أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِۙ لَا يَهۡدِيۡهِمُ اللّٰهُ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

بیشک جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ ان کو ہدایت نہیں فرماتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ ان کو ہدایت نہیں فرماتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (النحل : ١٠٤)

مشرکین کو ہدایت نہ دینے کی وجوہ :

یعنی یہ مشرکین جو قرآن مجید پر ایمان نہیں لاتے، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہ مشرکین کبھی قرآن مجید کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ اگلوں پچھلوں کے قصے کہانیاں ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ شاعر کا قول ہے یعنی خیالی اور افسانوی باتیں ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی بشر نے یہ کلام سکھا دیا تھا، یہ لوگ قرآن عظیم کے کلام اللہ ہونے پر ایمان نہیں لاتے اور طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں، اور ان کے اعتراضات مکڑی کے جالے سے بھی کمزور اور باطل ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ کی آیتوں سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات ہیں اور قرآن مجید کی آیات بھی آپ کے معجزات میں داخل ہیں بلکہ وہ سب سے بڑا معجزہ ہیں۔

اللہ ان کو ہدایت نہیں فرماتا، اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ان کو ہدایت نہیں دیتا، اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں جنت کی طرف ہدایت نہیں دے گا، یعنی جنت کا راستہ نہیں دکھائے گا۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب اللہ ان کو ہدایت نہیں دیتا تو پھر ان کے ایمان نہ لانے میں ان کا کیا قصور ہے۔ اس سوال کے متعدد جوابات ہیں :

١۔ چونکہ انہوں نے ایمان لانے کا ارادہ نہیں کیا اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں ایمان کو پیدا نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان میں سی چیز کو پیدا فرماتا ہے جس کا انسان ارادہ کرتا ہے۔

٢۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر پر اصرار، عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نہیں دے گا۔

٣۔ چونکہ انہوں نے قرآن مجید کی آیات کو اللہ کا کلام نہیں مانا بلکہ اس کو کسی عجمی بشر کا کلام کہا اس کی سزا کے طور پر اللہ ان کو ہدایت نہیں دے گا۔ 

٤۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نہیں دیتا، اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہدیات کو قبول نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے تو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ ان کو بار بار ہدایت دی اور قرآن مجید کے ذریعہ ہدایت دی نیز آپ کو جو معجزات عطا فرمائے، ان کے واسطہ سے ہدایت دی لیکن انہوں نے ان تمام اقسام کی ہدایتوں کے باوجود آپ کی ہدایت کو قبول نہیں کیا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :

واما ثمود فھدینھم فاستحبوا العمی علی الھدی۔ (حم السجدہ : ١٧) اور رہے ثمود کے لوگ تو ہم نے ان کو ہدایت فرمائی، سو انہوں نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی۔

٥۔ اس آیت میں تقدیم اور تاخیر ہے اور اس کا معنی اس طرح ہے جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نہیں دے گا۔ جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت میں ہے :

فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم واللہ لا یھدی القوم الفسقین۔ (الصف : ٥) پھر جب انہوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیئے اور نافرمانی کرنے والے لوگوں کو اللہ ہدایت نہیں فرماتا۔

٦۔ جو لوگ اپنے کفر اور ہٹ دھرمی پر اصرار کرتے ہیں اور تمام شبہات کو زائل کردینے کے باوجود اپنی ضد اور عناد سے باز نہیں آتے اور قرآن مجید کی آیتوں کے کلام اللہ ہونے سے انکار کرتے اور اس کو کسی بشر کی تعلیم کا نتیجہ کہتے ہیں اس آیت میں ان کو تہدید کی گئی ہے اور ان کو دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 104