أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ؕ وَسَآءَ سَبِيۡلًا ۞

ترجمہ:

اور زنا کے قریب نہ جاؤ بیشک وہ بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور زنا کے قریب نہ جاؤ بیشک وہ بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٢)

حسن اور قبح کے عقلی ہونے پر دلائل :

اشاعرہ اور ماتریدیہ کا اس میں اختلاف ہے کہ اشیا کا حسن اور قبح عقلی ہے یا شرعی ہے، اشاعرہ کہتے ہیں کہ حسن اور قبح شرعی ہے اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دے دیا ہے وہ حسین ہے اور جس چیز سے منع فرما دیا ہے وہ قبیح ہے اپنی ذات میں کوئی کام اچھا ہے نہ برا ہے، سچ بولنا اس لیے اچھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کا حکم دیا اور جھوٹ بولنا اس لیے برا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے کا حکم دیتا تو وہ اچھا ہوتا اور سچ بولنے سے منع فرماتا تو وہ برا ہوتا، لہذا اشیا کا حسن اور قبح شرعی ہے۔ ماتریدیہ کہتے ہیں کہ اس طرح نہیں ہے سچ بولنا، عبادت کرنا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا یہ سب اپنی ذات میں اچھے کام تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا حکم دیا ہے اور جھوٹ بولنا، کفر کرنا اور زنا کرنا یہ کام اپنی ذات میں برے اور قبیح تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے منع فرمایا لہذا اشیا کا حسن اور قبح شرعی نہیں ہے، عقلی ہے، اور یہ آیت ماتریدیہ کی دلیل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زنا کرنے سے منع فرمایا اور اس کی دلیل یہ دی کہ وہ بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے اور چونکہ عقل کے نزدیک زنا بےحیائی ہے اور برا کام ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا، پس ثابت ہوا کہ اشیا کا حسن اور قبح عقلی ہے۔

عورتوں کی آزادی کے نتائج :

دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ زنانہ کرو بلکہ یہ فرمایا کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ یعنی ایسا کوئی کام نہ کرو جو زنا کا محرک ہو اور زنا کا باعث اور سبب بنے، مثلا اجنبی عورتوں سے تعلق پیدا کرنا، ان سے خلوت میں ملاقات کرنا، ان سے ہنسی اور دل لگی کی باتیں کرنا اور ان سے ہاتھ ملانا اور بوس و کنار کرنا مغربی تہذیب میں یہ تمام امور عام ہیں اور زندگی کے معمولات میں داخل ہیں اسی وجہ سے وہاں زنا بھی عام ہے، ساحل سمندر پر، پارکوں میں یہ سب ہوتا رہتا ہے اور آئے دن سڑکوں پر ناجائز بچے ملتے رہتے ہیں جس طرح ہمارے ہاں کوئی شخص کثیر الاولاد ہوتا ہے اسی طرح ان کے ہاں کوئی شخص کثیر الولدیت ہوتا ہے اور لوگ فخر سے بیان کرتے ہیں کہ میں محبت کی پیداوار ہوں، اسلام نے اسی بندش کے لیے عورتوں کو پردہ میں رہنے کا حکم دیا اور عورتوں اور مردوں کے آزادانہ میل جول کو سختی سے روکا ہے، مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو گھروں میں قید کردیا ہے میں کہتا ہوں کہ عورتوں کا گھر میں مقید رہنا اس سے بہتر ہے کہ وہ محض جانوروں کی طرح ہوس پوری کرنے کا آلہ بن جائیں۔

حرمت زنا کی وجوہ :

زنا کا فعل حسب ذیل مفاسد اور خرابیوں پر مشتمل ہے :

١۔ زنا سے نسب مختلط اور مشتبہ ہوجاتا ہے اور انسان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ زانیہ سے جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ اس کے نطفہ سے ہے یا کسی اور کے نطفہ سے ہے، اس لیے اس کے دل میں اس بچہ کی پرورش کی کوئی امنگ ہوتی ہے نہ کوئی جذبہ ہوتا ہے اور نہ وہ اس کی نگہداشت کرتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ بچہ ضائع ہوجاتا ہے اس سے نسل منقطع ہوتی ہے اور عالم کا نظام فاسد ہوجاتا ہے۔

٢۔ جو عورت زنا کرتی ہے وہ کسی ایک مرد کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتی اس کے پاس کئی مرد آتے ہیں، پھر بعض اوقات ان مردوں میں رقابت اور حسد پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے قتل و غارت تک نوبت آجاتی ہے۔

٣۔ جو عورت زنا کاری میں مشغول ہوتی ہے اور اس کی عادی بن جاتی ہے اس سے ہر سلیم الطبع متنفر ہوتا ہے اور وہ نکاح کرنے کی اہل نہیں رہتی، معاشرہ میں اس کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

٤۔ اگر زنا عام ہوجائے تو نہ مرد کسی عورت کے ساتھ مخصوص ہوگا اور نہ عورت کسی مرد کے ساتھ مخصوص ہوگی، ہر مرد ہر عورت سے اور ہر عورت ہر مرد سے اپنی خواہش پوری کرسکے گا اس وقت انسانوں میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہے گا، کوئی کسی کا باپ ہوگا نہ کوئی کسی کا بیٹا ہوگا قرابت داری اور رشتہ داری کا تصور ختم ہوجائے گا۔

٥۔ عورت صرف اس لیے نہیں ہوتی کہ اس کے ساتھ جنسی عمل کیا جائے بلکہ وہ گرہستی کی تعمیر میں مرد کی شریک کار ہوتی ہے، کھانے پینے، پہننے اور رہنے کے مسائل میں مرد کے دوش بدوش ہوتی ہے، عائلی اور خانگی زمہ دار یوں کو پورا کرتی ہے، بچوں کی تربیت کرتی ہے اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ نکاح کے ذریعہ صرف ایک مرد کے ساتھ مخصوص ہو اور باقی مردوں سے منقطع ہو اور یہ مقصود اسی وقت پورا جب زنا کر حرام کردیا جائے اور اس باب کو بالکلیہ بند کردیا جائے۔

٦۔ جنسی عمل بہت شرمناک فعل ہے اس لیے یہ عمل اس جگہ اور اس وقت کیا جاتا ہے جس جگہ اور جس وقت کوئی دیکھنے والا نہ ہو، لوگ اس کا کھل کر ذکر نہیں کرتے اس میں شرم محسوس کرتے ہیں اگر فروغ نسل کا اس سے تعلق نہ ہوتا تو اس کو مشروع نہ کیا جاتا ایک عورت صرف ایک مرد کے ساتھ مخصوص ہوگی تو یہ عمل کم ہوگا اور زنا کی صورت میں یہ عمل زیادہ ہوگا اس وجہ سے بھی زنا ممنوع اور حرام ہونا چاہیے۔

٧۔ منکوحۃ کا اس کا خاوند زمہ دار ہے اور وہ اس کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا پابند ہوتا ہے اور اس کی ضروریات کا کفیل ہوتا ہے اور اس کی بیوی اس کی دکھ سکھ کی ساتھی ہوتی ہے اس کے بچوں کی ماں ہوتی ہے، شوہر مرجائے تو اس کے ترکہ کی وارث ہوتی ہے اس کا مستقبل محفوظ ہوتا ہے اس کے برخلاف زانیہ کے ساتھ صرف وقتی اور عارضی تعلق ہوتا ہے، اس کے کھانے، کپڑے اور رہنے کا کوئی کفیل ہوتا ہے نہ ذمہ دار ہوتا ہے اسے اپنے مستقبل کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

٨۔ بعض مردوں کو پوشیدہ بیماریاں ہوتی ہیں اور جن عورتوں کے پاس وہ جاتے ہیں ان عورتوں کو ان مردوں سے وہ بیماریاں لگ جاتی ہیں پھر ان عورتوں سے دوسرے مردوں میں وہ بیماریاں پھیلتی ہیں، یوں زنا کے ذریعہ آتشک، سوزاک اور ایڈز ایسی مہلک بیماریاں معاشرہ میں پھیل جاتی ہیں۔

یہ آٹھ وجوہ ایسی ہیں کہ ان میں سے ہر وجہ زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 32