أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَيَجۡعَلُوۡنَ لِلّٰهِ مَا يَكۡرَهُوۡنَ وَتَصِفُ اَلۡسِنَـتُهُمُ الۡـكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَ اَنَّهُمۡ مُّفۡرَطُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور وہ اللہ کے لیے ان چیزوں کو تجویز کرتے ہیں جن کو وہ خود اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں، اور ان کی زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے، بیشک ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے اور وہ (اس میں) سب سے پہلے بھیجے جائیں گے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ اللہ کے لیے ان چیزوں کو تجویز کرتے ہیں جن کو وہ خود اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں، اور ان کی زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے، بیشک ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے اور وہ (اس میں) سب سے پہلے بھیجے جائیں گے۔ (النحل : ٦٢ )

اور وہ اللہ کے لیے ان چیزوں کو تجویز کرتے ہیں جن کو وہ خود اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں۔ اس سے مراد ان کے وہ فاسد اور بےہودہ اقوال ہیں کہ وہ اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ 

اور ان کی زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے۔ بھلائی کی تفسیر میں کئی اقول ہیں :

ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بیٹے ہیں وہ کہتے تھے کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ہمارے بیٹے ہیں،

دوسرا قول یہ ہے کہ وہ اپنے کفر، شرک اور فاسد اقوال کے باوجود یہ کہتے تھے کہ ہمارا دین برحق ہے اور اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے،

تیسرا قول یہ ہے کہ وہ یہ کہتے تھے کہ ہم کو آخرت میں ثواب ہوگا اور جنت ملے گی، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ کفار مکہ قیامت اور آخرت کے قائل نہیں تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مشرکین کی ایک جماعت آخرت اور حشر کی قائل تھی۔ (زاد المسیر ج ٤ ص ٤٦٠ )

مفرطون کا معنی :

بیشک ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے اور وہ اس میں سب سے پہلے بھیجے جائیں گے۔

اس آیت میں مفرطون کا لفظ ہے اور یہ لفظ فرط سے بنا ہے۔ علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ اس کے معنی میں لکھتے ہیں :

جب کوئی شخص اپنے قصد اور ارادہ سے پہلے یا آگے پہنچے تو فرط کہتے ہیں اور فارط اس شخص کو کہتے ہیں جو کنویں کے ڈول کی اصلاح کے لیے کنویں پر پہلے پہنچ جائے۔ بچہ کی نماز جنازہ میں یہ دعا ہے :

اللھم اجعلہ لنا فرطا۔ (سنن بیہقی ج ٤ ص ٩، ١٠) اے اللہ اس کو ہمارا پیش رو بنادے۔

اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

انا فرطکم علی الحوض۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : ٦٥٧٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٩٧) میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔ (المفردات ج ٢ ص ٤٨٧، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

امام عبدالرحمن علی بن محمد الجوزی المتوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :

مفرطون ر کی زبر اور ر کی زیر دونوں سے پڑھا گیا ہے اور اکثر کی قرات ر کی زبر ہے، اس صورت میں اس کے معنی میں دو قول ہیں : حضرت ابن عباس اور فرا نے یہ کہا کہ انہیں دوزخ کی آگ میں ڈال کر بھلا دیا جائے گا، اور حضرت ابن عباس کا دوسرا قول ہے، کہ انہیں دوزخ میں جلدی ڈال دیا جائے گا، ابن قتیبہ نے بھی یہی کہا ہے، اور زجاج نے کہا لغت میں فرط کا معنی ہے متقدم، پس مفرطون کا معنی ہے وہ دوزخ میں سب سے پہلے بھیجے جائیں گے اور جنہوں نے مفرطون کی یہ تفسیر کی ہے کہ ان کو دوزخ میں چھوڑ دیا جائے گا ان کی بھی یہی مراد ہے، یعنی ان کو سب سے پہلے دوزخ میں ڈالا جائے گا پھر ان کو دائمی عذاب میں چھوڑ دیا جائے گا۔

ابو عمر، کائی اور قتیبہ نے مفرطون کو ر کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے، زجاج نے کہا اس کا معنی ہے انہوں نے اللہ کی معصیت میں افراط کیا یعنی بہت زیادہ معصیت کی، اور ابو جعفر اور ابن ابی عبلہ نے اس کو ف کی زبر اور ر کی تشدید اور زیر کے ساتھ پڑھا، زجاج نے کہا اس کا معنی ہے انہوں نے دنیا میں تفریط کی اور آخرت کے لیے عمل نہیں کیا اس کی تصدیق اس آیت میں ہے :

ان تقول نفس یحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ۔ (الزمر : ٥٦) کوئی شخص کہے ہائے افسوس ان کوتاہیوں پر جو میں نے اللہ کے متعلق کیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 62