أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَيَوۡمَ نَـبۡعَثُ مِنۡ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيۡدًا ثُمَّ لَا يُؤۡذَنُ لِلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَلَا هُمۡ يُسۡتَعۡتَبُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ پیش کریں گے، پھر کافروں کو بولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ان سے عتاب دور کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ پیش کریں گے، پھر کافروں کو بولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ان سے عتاب دور کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اور جب ظالم لوگ عذاب دیکھیں گے تو ان سے نہ عذاب میں تخفیف کی جائے گی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ (النحل : ٨٤، ٨٥)

آخرت میں کفار کے احوال :

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق بیان فرمایا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچاننے کے باجو ود ان کا کفر کیا اور یہ فرمایا کہ ان میں سے اکثر کافر ہیں۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب کی وعید بیان فرمائی اور قیامت کے دن ان کا جو حال ہوگا اس کا بیان فرمایا۔ سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ پیش کریں گے، یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ گواہ ان کے خلاف ان کے کفر کی گواہی دیں گے، ان گواہوں سے مراد انبیاء (علیہم السلام) ہیں جیسا کہ اس آیت میں ارشاد ہے :

فکیف اذا جعنا من کل امۃ بشھید و جعنا بک علی ھولاء شھیدا۔ (النساء : ٤١) اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ پیش کریں گے اور (اے رسول مکرم) اور ہم آپ کو ان سب پر گواہ بنا کر پیش کریں گے۔

اس کے بعد فرمایا پھر کافروں کو بولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس ارشاد کے حسب ذیل محامل ہیں :

١۔ قیامت کے دن کافروں کو اپنے کفر پر عذر پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جیسا کہ اس آیت میں ہے :

ولا یوذن لھم فیعتذرون۔ (المرسلات : ٣٦) اور ان کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ عذر پیش کریں۔

٢۔ ان کو آخرت سے دیا کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ان کو دوبارہ ایمان لانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔

٣۔ جس وقت گواہ ان کے خلاف گواہی دیں گے اس گواہی کے دوران ان کو بولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

٤۔ ان کو زیادہ باتیں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ اس دن وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوں گے۔

اس کے بعد فرمایا ولا ھم یستعتبون اور نہ ان سے عتاب دور کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

عتاب کا معنی :

العتبۃ اسم جامد ہے اس کا معنی ہے سیڑھی کا ڈنڈا یا چوکھٹ، حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کی بیوی سے کہا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو اس اسے کہا غیر ( علیہ السلام) تبۃ بابہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کرلو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٦٥) اور العتب اسم مصدر ہے رنج اور غصہ کرنا، ملامت کرنا، سرزنش کرنا، اعتب کا معنی ہے ناراضگی کے سبب کو دور کرنا، راضی کرنا اس میں ہمزہ سلب ماخذ کے لیے ہے اور استعتب کا معنی ہے رضا مندی طلب کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ استعتبتہ فاعتبنی میں نے اس سے رضا مندی طلب کی تو اس نے مجھ سے خفگی زائل کردی اور مجھ سے راضی ہو یا۔ العتب کا معنی شدت اور سختی بھی ہے۔ (کتاب العین ج ٢ ص ١١٣٠، المفردات ج ٢ ص ٤١٧، مکہ مکرمہ، مختار الصحاح ص ٢٤٧، بیروت، المنجد ص ٤٨٥، ایران)

علامہ ابو السعادات المبارک بن محمد المعروف بابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

العتب کا معنی ہے رنج اور افسوس کرنا، ناراضگی کا اظہار کرنا اور العتاب کا معنی ہے کسی پر افسوس کرنا اور اس کو ملامت کرنا اور استعتب کا معنی ہے کسی کی رضا کو لطب کرنا۔ حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

لا یتمنی احدکم الموت اما محسنا فلعلہ یزداد وما امسیئا فلعلہ۔ تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو ہوسکتا ہے وہ زیادہ نیکیاں کرے اور اگر وہ بدکار ہے تو ہوسکتا ہے وہ برائی سے باز آجائے اور اللہ سے اس کی رضا کو لطب کرے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٢٣٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٠٤٩، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٠٩٤٥ )

کافروں کے عذاب میں تخفیف نہ کرنے کی تفسیر البقرہ : ٨٦میں ملاحظہ فرمائیں :

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 84