنچتے ہیں اور سلوک متعارف کو ختم کرلیتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ہم بھی حضرت غوث اعطم اور حضرت خواجہ بزرگ نائب رسول اللہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت قطب الاقطاب حضرت خواجہ بختیار کا کی اور پیشوائے شریعت و طریقت، حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند اور حضرت امام ربانی قیوم زمانی حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی وغیرہم قدس اللہ اسرارہم اجمعین جیسے بڑے اولیاء اللہ کے ہم پایہ اور ہم مقام ہوگئے۔ (صراط مستقیم (فارسی) ص ١٣٢، صراط مستقیم (اردو) ص ٢٢٥ )

اس عبارت میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کو غوث اعظم کہا ہے۔

نیز شیخ اسماعیل دہلوی، سید احمد بریلوی کی روحانی تربیت کے متعلق لکھتے ہیں :

جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند کی روح مقدس آپ کے متوجہ حال ہوئیں اور قریبا عرصہ ایک ماہ تک آپ کے حق میں ہر دو روح مقدس کے مابین فی الجملہ تنازع رہا کیونکہ ہر ایک ان دونوں عالی مقام اماموں میں سے اس امر کا تقاضا کرتا تھا کہ آپ کو بتامہ اپنی طرف جذب کرلے تاآنکہ تنازع کا زمانہ گزرنے اور شرکت پر صلح کے واقع ہونے کے بعد ایک دن ہر دو مقدس روحیں آپ پر جلوہ گر ہوئیں اور تقریبا ایک پہر کے عرصہ تک وہ دونوں امام آپ کے نفس نفیس پر توجہ قوی اور پرزور اثر ڈالتے رہے، پس اسی ایک پہر میں ہر دو طریقہ کی نسبت آپ کو نصیب ہوئی۔ (صراط مستقیم (اردو) ص ٢٨٣، مطبوعہ لاہور، صراط مستقیم (فارسی) ص ١٦٦، طبع لاہور)

ان عبارات میں حضرت عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کو غوث اعظم اور غوث الثقلین کہا ہے یعنی سب سے بڑے فریاد رس اور جن و انس کے فریاد رس، نیز دوسرے اقتباس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ حضرت غوث اعظم اور خواجہ بہاء الدین جو اولیاء اور صالحین امت میں سے نہ صرف زندہ ہیں بلکہ وہ مسلمانوں کی تطہیر، تزکیہ اور ان کی تربیت بھی کرتے ہیں، چناچہ انہوں نے سید احمد بریلوی پر اپنی توجہ ڈالی اور ان کو اپنی نسبت سے مشرف فرمایا، اور یہ سب امور سید ابو الاعلی مودودی کے خلاف ہیں، ہم نے لکھا تھا کہ یہ لکھنے والے سید مودودی کے مسلم بزرگ ہیں، سو ملاحظہ فرمائیں۔

شاہ عبدالعزیز اور شیخ اسماعیل دہلوی کا سید مودودی کے نزدیک حجت ہونا :

سید ابو الاعلی مودودی، شیخ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کے متعلق لکھتے ہیں :

یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کی وفات پر پوری نصف صدی بھی نہ گزری تھی کہ ہندوستان میں ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی جس کا نصب العین وہی تھا جو شاہ صاحب نگاہوں کے سامنے روشن کر کے رکھ گئے تھے، سید صاحب کے خطوط اور ملفوظات اور شاہ اسماعیل شہید (سید صاحب 1201 ھ/1786 ء میں پیدا ہوئے اور 1246 ھ میں شہادت پائی۔ شاہ اسماعیل صاحب 1193 ھ میں پیدا ہوئے، 1246 ھ /1831 ء میں شہادت پائی۔ انقلابی تحریک کی چنگاری سید صاحب کے دل میں غالبا 1810 ء کے لگ بھگ زمانے میں بھڑک اٹھی تھی۔ (حاشیہ تجدید واحیاء دین ص 124، 125 ۔ مطبوعہ لاہور 1955 ء) کی منصب امامت، عبقات، تقویۃ الایمان اور دوسری تحریریں دیکھیے، دونوں جگہ وہی شاہ ولی اللہ صاحب کی زبان بولتی نظر آتی ہے۔ شاہ صاحب نے عملا جو کچھ کیا وہ یہ تھا کہ حدیث اور قرآن کی تعلیم اور اپنی شخصیت کی تاثیر سے صحیح الخیال اور صالح لوگوں کی ایک کثیر تعداد پیدا کردی، پھر ان کے چاروں صاحبزادوں نے، خصوصا شاہ عبدالعزیز صاحب نے اس حلقہ کو بہت زیادہ وسیع کیا، یہاں تک کہ ہزارہا ایسے آدمی ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیل گئے جن کے اندر شاہ صاحب کے خیالات نفوذ کیے ہوئے تھے، جن کے دماغوں میں اسلام کی صحیح تصویر آچکی تھی اور جو اپنے علم و فضل اور اپنی عمدہ سیرت کی وجہ سے عام لوگوں میں شاہ صاحب اور ان کے حلقے کا اثر قائم ہونے کا ذریعہ بن گئے تھے۔ اس چیز نے اس تحریک کے لیے گویا زمین تیار کردی جو بالآخر شاہ صاحب ہی کے حلقے سے، بلکہ یوں کہیے کہ ان کے گھر سے اٹھنے والی تھی۔ (تجدید و احیاء دین ص 125، 124 ۔ مطبوعہ لاہور، 1955)

بہرحال سید ابو الاعلی مودودی کے مسلم بزرگ شاہ اسماعیل کی تحریر سے ثابت ہوگیا کہ اولیاء اللہ زندہ ہوتے ہیں اور اس جہان میں تصرف بھی کرتے ہیں جیسا کہ حضرت غوث اعطم اور خواجہ بہاء الدین نے سید احمد بریلوے پر تصرف فرمایا اور ان کو اپنی نسبتوں سے نوازا۔

انبیاء (علیہم السلام) سے حاجت روائی :

اس بحث کو مکمل کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ یہ بھی واضح کردیں کہ سید مودودی نے انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام سے حاجت روائی کو اس آیت کے تحت کافروں کا فعل قرار دیا ہے، ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے دور خلافت میں صحابہ اور تابعین نے رسول اللہ سے حاجت روائی کی ہے، لہذا انبیاء (علیہم السلام) سے حاجت روائی کرنا صحابہ اور تابعین کی سنت اور ان کی اقتدا ہے، کافروں اور مشرکوں کا فعل نہیں ہے۔

حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں صحابہ کا رسول اللہ سے دعا کی درخواست کرنا :

حضرت عمر کے زمانہ میں ایک سال قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث مزنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضہ پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے۔ 

حافظ ابن ابی شیبہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

مالک الدار، جو حضرت عمر کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے زمانہ میں (ایک بار) لوگوں پر قحط آگیا، ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی) رسول اللہ کی قبر مبارک پر گیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہورہے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ، ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی، اور ان سے کہو تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے، تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے، پھر وہ حضرت عمر کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی۔ حضرت عمر رونے لگے اور کہا : اے اللہ میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس سے میں عاجز ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 12، ص 32، البدایہ والنہایہ ج 5، ص 167، الکامل فی التاریخ ج 2، ص 390، 398)

حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (فتح الباری ج 2، ص 496، 495، طبع لاہور)

حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں صحابہ کا رسول اللہ سے دعا کی درخواست کرنا :

حضرت عثمان بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے۔ ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی، اس نے حضرت بن حنیف سے اس بات کی شکایت کی، حضرت عثمان نے اس سے کہا : تم وضو خانہ جاکر وضو کرو، پھر مسجد میں جاؤ اور وہاں دو رکعت نماز پڑھو، پھر یہ کہو اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی، نبی رحمت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاؤں۔ وہ شخص گیا اور اس نے حضرت عثمان بن حنیف کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیا، پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا، دربان نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور ان کو حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے گیا، حضرت عثمان نے اس کو اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اور پوچھا تمہارا کیا کام ہے ؟ اس نے اپنا کام ذکر کیا، حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا : تم نے اس سے پہلے اب تک اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا : جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا، پھر وہ شخص حضرت عثمان کے پاس سے چلا گیا اور جب اس کی حضرت عچمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، حضرت عثمان میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے، حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی۔ حضرت عثمان بن نیف نے کہا : بخدا ! میں نے حضرت عثمان سے کوئی بات نہیں کی، لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ کی خدمت میں موجود تھا، آپ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے اپنی نابینائی کی آپ سے شکایت کی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم اس پر صبر کرو گے ؟ اس نے کہا : یا رسول اللہ مجھے راستہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : تم وضو خانے جاؤ اور وضو کرو، پھر دو رکعت نماز پڑھو، پھر ان کلمات سے دعا کرو۔ حضرت عثمان بن حنیف نے کہا : ابھی ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص آیا درآنحالیکہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ ( المعجم الصغیر ج 1، ص 183، المعجم الکبیر رقم الحدیث : 8311)

حافظ منذری، حافظ الہیثمی اور شیخ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (الترغیب والترہیب ج 1 ص 476، 474، مجمع الزوائد ج 2، ص 279، فتاوی ابن تیمیہ ج 1، ص 195، 194)

اولیاء اللہ سے حاجت روائی :

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفی 1239 ھ بھی سید مودودی کے مسلم بزرگ اور حجت ہیں، لہذا ہم اولیاء اللہ سے حاجت روائی کے جواز پر ان کی عبارت نقل کر رہے ہیں، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں :

از اولیاء مدفونین و دیگر صلحا مومنین انتفاع و استفادہ جاری است و آنہار افادہ و اعانت نیز متصور بخلاف مردہ ہائے سوختہ کہ این چیزہا اصلا نسبت بآنہادر اہل مذہب آنہا نیز واقع نیست۔ (وصال پانے والے اولیاء اور دیگر صلحاء مومنین سے استفادہ اور استعانت جاری وساری ہے اور ان اولیاء و صلحاء سے افادہ اور امداد بھی متصور ہے، بخلاف ان مردوں کے جن کو جلا دیا جاتا ہے کیونکہ ان سے یہ امور ان کے مذہب میں بھی جائز نہیں ہیں۔ (تفسیر عزیزی پ 30، ص 0، مطبوعہ افغانستان)

نیز شاہ صاحب لکھتے ہیں :

و بعضے از خواص اولیاء اللہ را کہ آلہ جارحہ تکمیل و ارشاد بنی نوع خود گردانیدہ دریں حالت ہم تصرف در درنیا دادہ و استغراق آنہابہ جہت کمال و سعت مدارک آنہا مانع توجہ بایں سمت نمے گردد و اویسیاں تحصیل کمالات باطنی از آنہامے نمایندو ارباب حاجات و مطالب حل مشکلات خود از آنہامے بلندو مے یا بند و زبان حال آنہا در آنوقت بہم مترنم بایں مقالات است۔ مصرعہ۔ من آیم بجاں گر تو آئی بہ تن۔ (وہ خاص الیاء اللہ جنہوں نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے وفات کے بعد بھی دنیا میں تصرف کرنے کی طاقت پاتے ہیں اور ان کا امور اخروی میں مستغرق ہونا بسبب وسعت ادراک کے دنیا کی طرف توجہ کرنے سے مانع ہیں ہوتا۔ اویسی سلسلہ کے حضرات اپنے باطنی کمالات ان کی طرف منسوب کرتے ہیں اور حاجت مندان سے حاجت طلب کرتے ہیں اور مراد پاتے ہیں اور ان کی زبان حال اس وقت یوں گویا ہوتی ہے کہ اگر تم بدن سے میری طرف بڑھو گے تو میں روح سے تمہاری طرف پیش قدمی کروں گا۔ ) (تفسیر عزیزی پ 30، ص 113، مطبوعہ افغانستان)

سید مودودی کی تفسیر کے رد میں بحث طویل ہوگئی لیک ہم یہ چاہتے تھے کہ اس بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے اور یہ وضح ہوجائے کہ والذین یدعون من دون اللہ اور اموات غیر احیاء کا مصداق انبیاء علیہم السلام، اولیاء کرام اور شہداء اور صالحین نہیں، اس کا مصداق صرف بت ہیں اور اس سلسلہ میں سید ابو الاعلی مودودی کے تمام شبہات کا جواب ہوجائے۔ انبیاء (علیہم السلام) کی تعظیم و تکریم اور ان کی حرمت جو میرے دل میں جاگزین ہے اس کے تقاضے سے میں نے یہ بحث لکھی ہے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 20